عبید الرحمن الحسینی
حالات کے مطابق خوشی سے فریقین بآسانی اسلام کے مطابق نکاح کریں تو معاشرے میں بہت سکون میسر ہوگا۔ اب ضرورت ہے کہ جہیز کو سماجی برائی سمجھتے ہوئے جہاد بالنفس کرتے ہوئے سب مل کر خبیث ملعون رسم و رواج سے نکل کر نکاح کو خدا کا فریضہ سمجھتے ہوئے اہتمام کریں۔
معاشرے میں جہاں اور پریشانیاں پھیل رہی ہیں وہاں ایک بڑا المیہ پریشانی ہماری اپنی پیدا کردہ ہے جو معاشرے کی جڑوں میں سرایت کرجانے کی بناء پر ہماری زندگیاں مشکل ترین بن گئی ہیں۔ معاشرہ میں پھیلی برائیوں کے سدباب کیلئے اٹھائے جانے والے اقدامات کو اس وقت تک کامیابی ممکن نہیں جب تک ہر فرد اپنے طور پر قدم نہ اٹھائے سب مل کر قدم اٹھائیں تب ہی معاشرے میں چین سکون راحت آرام ہمارا مقدر بن سکتا ہے۔ والدین پر جہاں بچوں کی تربیت اور نگہداشت اہم کام ہے جن کے بارے میں آخرت میں سوال ہوگا کہ بچوں کی تربیت اور ان کو صحیح راستے، اخلاق و آداب سے آراستہ کیا ہے کیا ہم نے ان کی عمارت کی پہلی اینٹ درست رکھی ہے؟ جس طرح یہ مرحلہ کٹھن ہے اسی طرح جب وہ بالغ ہوجائیں تو والدین کی ذمہ داری ہےکہ ان کا نکاح کریں۔ ورنہ وہ جو گناہ کریں گے والدین بھی اس گناہ میں شریک ہوں گے۔ آج کل شادیاں لیٹ ہونے کی وجہ معیار بدل چکا ہے، ہر ایک نے اپنے ذہن کو بیمار ذہن بنالیا ہے۔ یہودی مال کی بنیاد پر شادی کرتے ہیں، عیسائی خوبصورتی کی بنیاد پر اور مسلمان کا معیار صرف اور صرف نیک دین دار ہونا چاہئے۔ مگر اب معاشرے میں یہودیوں عیسائی اور ہندوئوں جیسا معیار اور رسم و رواج بن رہے ہیں جس وجہ سے برائیاں پھیل رہی ہیں، ان کا بائیکاٹ کرنے کی سب کو ضرورت ہے۔ لوگ نکاح اس لئے نہیں کرتے کہ جہیز کہاں سے دیں، ولیمہ کیسے کریں پھر کہتے ہیں اولاد ہوگئی تو رزق کیسے پورا ہوگا۔ حالانکہ ہر انسان اپنا رزق لے کر دنیا میں آتا ہے اور ختم کرکے ہی دنیا سے جاتا ہے۔ جہیز کے غلط رواج نے لوگوں کا جینا دوبھر کردیا ہے، جہیز کا خوفناک دیو نوجوان لڑکیوں کو زندہ درگور کیے ہوئے ہے۔ اس سماجی ناسور کی بناء پر کتنی بیٹیاں گھروں میں بیٹھی رہ جاتی ہیں۔ یہ لعنت غیر مہذب معاشرے کی پیداوار ہے، یہ ہندوئوں کی رسم ہے جو میڈیا فلموں ٹیلی ویژن کے ذریعے معاشرے میں پھیلی ہے اور لوگ لالچی اور مریض بن گئے ہیں۔ مرد کام چور اور دوسروں کے مال کے بھوکے بن گئے ہیں۔ پہلے شادی گھر بسانے کیلئے کی جاتی تھی مگر اب دولت کمانے کیلئے کی جاتی ہے۔ اس ناسور جیسی بیماری کا قرآن و حدیث میں کہیں ثبوت نہیں ملتا۔ یہ غیر اسلامی جاہل تصور اور رسم ہے۔ اسلام ہر غلط رسم کو مٹانے کیلئے دنیا میں آیا ہے۔ آپ ﷺ کے دور میں نکاح بہت آسان تھا اور زنا مشکل۔ آج نکاح مشکل اور زنا آسان ہوگیا ہے۔ والدین کو صرف اور صرف اللہ پر ہی بھروسہ کرتے ہوئے جلد از جلد بچوں کے نکاح کرنے چاہئیں تاکہ یہ ان کی مغفرت کا سبب بنے۔ جہیز کو مالِ باطل کہنا بھی درست ہے کیونکہ اس میں مخالف فریق کی قطعی طور پر دلی رضا مندی نہیں ہوتی۔ اسلام نے ایسے مال کو باطل قرار دیا ہے۔ جہیز گداگری کی ایک نئی قسم ہے۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ بھیک مجبوری کی حالت میں انسان بہت شرمندگی سے مانگتا ہے جبکہ جہیز کا مطالبہ بڑی ڈھٹائی سینہ تان کر بلاتکلف لڑکی والوں سے کیا جاتا ہے۔ جن لوگوں کے ضمیر ابھی مردہ نہیں ہوئے وہ سوچیں کیا علمی، شرعی کسی بھی اعتبار سے جہیز کی رسم جائز ہے؟ اسلامی نقطہ نظر سے اس کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے ورنہ جہیز کی بنیاد پر کی گئی شادی بربادی کا سبب بنتی ہے۔ البتہ لڑکی کے وارث رخصتی کے موقع پر اسے کچھ بھی ہدیہ زیور جو بھی عطا کریں یہ ان کا ذاتی فعل ہے یہ ہدیہ وہ اپنی بیٹی سے شدید محبت کے اظہار کے طور پر کرسکتے ہیں جس کو جو میسر ہو وہ دے لڑکے والوں کو اس طرف نظر نہیں رکھنا چاہئے۔ جہیز اگر زیادہ ہوگا تو شادی میں برکت ختم ہوجائے گی۔ جوکہ خطرے کا باعث ہے، یہ ایک مقابلہ بازی کی رسم ہے اس کیوجہ سے جہیز نہ لانے والی لڑکیوں پر تشدد کیا جاتا ہے، جلادیا جاتا ہے یا طعنے دے دے کر ز ندگی اجیرن کردی جاتی ہے۔ یہ عورت کے ساتھ ظلم کی انتہاء ہے، عورت سے نکاح دین داری اور اخلاق کی بناء پر کرنے کا حکم ہے نہ کے مال کی بنا پر۔ اسلام نے تقویٰ اعلیٰ اخلاق اور دین دار کو نکاح کا معیار بناکر عورت پر اور مرد پر احسان کیا ہے۔ ہمیں اسلام کے اس احسان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے فراموش کرنے کی بجائے اپنی زندگیوں میں سکھ لانا چاہیے۔ لڑکے کو خود ہی سب انتظام ضروریات زندگی کی کوشش کرنا چاہئے اور لڑکی کو بھی لڑکے سے حد سے زیادہ مطالبات اور زندگی کی زیادہ آسائش اور زیب و زینت سے بچنا چاہئے جب عورتیں بھی حد سے زیادہ اخراجات بڑھائیں گی تو آدمیوں کے بھی دماغ خراب ہوجائیں گے اور وہ مجبور ہوں گے کہ جائو پچھلے گھر والوں سے لے لو۔ اس طرح فساد لڑائی جھگڑا سے زندگی تباہ ہوگی۔ حالات کے مطابق خوشی سے فریقین بآسانی اسلام کے مطابق نکاح کریں تو معاشرے میں بہت سکون میسر ہوگا۔ اب ضرورت ہے کہ جہیز کو سماجی برائی سمجھتے ہوئے جہاد بالنفس کرتے ہوئے سب مل کر خبیث ملعون رسم و رواج سے نکل کر نکاح کو خدا کا فریضہ سمجھتے ہوئے اہتمام کریں۔ امید ہے مسلم معاشرے کو اس ناسور سے نجات ضرور مل جائے گی۔ شادیاں بربادیاں ہونے سے بچ جائیں گی