ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک
راہل گاندھی کی اچھی خاصی بھارت-یاترا چل رہی ہے، لیکن پتہ نہیں کیا بات ہے کہ وقتاً فوقتاً اس میں پلیتا لگوا لیتے ہیں۔ پہلے انہوں نے ذات پات کی مردم شماری کے سوئے ہوئے مردے کو اٹھادیا، جسے ان کی والدہ سونیا گاندھی نے خود دفنا دیا تھا اور اب انہوں نے مہاراشٹر میں جاکر ویر ساورکر کے خلاف بیان دے دیا ہے۔ کیا انہیں معلوم نہیں ہے کہ ونایک دامودر مہاراشٹرین تھے اور مہاراشٹر کے لوگ انہیں جدوجہد آزادی کا عظیم ہیرو مانتے ہیں؟ خود اندراگاندھی نے انہیں عظیم مجاہد آزادی کہا ہے۔ راہل نے برطانوی حکومت کو لکھے گئے ساورکر کے ایک خط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ساورکر نے اپنے آپ کو انڈمان کی جیل سے رہا کرانے کے لیے برطانوی حکومت سے معافی مانگی اور رہا ہونے کے بعد اس کے ساتھ مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ راہل کا کہنا ہے کہ ساورکر نے ایسا کرکے گاندھی، پٹیل اور نہرو کے ساتھ دھوکہ کیا اور وہ انگریزوں کا ساتھ دیتے رہے۔ ایسا کہنے میں، میں راہل کا کوئی قصور نہیں سمجھتا ہوں۔ یہ قصور ان کا ہے، جو لوگ راہل کو پٹّی پڑھاتے ہیں۔ بیچارے راہل کو جدوجہد آزادی کی تاریخ کے بارے میں کیا معلوم ہے؟ انگریزکے زمانہ کے خفیہ دستاویزات کا مطالعہ اور تحقیق کرنے کی تو راہل کیا، کسی پڑھے-لکھے لیڈر سے بھی امید نہیں کی جاسکتی لیکن ساورکر پر حالیہ شائع ہونے والی5-6مستند تحریروں کو راہل نے سرسری طور پر بھی دیکھ لیا ہوتا تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ ساورکر اور ان کے بھائی نے انہیں عمر بھر کے لیے جیل سے رہا کرنے کے لیے برطانوی حکومت کو ایک بار نہیں، کئی بار خطوط لکھے تھے اور وہ ہر قیمت پر جیل سے رہا ہوکر انگریزوں کے خلاف مسلح انقلاب کی سازش کر رہے تھے۔ یہ بات میں نہیں کہہ رہا ہوں۔ تقریباً40سال پہلے نیشنل آرکائیوز میں خفیہ دستاویزات کو کھنگالنے پر مجھے علم ہوا کہ ان کے معافی نامہ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے گورنر جنرل کے خصوصی افسر ریزینالڈ کریڈوک نے لکھا تھا کہ ساورکر جھوٹی معافی مانگ رہا ہے اور وہ جیل سے رہا ہوکر یوروپ کے برطانوی مخالف دہشت گردوں سے ہاتھ ملائے گا اور مسلح انقلاب کے ذریعہ برطانوی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرے گا۔ساورکر کو جیل سے رہا کرنے کے بعد بھی برسہابرس نظربند کرکے کیوں رکھا گیا؟ اگر ساورکر انگریزوں کے بھکت تھے تو مہاتماگاندھی خود ان سے ملنے لندن کے ’انڈیا ہاؤس‘ میں کیوں گئے تھے؟ خود گاندھی جی برطانوی محالف تو 1961میں بنے۔ 1899میں وہ افریقہ کی بوئر-جنگ میں انگریزوں کا ساتھ دے رہے تھے۔انہیں ’قیصرہند‘ کا خطاب بھی برطانوی حکومت نے دیا تھا۔ ساورکر ان کے بہت پہلے سے ہی برطانوی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کر رہے تھے؟ کیا وجہ ہے کہ مدام بھیکائے جی کاما، سردار بھگت سنگھ اور سبھاش چندر بوس ساورکر کے بھکت تھے؟ یہ ٹھیک ہے کہ آپ ساورکر اور سبھاش بوس کے مسلح انقلاب کے پرتشدد طریقوں سے اختلاف کرتے ہوں لیکن ساورکر کو بدنام کرنے اور انگریزوں کو لکھے گئے ان کے خطوط کی من مانی تشریح کرنے کا جواز کیا ہے؟ اگر راہل کی سوچ یہ ہے کہ اس سے وہ زیادہ ووٹوں پراثرانداز ہوسکیں گے تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ مہاراشٹر میں آج کل ان کا ساتھ دینے والی اودھوٹھاکرے کی شیوسینا کو انہوں نے کتنی زیادہ تکلیف پہنچائی ہے۔ ساورکر کو نیچا دکھاکربی جے پی کو نقصان پہنچانے کی حکمت عملی خود کانگریس کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔
(مضمون نگار ہندوستان کی خارجہ پالیسی کونسل کے چیئرمین ہیں)
[email protected]