قیصر محمود عراقی
نکاح انسانی فطرت کے ایک ضروری تقاضے کو جائز طریقے سے پورا کر نے کا بہترین ذریعہ ہے اور اگر اس جا ئز طریقے پر رکاوٹیں عائد کی جا ئیں یا اس کو مشکل بنایا جا ئے تو اس کا لا زمی نتیجہ بے راہ روی کی صورت میں نمودار ہو تا ہے۔ اس لئے کہ جب کوئی شخص اپنی فطری ضرورت پوری کر نے کے لئے جا ئز راستے بند پا ئے گا تو اس کے دل میں نا جا ئز راستو ں کی طلب ہو گی ، جو انجام کا ر معاشرے کے بگاڑ کا ذریعہ بنے گی ۔ حدیث شریف میں ہے کہ رسو لؐ نے ارشاد فرمایا :۔ ’اگر کوئی شخص تمہارے پاس رشتے کا پیغام بھیجے جس کی دین داری اور اخلاق کو تم پسند کر تے ہو تو اس کا نکاح کرادو، اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میںبڑا فتنہ اور وسیع فساد ہو جا ئے گا۔ (تر مذی شریف)۔ہمارے یہاں شادی بیاہ کی بیشتر رسومات ہندوانہ کلچر سے مستعار لی گئی ہیں ، کیونکہ برصغیر میں مسلمانوں کی آمد سے پہلے ہندوئوں کا راج تھا جو بری رسومات میں جکڑے ہو ئے تھے اور کسی بھی سما وی مذہب سے کو سوں دور تھے۔ حتیٰ کہ اسلام میں داخل ہو نے کے باوجود لوگوں کے اندر سے ہندوانہ کلچر کے اثرات محونہ ہو سکے اور بے شمار قبیح رسومات اور فضول روایات مسلسل ان میں رواج پذیر رہیں ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بچے کے پیدا ہو نے سے لے کر مر نے تک نئی نئی رسوم اور طریقے ایجاد ہو تے ہیں ، یا یوں کہیں کہ مہد سے لے کر لحد تک کئی رسومات ہو نے لگتی ہیں اور مر نے کے بعد بھی اس کا سلسلہ باقی رہتا ہے ۔ ہندوستان میں بعض حکمرانوں کی طرف سے مسلمانوں اور ہندوئوں کو آپس میں ملا نے ، اتحاد و اتفاق پیدا کر نے اور یگانگت کی فضا قائم کر نے کے لئے بہت سی ہندوانہ رسومات کو آپس میں ملایا گیا۔ یکجہتی پیدا کر نے کی خاطر ایسی ایسی رسومات اختیار کی گئیں کہ اللہ توبہ ۔نکاح اور شادی کے موقع پر رسم مہندی، رتجگا، ما نجھا ، اور بّری وغیرہ کا اسلامی تہذیب یا مسلمانوں میں کہیں وجود نہ تھا ۔ انہی رسومات میں سے ایک رسم جہیز کی ہے ۔ چونکہ لڑکیوں کو اپنی جا ئداد میں سے یہاں لوگ حصہ نہیں دیتے تھے ، اس لئے کہ شادی کے وقت اکٹھا ہی جو میسر ہو سکا جہیز کے نا م سے لڑکی کے حوالے کر دیا ، اب ان کی دیکھا دیکھی مسلمانوں نے بھی آہستہ آہستہ اس رسم کو اپنا لیا، حتیٰ کہ جہیز شادی کا جزولا ینفک بن گئی اور غریب والدین کے لئے درد سر بن گئی، جس نے اب آسان دین کے آسان احکام میں اتنی تنگی پیدا کر دی کہ بظاہر چھٹکارے کی کوئی صورت نا ممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور ہے۔