حقوقِ نسواں اور آزادیٔ نسواں کی بازگشت

0

ڈاکٹرریحان اختر
عصر حاضر میں عورت کی حیثیت پر بات کرنا ایک عام موضوع بن چکا ہے۔ ویسے تو یہ موضوع پورا سال میڈیا کی توجہ کا مرکز رہتا ہے مگر8 مارچ عالمی یوم خواتین کے موقع پر یہ بحث شدت اختیار کر جاتی ہے خصوصا گزشتہ چند سالوں سے Feminismنظریات کی حامل نجی تنظیموں نے اس دن کو باقاعدہ پلاننگ کے تحت منانا شروع کر دیا ہے اور اپنے Feministنظریات کا پرچار پورے اعتماد کے ساتھ کرتی نظر آتی ہیں ،ایسے میں خواتین کے لئے بہت ضروری ہے کہ وہ یہ جانیں کہ بنیادی طور پر Feminismکی اصطلاح کب استعمال ہونا شروع ہوئی،وہ کیا وجوہات تھیں کہ خواتین کو اپنے حقوق کی آواز بلند کرنا پڑی اور سب سے اہم ہے یہ جاننا کہ کب خواتین کے حقوق کے لئے لڑی جانے والی جنگ آزادیٔ نسواں کے نعرے میں تبدیل ہو گئی۔
بات چونکہ حقوق نسواں سے شروع ہوئی تھی لہٰذا پہلے دیکھنا یہ ہے کہ حق سے کیا مراد ہے حق کی ایک تعریف یہ ہے کہ جو شے انسان کے فائدہ کیلئے ہوتی ہے وہ حق کہلاتی ہے اور جو اْس کے ذمہ عائد ہو اْس کا نام فرض ہے۔ یہ تو تھی حق کی تعریف اب دیکھنا یہ ہے کہ آزادی سے مراد کیا ہے؟آزادی ہر جاندار کا فطری حق یعنی کوئی ذی روح اپنے ارادوں کو جس طرح چاہے پورا کرے اس پر کوئی دباو یا پابندی نہ ہو لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا ناممکنات میں ہے۔ اگرچہ انسان کو آزادی کا حق حاصل ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کی آزادی پر دست درازی نہ کرے کیونکہ آزادی صرف اْسی صورت برقرار رہ سکتی ہے جب دوسروں کی آزادی کو مجروح نہ کیا جائے۔ مغربی مفکرین کے نزدیک آزادی یہی ہے کہ ایک قوم اپنے ملک اور نسل کے زعماء کے بنائے ہوئے قوانین کا اتباع کرے لیکن ایک پرندہ دوسرے پرندے کے قوانین کا اتباع کیوں کرے۔ سابقہ تاریخ کے تجربات سے واضح ہے کہ انسان اپنا واضح قانون بنانے سے قاصر ہے۔ اس لیے اللہ کو حاکمِ اعلیٰ سمجھنے سے انسان اللہ کے بنائے ہوئے قوانین پر چلتا ہے جن کا حکم دیا گیا یہی انسان کی آزادی ہے۔غرض آزادی سے مراد معاشرے میں رہتے ہوئے تقریر و تحریر، رائے، ملکیت میں تصرف ہر قسم کی آزادی حاصل ہونا ہے۔اس آزادی کی تعریف فرانس کے مشہور انسانی حقوق کے اعلان 1784 میں اس طرح کی گئی تھی:
’’انسان کیلئے ان تمام اختیارات کی آزادی جو دوسروں کیلئے نقصان کا باعث نہ ہو‘‘۔
اسی آزادی کا نعرہ عورت نے بھی لگایا جب سترہویں صدی عیسوی میںمغربی معاشرے میں رہنے والے افراد نے ظالمانہ بادشاہی نظام کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے بنیادی حق آزادی کا نعرہ بلند کیا کہ ہمیں قول، فعل، عمل میں ہر طرح آزادی ہونی چاہیے بحیثیت انسان ہم اپنی زندگی کسی کے تابع گزارنے کے پابند نہیں بلکہ آزاد ہیں یہ آزادی کا نعرہ آہستہ آہستہ اسقدر زبان زدِ عام ہوا کہ ظلم و ستم کا شکار عورت بھی اپنے اس بنیادی حق کیلئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اسی آزادی کا نعرہ عورت نے بھی لگایااور آزادی نسواں کا نعرہ زبان زد عام ہو گیا۔
