ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک
ہندوستانی فوج سے غلامی کی علامتیں مٹانے کی مہم کا تہہ دل سے خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔دو سو سالہ برطانوی راج تو 1947میں ختم ہوگیا لیکن اس کی ثقافتی، لسانی اور تعلیمی حکمرانی آج بھی ہندوستان میں بڑی حد تک برقرار ہے۔ جو پارٹی، یعنی کانگریس دعویٰ کرتی رہی ہندوستان کو آزادی دلانے کا، اس نے انگریزوں کی دی ہوئی سیاسی آزادی کو تو قبول کرلیا، لیکن اسے جو خود کرنا تھا یعنی ملک کے ہر خطے سے غلامی کو دور کرنا، اس میں اس کا حصہ بہت ہی سست رہا۔ یہ کام اب بی جے پی حکومت بھی کچھ حد تک ضرور کررہی ہے۔ اس کے لیڈران کو اگر اس غلامی کا مکمل ادراک ہو تو وہ اس امرت مہوتسو سال میں ہی مکمل محکومیت سے پاک مہم شروع کر سکتے ہیں۔فی الحال ہماری فوج میں ماتحتی کی ایک علامت کو اس وقت ہٹایا گیا جب طیارہ بردار جہاز آئی این ایس وکرانت کو سمندر میں چھوڑا گیا۔ اس جہاز پر لگے ہوئے سینٹ جارج کے نشان کو ہٹا کر اس کی جگہ شیواجی کی علامت لگائی گئی۔ یہ معاملہ صرف علامتوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ ذاتوں کے نام پر فوج کی ٹکڑیوں کے نام بھی فوری طور پر تبدیل کیے جانے چاہئیں۔1857کی جدوجہد آزادی سے خوفزدہ برطانوی حکمرانوں نے ہندوستانی لوگوں کو ذاتوں میں تقسیم کرنے کی ترکیبیں شروع کی تھیں،ان میں سے یہ بھی ایک بڑی چال تھی۔ انہوں نے شہروں اور دیہاتوں کے نام بھی انگریز افسروں کے نام پر رکھ دیے تھے۔ مختلف مقامات پر ان کے مجسمہ نصب کردیے گئے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ اب سے تقریباً50سال پہلے میں نے احمد آباد میں نصب ایک انگریز کا پتلا توڑا تھا، وہ بھی راج نارائن جی (اندرا گاندھی کو شکست دینے والے) کے کندھے پر چڑھ کر! کانگریس کی حکومتوں نے سڑکوں کے کچھ نام تو بدلے لیکن ہماری فوج میں اب بھی انگریزوں کی طرز کا چلن جاری ہے۔ کانگریس حکومت کی وزارت دفاع کی ہندی کمیٹی کے رکن کے طور پر، میں نے انگریزی میں چھپے ہوئے سیکڑوں فوجی دستورالعمل کو ہندی میں تبدیل کرایا تاکہ عام فوجی بھی انہیں سمجھ سکیں۔ اس وقت فوج میں 150 ایسے قوانین، نام، انعامات، روایات، رسم و رواج اور طریقے ہیں، جن کا ’بھارتیہ کرن‘ ہونا ضروری ہے۔ ’بیٹنگ دی ریٹریٹ‘ تقریب میں ’ایبائیڈ وِد می‘ گانے کے بجائے لتامنگیشکر کے ’اے میرے وطن کے لوگو‘ کو شروع کرنا تو اچھا ہے، لیکن جہاں تک فوج کے ’بھارتیہ کرن‘ کا سوال ہے،اسے برطانوی رسم و رواج سے آزاد کروانا جتنا ضروری ہے، اتنا ہی ضروری ہے اپنی فوج کو خود مختار بنانا! آج بھی ہندوستان کو اپنے اہم ترین اسلحوں کو بیرون ملک سے درآمد کرنا پڑتا ہے۔ ان پر اربوں روپے خرچ کرنے ہوتے ہیں۔اگر آزادی کے صدی سال تک ہم مکمل طور پر خود مختار ہوجائیں اور امریکہ اور یوروپی ممالک کی طرح اسلحہ برآمد کرنے والے بن جائیں تو ہندوستان کو سپر پاور بننے سے کون روک سکتا ہے؟
(مضمون نگار ہندوستان کی خارجہ پالیسی کونسل کے چیئرمین ہیں)
[email protected]