جہیز کا پس منظر اگر دیکھا جا ئے تو پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان کے جو غیر مسلم اسلام میں داخل ہو ئے ان میں سے اکثر و بیشتر کی دینی تربیت نہ ہو سکی تھی۔ اس وجہہ سے ان میں دینی تعلیمات ، عقائد و اعمال کا فقدان رہا ۔ لہٰذا انھوں نے جہالت کی وجہ سے یہاں کی بعض مذہبی اور سماجی رسموں کو بر قرار رکھا۔ مثلاً جہیز دینا اور لینا ، بیاہ شادی کے کم و بیش تمام رسوم ، با جے ، ناچ گا نے اور دیگر خرافات مسلمان اسی طرح ادا کر رہے ہیں جیسے ہندوادا کرتے ہیں ۔ مسلم اور غیر مسلم کی شادیوں میں اگر فرق رہ گیا ہے تو وہ مولانا صاحب سے نکاح پڑھوانے اور ولیمے کا فرق ہے اور کوئی فرق نہیں ۔ آج معاشرے میں جہیز کے نام پر نہ جا نے کتنے ظلم و ستم لڑکیوں پر ڈھا ئے جا تے ہیں ، جس کی وجہ سے حوا کی بیٹیاں شادی کے بعد خوش نہ ہو نے کا اظہار کر تی ہیں تو معاشرے کے لوگ ساتھ دینے کے بجائے اس کو مجبور کر تے ہیں کہ جلدکوئی فیصلہ مت کر نا، صبر کرو، شوہر کے گھرسے تمہارا جنازہ ہی اُٹھنا چاہئے ، لیکن لوگ یہ جاننے کی کوشش نہیں کر تے کہ وہ کس طر ح الفاظ کے تیر سہتی ہے ،کس طرح مار پیٹ کا سامنا کر تی ہے ، گا لیاں کھا کر بھی کس طرح مسکراتی ہے ؟ مار کھا کر دو پٹے سے اپنے آنسو اور میک آپ سے اپنے زخم کو چھپاتی ہے؟میرا یہاں سوال ہے کہ جو لڑکی ساری زندگی اپنے ظالم شوہر کے گھر میں سسکتی رہتی ہے اس کی زندگی میں سب اس کے لئے آواز کیوں نہیں اٹھا تے ۔ معاشرے میں جہیز کی کمی پر عورت کو مارا پیٹا جا تا ہے ، کتنی لڑکیوں کو آگ لگا کر زندہ جلا دیا جا تا ہے، لیکن ان کے لئے کوئی آواز بلند نہیں کر تا ۔ کس قدر افسوس کی بات ہے ، جہیز کے نام پر جب کوئی لڑکی ستائی ، جلائی اور ما ردی جا تی ہے تو سب چپ رہتے ہیں لیکن اگر لڑکی کی شادی کے بعد لڑکی کو جان سے مار دیا جا ئے تو سب لڑکی کی آواز بن جا تے ہیں ، ہم زندہ لوگوں کی مدد کیوں نہیں کر تے ؟ کیوں ہم صرف مرے ہو ئے انسان کو اچھا کہتے ہیں ؟ معاشرے میں قدم قدم پر عورتوں کے لئے بے شمار مشکلات ہیں مگر اس کا سد باب کوئی نہیں کر تا ۔ اسلام نے نکاح کو جتنا آسان بنایا ہے موجودہ معاشرتی ڈھا نچے نے اسے اتنا ہی مشکل بنا دیا ہے ، نکاح کے با بر کت بندھن پر بے شمار رسومات ، تقریبات اور فضول اخراجات کے ایسے بوجھ لا د دیئے گئے ہیں کہ ایک غریب بلکہ متوسط آمدنی والے شخص کے لئے بھی ایک نا قابل تسخیر پہاڑ بن کر رہ گیا ہے اور اس میں اکثر و بیشتر ایسی رسومات کا ارتکاب کیا جا تا ہے جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔ بلکہ وہ تمام رسومات ہندوانہ ہیں جبکہ غیر اقوام سے مثابہت کی سخت مما نعت ہے۔ سب سے با بر کت نکاح وہ ہے جس میں سب سے کم مشقت یعنی کم خرچ اور تکلف نہ ہو ۔ نکاح چونکہ ہر امیر و غریب اور مرد وزن کی یکساں بشری ضرورت ہے اس لئے شریعت اسلامیہ نے اس کو سادگی کے ساتھ منعقد کر نے اور خواہ مخواہ کے تکلفات سے دور رہنے کی ہدایت کی ہے ۔ بد قسمتی سے سادگی اور بے تکلفی کی اس اہم دینی ہدایت کو ہمارے مسلم معاشرے میں یکسر نظر انداز کر کے اس طبعی اور فطری عمل کو مشکل سے مشکل تر بنا دیا گیا ہے ۔ آج ہمارے ہاں اس نکاح کو زیادہ عظیم الشان اور نا قابل فخر سمجھا تا ہے اور ایسی تقریب نکاح کو پسند کیا جا تا ہے جو کسی بڑے اور مہنگے شادی ہال میں منعقد ہو ، کسی بڑے پارک میں ہو جہاں بڑے بڑے شامیاں نے لگے ہو ں ،جہاں ناچ گا نے کے علاوہ اور بھی بہت سی بے حیائی کا ساز و سامان ہو ۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہمیں نہ اللہ کا خوف ہے اور نہ ہی آخرت کی فکر ہے ، بس دنیا وی واہ واہ کے چکروں میں تما م احکا مات الٰہی فراموش کئے بیٹھے ہیں ۔ ذرا سو چیں ۔ ایک شخص کی دو بیٹیاں جوان ہیں ، ان کے رشتے بھی طے ہو چکے ہیں لیکن وہ فاقہ کش مفلوک الحال اپنی لخت جگر کا جہیز بنا نے کی خاطر اور لوگوں کے طعنوں سے بچنے کے لئے کس کی تجوری میں ہاتھ ڈالے ؟ کہاں جا ئے اور کہاں سے اتنی خطیر رقم کا بندوبست کرے؟ اگر اسے کوئی غلط قدم اُٹھا ناپڑ تا ہے تو اس کے ذمہ دار ہم سب اور پورا معاشرہ ہے ۔ ہم کیسے مسلمان اور عاشق رسول ؐ ہیں کہ تمام رسم و رواج اور طور طریقے غیروں کے اپنا تے ہیں ، مگر مسلمان ہونے کا دعویٰ کر تے ہیں ۔ دراصل ہم حقیقت کو سمجھ نہیں پا رہے ہیں بلکہ سمجھنا چاہ ہی نہیں رہے ہیں ، اور جو قوم سمجھنا نہیں چاہتی اس قوم کو سمجھا نابے کار ہے ۔ کیونکہ یہ قوم قرآن و حدیث سے اتنی دور ہو چکی ہے کہ اسے یہ تک نہیں معلوم کے نکاح سنت کے علاوہ فرض بھی ہے اور حرام بھی ، طلاق کھڑے کھڑے تین بار تین لفظ کہہ دینے کا نام نہیںبلکہ تین طہر میں دینے کا نام ہے اور مہر فرض ہے یا کچھ اور یہ قوم تو غیروں کی نقالی کر نے میں مشہور ہے ۔ اگر قرآن و حدیث کی دلیلیں دے کر امت کو سمجھا نے کی کوشش کی جاتی تو آج شادی بیاہ کے موقع پر جو ہندوانہ رسم مسلم سماج میں جار ی ہے کبھی نہ ہو تی ، بلکہ ہمارے ہاں شادی بیاہ سادگی سے ہو تی اور نکاح اسلامی طریقے سے ہو تا تو دوسری قومیں بھی دیکھ کر شاید عبرت حاصل کرتیں ۔بہر حال اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو سادگی سے نکاح کر نے کی تو فیق عطا فرمائے اور جہیز کے لا لچی کو غارت کر ے ۔