آزادی نسواں سے عموماً مراد خواتین کو بنیادی حقوق کی فراہمی لیا جاتا ہے۔۔ عورت نے اگرچہ مختلف وقتوں میں اپنے حقوق کے لیے جنگ لڑنے کی کوشش کی مگر خاطر خواہ اضافہ نہ ہوا پھر۱۷۹۲ میں میری وولٹسن کرافٹ کی کتاب نے باقاعدہ عورتوں کے حقوق کی جنگ چھیڑدی۔ عورت نے انقلاب فرانس کے بعد اپنی جدوجہد حقوق کے حصول کے لیے جاری رکھی لہٰذا ابتداء میں آزادی نسواں کی اصطلاح نہ تھی بلکہ حقوق نسواں کا نعرہ بلند کیا گیا تھا جو بعد ازاں آزادی نسواں کا نعرہ بن گیا بہر حال مغرب میں عورتوں نے اٹھارویں صدی میں باقاعدہ اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کی۔ عورتوں کو مردوں کی غلامی سے نجات دلانے کے تصور سے برپا کی جانے والی یہ تحریک بہت جلد اپنے رنگ ڈھنگ بدلنے لگی یورپ کا خاندانی نظام تباہ و برباد ہونا شروع ہوگیا معاشرتی برائیوں نے تیزی سے جنم لینا شروع کر دیا پھر سب سے زیادہ جو تبدیلی عورت کی سوچ میں آئی وہ یہ تھی کہ یورپ میں جنگ عظیم دوم سے قبل عورت کا اصل مقام گھر تصور کیا جاتا تھا اور وہ بچوں کی پرورش اور نگہداشت پر توجہ دیتی لیکن مساوی حقوق کا مطالبہ کرتے کرتے عورت اس نہج پر سوچنا شروع ہو گئی کہ بچوں کی ذمہ داری سے کیسے جان چھڑائے پھر عورتوں کے حقوق کیلئے جو تحریک اْٹھی اس میں کئی گروہ بن گئے کچھ کا مطالبہ مساوی حقوق تھے کچھ نے تو مرد کے وجود سے ہی انکار کر دیا۔
آزادی نسواں سے متعلق مختلف ادوار میں نظریات بھی مختلف رہے ہیں جیسے آغاز میں جب آزادی نسواں کا نعرہ بلند کیا گیا تو یہ عورت کے بنیادی حقوق کی فراہمی کیلئے تھا مگر آہستہ آہستہ یہ نعرہ حقوق سے آگے مردوں کے مساویانہ حقوق کے مطالبہ پر چلا گیا اور پھر اس سے اگلا قدم مردوں کی صنف سے نفرت اور انکار تھا یوں آزادی نسواں جسے تحریک نسائیت (Feminism) کا نام بھی دیا گیا ہر دور میں اس کے تقاضے بدلتے رہے اس کے ساتھ ساتھ نسائیت سے متعلق نظریات بھی بدلنا شروع کئے یہ وہ موضوع ہے جس پر ہر دور میں قلم اْٹھایا گیا کچھ نے اس تصور کے حق میں اور کچھ نے اس تصور کے خلاف مگر حقیقت یہ ہے کہ نسائیت کے مختلف مکاتب فکر نے جو نظریات پیش کیے وہ ہر طبقے کیلئے قابل قبول نہ تھا۔
فیمینزم کی بنیاد:
اس تحریک کی بعض وجوہات ہیں جس کے پس پردہ کچھ حقائق ہیں: مغرب میں خواتین کو بے جا پابندیوں کا نشانہ بنایا جاتا تھا انہیں گھروں میں محبوس رکھا جاتا تھا۔ ان پر کسی بھی قسم کی پراپرٹی خریدنے کا اس کی ملکیت حاصل کرنے پر پابندی عائد تھی۔ ان پر حصول علم کے دروازے بند تھے۔ حتی کہ انیسویں صدی تک مغرب کے مرد کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنی بیوی کو بیچ سکتا تھا۔ خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق بھی حاصل نہ تھا۔ خواتین بنیادی انسانی حقوق سے محروم تھیں اور انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہی تھیں۔ان حالات میں فیمینزم کی تحریک اٹھی جس نے خواتین پر ہونے والے اس ظلم کے خلاف آواز بلند کی۔ اگرچہ یہ تحریک بھی متعدد قباحتوں کا مجموعہ تھی جن میں سے ایک برابری کے نام پر عورت کو مطلقاََ مادر پدر آزاد بنا دینے کا مطالبہ اور اسے چادر و چاردیواری کے محفوظ حصار سے نکال کر شمع محفل بنا دینا شامل ہیں۔
