ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک
ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور کسی بھی جمہوریت کی جان انتخابات ہیں۔ اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ عوامی نمائندوں کے انتخابات غیرجانبدار ہوں۔ اسی لیے ہندوستان میں مستقل الیکشن کمیشن موجود ہے لیکن جب سے الیکشن کمیشن بنا ہے، اس کے چیف الیکشن کمشنر اور دیگر کمشنروں کی تقرری مکمل طور پر حکومت کے ہاتھ میں ہے۔ ہمارے الیکشن کمیشن نے سرکاری پارٹیوں کے خلاف بھی کئی بار کارروائیاں کی ہیں لیکن سمجھا یہی جاتا ہے کہ ہر حکومت اپنے من پسند بیوروکریٹ کا ہی اس عہدے پر تقرر کرنا چاہتی ہے تاکہ وہ لاکھ غیرجانبدار نظر آئے لیکن بنیادی طور پر وہ حکمراں جماعت کے مفادات کا تحفظ کرتا رہے۔ اسی بنیاد پر سپریم کورٹ میں ارون گوئل کی تازہ ترین تقرری کے خلاف بحث چل رہی ہے۔ گوئل17نومبر تک مرکزی حکومت کے سکریٹری کے طور پر کام کر رہے تھے لیکن18نومبر کو رضاکارانہ ریٹائرمنٹ دے دیا گیا اور 19نومبر کو انہیں چیف الیکشن کمشنر بنا دیا گیا۔ اس سے قبل عدالت اس معاملے پر غور کر رہی تھی کہ الیکشن کمشنرز کی تقرری کے عمل کو کیسے بہتر بنایا جائے۔ کسی بھی افسر کو رضاکارانہ ریٹائرمنٹ سے تین ماہ قبل نوٹس دینا ہوتا ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ حکومت نے تین دن بھی نہیں لگائے اور گوئل کو چیف الیکشن کمشنر کی کرسی پر بٹھا دیا۔ اس کا مطلب کیا یہ نہیں ہوا کہ دال میں کچھ کالا ہے؟ اسی سوال کو لے کر سپریم کورٹ نے اب حکومت کی سخت کھینچائی کردی ہے۔ عدالت نے حکومت کو حکم دیا ہے کہ گوئل کی اس آناًفاناً تقرری کا راز فاش کرے۔ تقرری کی فائل عدالت میں پیش کی جائے۔ عدالت کا موقف ہے کہ الیکشن کمشنرز کی تقرری صرف حکومت کے ذریعہ ہی نہیں کی جانی چاہیے۔ اپوزیشن لیڈر اور چیف جسٹس کو بھی بورڈ آف اپائنٹمنٹ میں شامل کیا جانا چاہیے۔ عدالت کا یہ مطالبہ بالکل جائز ہے لیکن عدالت کو فی الحال یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی تقرری کو منسوخ کرسکے۔دراصل گوئل کی تقرری کو عدالت منسوخ نہیں کرنا چاہتی ہے لیکن وہ دو باتیں چاہتی ہے۔ ایک تو یہ کہ تقرری بورڈ میں اصلاحات کی جائیں اور دوسرا یہ کہ الیکشن کمشنرز کم از کم اپنی چھ سالہ مدت پوری کریں۔ 5سال کی طویل ترین مدت کے لیے صرف ٹی این سیشن نے ہی اپنی خدمات انجام دیں، جب کہ زیادہ تر الیکشن کمشنر چند ہی ماہ میںریٹائر ہو گئے کیونکہ ان کی عمر کی حد 65 سال ہے۔ عدالت چاہتی ہے کہ ہندوستان کے الیکشن کمشنر غیرجانبدار ہوں اور ویسے نظر بھی آئیں اور انہیں مناسب وقت ملے تاکہ وہ ہمارے انتخابی عمل میں متوقع اصلاحات بھی کرسکیں۔
(مضمون نگار ہندوستان کی خارجہ پالیسی کونسل کے چیئرمین ہیں)
[email protected]