مغرب میں بیسویں صدی کے اوائل تک عورت بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم تھی۔ مغرب نے عورت کو ان حقوق سے محروم رکھا جو اسلام نے چودہ صدیاں قبل عورت کو عطا کر رکھے تھے۔ وہ دور جب مغرب کی عورتیں گھروں میں محبوس تھیں عالم اسلام کی خواتین میں سے ایک درخشاں ستارہ محترمہ فاطمہ الفہری ’’جامعۃالقروین‘‘ کے نام سے دنیا کی پہلی یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھ رہی تھیں۔ وہ دور جب مغرب کی عورت وراثت سے محروم اور جائیداد کے حق ملکیت سے محروم تھی اسلام عورت کو اپنے باپ اور شوہر کے ترکہ کا وارث بنا رہا تھاوہ دور جب مغرب کی عورت جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبی تھی عالم اسلامی کی خواتین علم کے میدان میں اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہی تھیں۔ تاریخ عالم میں اگر کسی نے عورت کو اس کے حقوق اور حقیقی مقام و مرتبہ عطا کیا ہے تو وہ صرف اسلام ہے جبکہ آج مہذب کہلوانے والی اقوام مغرب کا حال ہر صاحب فہم و دانش پر بخوبی عیاں ہے۔
فیمینزم کی تحریک کے سماجی اسبابSocial Causes of the Feminism:
ہم درج ذیل سماجی رویوں کی روشنی میں تحریک نسوانیت کی تشکیل کے اسباب کاجائزہ لے سکتے ہیں:
تشددViolence:
تشدد کی ایک طویل تاریخ ہے آج کے مہذب معاشروں میں تشدد مختلف شکلوں میں موجود ہے۔تشدد کی سب سے اہم مثالوں میں سے ایک جنسی تشدد ہے۔اس صورت میں ،جسمانی طاقت اوردیگر اقسام کومخالف جنس کے خلاف استعمال کیاجاتاہے۔زیادہ تر تاریخی ادوار میں،مردانہ جنس عورت پرحاوی رہی ہے۔مردوں اورعورتوں کے درمیان ہمدردانہ تعلقات کے علاوہ تسلط پسندانہ اورتسلط پسندتعلقات کے ثبوت کے بہت سے واقعات ہیں جن میں خواتین کوظلم اورزیادتی کانشانہ بنایاگیا ہے۔
استحصالExploitation:
ماضی میں وسیع پیمانے پہ خواتین کااستحصال اورخواتین کے طرف سے اپنے حقوق کے مطالبے کافقدان سوالیہ نشان ہے۔تاریخ میں خواتین کے استحصال کادائرہ کافی وسیع ہے مثلاً ملکیت کاموقع نہ ملنا،زیادہ کام اورکم اجرت، گھر پر کام کرنے کی اجرت نہ ملنا،خاندان میں مناسب سہولیات نہ ملنا،غذائی قلت،قانونی کوتاہیاں وغیرہ۔ بعض اوقات، استحصال زیادہ محنت اورکم اجرت کی صورت میں ہوتا ہے حتیٰ کہ اجرت کی وجہ سے خواتین اوربچوں کے لئے روزگار کی پالیسی ایک عالمی مسئلہ ہے۔
سرمایہ داری اورلبرل ازمCapitalism and Liberalism:
جدیدیت نے مغربی زندگی کے مختلف حصوں میں ایک گہری تبدیلی لائی۔فکری،معاشی اورسائنسی تبدیلیوں کے بعدخاندانی نظام نے بھی بہت سے اتار چڑھائو دیکھے۔خاندان اپنی مقبولیت کھوگیا۔سرمایہ دارانہ نظام نے مزدوروں کی بغاوتوں سے خوفزدہ ہوکرانہیں رعایتیں دیں اوران کے نام سے متعصبانہ مواد شائع کیا اورلیبرخواتین مارکیٹ میں داخل ہوئیں لیکن اصل منافع خور سرمایہ دارتھے۔اس تاثر کوتقویت اس وقت ملی ہے جب لبرل نظریہ نگاروں نے خواتین کے حقوق کونظرانداز کیاہے۔روسوئی نگاہ میں خواتین شہریت سے محروم ہیں لڑکوں کو عقلی ،روحانی اورخودمختارانسان بننے کی تربیت دی جانی چاہئے،جبکہ لڑکیوں کوگھر میں فرمانبرداری کرنے اورایسی مہارتیں حاصل کرنے کی تربیت دی جانی چاہئے جومستقبل کے شوہر کوپسندآئیں۔اس طرح خواتین کے بارے میں لبرل نظریہ سازون کے منفی موقف اوراس حوالے سے ان کی خاموشی کی وجہ سے تحریک نسواں کے ابھرنے کے عوامل میں مزید اضافہ ہوا۔
فیمینزم کی تاریخ
اگرچہ پوری تاریخ میں خواتین کی حیثیت پرتنقید ہوتی رہی لیکن حقوق نسواں کی تحریکوںکاآغاز اورلفظ فیمینزم کا جدید معنی میں رائج ہوناانیسویں صدی کے اواخر سے منسوب کیاجاتاہے۔اس عرصے کے دوران ،لفظ فیمینزم ابھرا اور مقبول ہوا،لیکن حقوق نسواں کی تحریک کاحقیقی آغاز انقلاب فرانس سے متصل سمجھاجاتاہے۔فرانسیسی انقلاب کے بعدمیری وولسٹن کرافٹ نے فیمینزم کومتعارف کرایا۔اورمردوں اور عورتوں کے درمیان صنفی،طبقاتی اوراندرونی فرق سے انکار کیا۔اس نے ان اختلافات کوسماجی ماحول سے منسوب کیا۔حقوق نسواں کی تحریک کی تاریخ،اٹھارویں صدی کے اواخر تک جاتی نظرآتی ہے۔کیونکہ میری وولسٹن کرافٹ نے اسی صدی میں ۱۷۹۲ء میں کتاب ’’خواتین کے حقوق کی قانونی حیثیت‘‘،’The Legitimacy of Women’s Right‘ لکھی تھی اوراس کتاب کے لکھنے کے ساتھ ہی اس دور میں فیمینزم کومتعارف کرایا۔اگر فیمینزم کی تاریخ کولفظ نسواں کے ساتھ ہی تصور کیاجائے توفیمینزم کی تاریخ اٹھارویں صدی کے اواخر سے شروع ہوتی ہے کیونکہ اٹھارویں صدی کے اواخر تک فیمینزم کالفظ خواتین کی سماجی تحریک کے لئے استعمال نہیں ہوتاتھا،لیکن کچھ خیال ہے کہ مغرب میں خواتین کی تحریک کاآغاز لفظ فیمینزم کے مقبول ہونے سے پہلے ہوا۔
ماہرین سماجیات نے فیمینزم کی تاریخ کوتین لہروں میںتقسیم کیاہے۔پہلی لہر:اس تحریک کی پہلی لہرایک ایسے وقت میں آئی جب امریکہ اوریورپ میں خواتین کی تحریکیں سرگرم تھیں۔دوسری لہر: دوسری لہر کی اصطلاح خود پہلی لہر کے اختتام کی طرف اشارہ کرتی ہے۔تیسری لہر:فیمینزم کی تیسری لہر میں اس بات کواصول کے طورپر قبول کیاگیاکہ خواتین کے خلاف تمام ظلم وستم کی جڑپدرانہ ثقافت کاوجود ہے۔ان کاخیال ہے کہ پدرانہ نظام کی ثقافت دنیا پرحاوی ہے۔ فیمینزم کی تحریک کوعصرحاضر کی اہم ترین تحریکوں میں سے ایک قرار دیاجاسکتا ہے جوخواتین کے حقوق کے حصول کے لئے ابھری ہے اورخواتین کے بارے میں امتیازی سلوک کے خاتمے کامطالبہ کرتی ہے۔غرض حقوق نسواں کی تحریک اپنے تدریجی سفر میں آزادی نسواں کی تحریک میں بدل کر اپنا رنگ ڈھنگ بدل چکی ہے۔ اب حقوق کی جنگ بہت پیچھے اور مردوں پر سبقت لینے کی سوچ بہت آگے آچکی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS