ڈاکٹر سیّد احمد قادری : سیکولر کردار و عمل اور سیکولرازم سے بڑھتی نفرت

0

ڈاکٹر سیّد احمد قادری

ملک کے موجودہ منظر نامہ کی تصویر اور تفصیل بہت ہی واضح طور پر ہمارے سامنے ہے۔ اس لئے اس کی تفصیل میں نہ جا کرعہد حاضر کے منظر نامہ کے درون میں ہم جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جہاں ہمیں یہ دیکھنے اور سمجھنے کو ملتا ہے کہ ہمارے ملک میں جب بادشاہت کا دور تھا یعنی مسلمانوں کی اولین حکومت محمد بن قاسم سے لے کر مغلوں کی حکومت اور پھر کمپنی بہادر اور برٹش حکومت تک نے کبھی بھی ا پنے مذہب کو اپنی حکومت کی بنیاد نہیں بنایا۔ اس لئے کہ صدیوں سے یہ تصور رہا ہے کہ جن ممالک میں بھی مخلوط آبادی ہو، مختلف مذاہب کے ماننے والے ہوں، وہاں اگر کامیاب حکمرانی کرنی ہے تو حکومت کو مذہب سے نہیں جوڑا جائے۔ بھارت کے مسلم حکمرانوں کا تعلق اسلام مذہب سے ضرور رہا لیکن حکومت کی پالیسی ہمیشہ سیکولر رہی اور صدیوں تک برسر اقتدار رہنے والے مسلم حکمرانوں نے کبھی بھی اپنے مذہب اسلام کی حکومت کے زور پر تبلیغ کی کوشش نہیں کی۔ مسلمانوں سے حکومت چھیننے اور قبضہ جمانے والے انگریزوں نے بھی اپنے عیسائی مذہب کو اس ملک پر مسلط کرنے کی دانستہ کوشش نہیںکی۔ ہاں چند ر گپت موریہ نے ضرور اپنے دور حکومت میں اپنے جین مذہب کو حکومت کا مذہب قرار دیا تھا اور دوسرے راجہ اشوک کا نام آتا ہے کہ اس نے بودھ مذہب کو حکومت کا مذہب نہ صرف تسلیم کیا تھا، بلکہ اپنے بھائی مہندر کو پورے ملک میں حکومت کے خرچ پربودھ مذہب کی تبلیغ کے لئے مامور کیا تھا۔ ان دو مثالوں کے علاوہ تیسری کوئی مثال اس ملک میں ایسی نہیں ملتی ہے۔یہی وجہ رہی ہے کہ ہمارے ملک بھارت کا صدیوں سے سیکولر مزاج رہا ہے۔ ہمارے ملک کو جب انگریزوں کی غلامی سے آزادی ملی، تب بھی آئین سازوں نے اس ملک کو کسی بھی مذہب کی حکومت نہیں بنائی ، بلکہ آئین میں لفظ سیکولر یا سیکولرزم کی شمولیت کو بھی ضروری نہیں سمجھا گیا اور آئین کے شق 15.1 میں بہت ہی واضح طور پر لکھا گیا کہ ملک کے اندر مذہب ، ذات، صنف (سیکس)، جائے پیدائش کی بنیاد پر کسی بھی طرح کی تفریق نہیں کی جائے گی۔ برسہا برس تک آئین کے اس رو پر عمل بھی کیا جاتا رہااور ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا گیا کہ تمام مذاہب برابر ہیں ، کسی مذہب کو بھی کسی دوسرے مذہب پر فوقیت حاصل نہیں اور ملک کے ہر شہری کو اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے ، اسے ماننے کاحق حاصل ہے۔ لیکن آزادی کے کچھ عرصہ بعد جب یہ محسوس کیا جانے لگا کہ ملک کے اندر فرقہ پرست عناصر سر ابھار رہے ہیں اور ملک کے سیکولر کردار کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ، ایسے حالات میں یہ ضروری سمجھا گیا کہ ملک کے آئین میں لفط سیکولر کی شمولیت ہو۔ چنانچہ 1976 میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی سربراہی میں آئین کی تمہید میں 42 ویں ترمیم کے تحت لفظ ’’سیکولر‘‘ کو شامل کیا گیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سیکولرازم اور سیکولر کو مذہبی رواداری کی حد تک محدود نہیں کیا جانا چاہئے بلکہ سیکولرازم کو آپسی خیرسگالی، دوستی، محبت، اخوت، آپسی اتحاد و اتفاق اور قومی یکجہتی کے معنوں میں بھی استعمال کیا جانا چاہئے کہ موجودہ وقت میں، جس طرح سے سیکولر اور سیکولرزم سے نفرت بڑھ رہی ہے اور غیر اعلان شدہ پابندی عائد کی جا رہی ہے بلکہ انتہا تو یہ دیکھنے کو مل رہی ہے کہ سیکولر اور سیکولرزم کی جگہ راشٹر واد کو فروغ دینے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس کے پیچھے منشا یہ ہے کہ کسی خاص طبقہ اور مذہب کے لوگوں کو حب الوطنی کے نام پر زد و کوب کیا جائے ۔ انہیں خوف و دہشت میں رکھا جائے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ آج جو لوگ بھی خود کو ملک کابہت بڑا خیر خواہ اور وطن پرست ثابت کر رہے ہیں ، دراصل تاریخ ہند میں ان کے کسی بھی ایثار و قربانی کا ذکر نہیں ہے بلکہ انگریز حکمرانوں سے معافی مانگنے اور قومی جھنڈا کو ایک طویل عرصہ تک قبول نہیں کئے جانے کی بھی تاریخ موجودہے ۔ اس لئے ظاہر ہے ایسے لوگ، بقول شخصے نیا مسلمان پیاز زیادہ کھاتا ہے، یہی حال ابھی حال کے دنوں میں سامنے آنے والے حب الوطنوں‘‘ کا ہے ۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو آئین میں شامل الفاظ سیکولر اور سیکولرزم کے معنٰی اور مطلب کو سمجھنا بھی نہیں چاہتے ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ سیکولر ہونے یا سیکولرازم کی تائید کرنے کا یہ قطعی مطلب نہیں ہے کہ وہ لا مذہب یعنی کسی بھی مذہب کا ماننے والا نہیں بلکہ سیکولر ہونے والا اور سیکولرزم پر یقین رکھنے والا اپنے پسندیدہ مذہب کا پابند اور عقیدت مند رہنے کے ساتھ ساتھ دوسرے تمام مذاہب کو حقارت اور نفرت سے نہ دیکھے بلکہ عزت و احترام کرے۔ ملک کی بیالیسویں ترمیم میں اس نکتے پر زور دیا گیا ہے کہ انڈیا ایک سیکولر ملک ہے اور ملک کا آئین اور نہ ہی قانون مذہب اور حکومت کے رشتہ کی تشریح کرتا ہے ۔ یعنی ملک کے آئین کے مطابق بھارت ایک سیکولر ملک ہے اور اس ملک کی حکومت اور مذہب کے درمیان کسی بھی طرح کاکوئی تعلق نہیںہوگا ۔
تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے کہ مضبوط اور ترقی یافتہ ممالک کے آئین اور قوانین میں اس بات کا اعتراف بہت ہی واضح طور پرہے کہ ملک کا، حکومت اور مذہب سے کسی طرح کا تعلق نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام جمہوری ممالک میں ہر شہری کو اپنی پسند کا مذہب ماننے اور اپنے طور پر فروغ دینے کی آزادی ہے ۔ حکومت کومذہب سے جوڑنے کی کبھی کوشش نہیں کی گئی۔ امریکہ جیسے اتنے بڑے جمہوری ملک کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ اس ملک میں مختلف مذاہب، ذات، سماج، رنگ و نسل، رواج و رسوم، زبان کے لوگ بستے ہیں،جنہیں ایک میلٹنگ پوڈ میں بدل دیا گیا ہے ۔ بلا تفریق رنگ و نسل ہر شہری پہلے اپنے ملک کی ترقی، فلاح و بہبود کو فوقیت اور اولیت دیتا ہے۔ اگر کوئی سیاست داں ان راہوں سے بھٹک کر الگ راہ پرچلنے کی کوشش کرتا ہے ، تو اس کے خلاف زبردست احتجاج اور مظاہرے ہوتے ہیں۔ امریکہ کے تیسرے صدر تھامس جیفرسن (1801-1809)نے امریکہ کو آزادی دلانے کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی خاص خیال رکھا تھا کہ ملک کی ترقی اس بات پر مضمر ہے کہ ملک کو حکومت اور مذہب سے الگ رکھا جائے ۔ دونوں کے د رمیان کسی بھی طرح کاتعلق نہیں رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر ایسے ممالک بشمول بھارت میں کسی بھی مندر، مسجد، چرچ، گرودوارہ،بودھ مٹھ وغیرہ میں ان مذاہب کے عقیدت مندوں کی جانب سے دیے گئے عطیات اور دیگر آمدنی کو ٹیکس کے زمرے میں نہیں رکھا جاتا ہے لیکن ان دنوں جس طرح ملک کے آئین کو بدلنے اور خاص طور پرملک کے سیکولر کردار کو ختم کرنے کی دانستہ کوششیں ہو رہی ہیں، وہ بہت افسوسناک ہی نہیں بلکہ تشویشناک بھی ہیں۔ ملک کے اقتدار پر قابض رہنے اور اپنے ایجنڈہ ہندوتوا کے نفاذ کے لئے جس منظم اور منصوبہ بندطریقہ سے فرقہ واریت اور مذہبی جنون کو بڑھاوا دیتے ہوئے ذمہ دار منصب اور عہدوں پر بیٹھے لوگوں کی حمایت مل رہی ہے، یہ لوگ در حقیقت مذہبی جنون یا پھر یوں کہیں کہ ملک کے اقتدار پر طویل عرصہ تک قابض ہونے کے لئے اس قدر عجلت میں ہیں کہ انہیں ملک کے بہتر مستقبل کی بھی فکر نہیں رہی۔ کاش کہ یہ لوگ تاریخ کو سامنے رکھتے اور ان کا مطالعہ کرتے تو انہیں اندازہ ہوتا کہ حکومت کا مذہب سے بے جا تعلق پیدا کرکے، دوسر ے مذاہب اور اس کے ماننے والوں کو آئے دن حراساں کرکے، منافرت بھرے نعرے لگا کر، ان مذاہب سے تعلق رکھنے والی خواتین کو طرح طرح دھمکیاں دے کر، نوجوانوں کومختلف بہانوں سے قتل کرکے، گھر واپسی ، ہجومی تشدد ، لو جہاد وغیرہ کے نام پرنفرت پھیلا کر، تشدد بڑھا کر، تفریق کی خلیج پیدا کرکے اور کئی طرح کی تخریب کاریوں جیسی سیاست سے ملک کی یکجہتی، سماجی و مذہبی آہنگی، مساوات،بھائی چارگی اور محبت کو ختم کر ملک کے لئے کوئی اہم کارنامہ انجام دے رہے ہیں تو ان کی اور پردے پیچھے بیٹھے ان کے آقاؤں کی بہت بڑی بھول ہے۔ افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ اب آئے دن ملک کے سیکولر اور سیکولراز م کی بحث چھیڑی جا رہی ہے۔ ایک طرف تویہ زبانی اعتراف کیا جا رہا ہے کہ سیکولرازم تو اس ملک کے ڈی این اے میں شامل ہے اور دوسری طرف حکومت کے ذمہ دار فرماتے ہیں کہ سیکولرازم کی بات کرنے والے کی ولدیت مشکوک ہے۔ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمارکو کبھی یہ بھی کہنا پڑا کہ انہیں اپنی سیکولرازم ثابت کرنے کے لئے کسی سے سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی طرح ہمارے ملک کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کوآئین کی تمہید میں 1976 میں 42 ویں ترمیم کے ذریعہ ’’سیکولر‘‘ اور ’’سوشلسٹ‘‘ جیسے الفاظ کا شامل کیا جانا بھی کافی بوجھ محسوس ہوتاہے۔ اس سلسلے میںان کا یہ خیال ہے کہ ان الفاظ کا سیاست میں غلط استعمال ہو رہا ہے کیونکہ اس سے سماجی ہم آہنگی برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ دراصل راج ناتھ سنگھ لفظ ’’سیکولر‘‘ کے معنیٰ سے زیادہ اس لفظ کی جو روح اور جذبات ہیں، ان سے زیادہ پریشان ہیں۔ اگر ’’سیکولر‘‘ اور ’’سوشلسٹ‘‘ جیسے الفاظ بے معنیٰ ، بے مطلب اور بے وقعت ہوتے تو اوّل تو انہیں 1976 میں آئین میں شامل نہیں کیا جاتا اور اگرشامل ہو ہی گیا تھا تو پھر 1977 میں جنتا پارٹی کی جو مرارجی دیسائی کی سربراہی میں حکومت برسراقتدار آئی تھی، جس میں اٹل بہاری باجپئی اور لال کرشن اڈوانی جیسے سرکردہ ، دور اندیش اور ان ہی کے نظریہ کے حامی رہنما بھی شامل تھے، ان لوگوں نے ان دونوں الفاظ کو آئین سے کیوں نہیں حذف کرا یا؟ در حقیقت ہمارے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کی پریشانی یہ بھی ہے کہ ان کی نظروں کے سامنے کھلم کھلا لفظ ’’سیکولر‘‘ کو معنوی اور جذباتی دونوں لحاظ سے لہولہان کیا جا رہا ہے لیکن وہ کچھ کر نہیں پا رہے ہیں ۔آئین میں سیکولر اور سیکولرازم کی شمولیت کے باعث ان دونوں لفظوں کو عدالتی پناہ بھی حاصل ہے ۔
مشکل یہ بھی ہے، آج جوفاسسٹ قوت ملک میں بد امنی پھیلا رہی ہے اور منافرت کو ہوا دے رہی ہے، وہ اپنے ملک کی سنہری تاریخ اور روایت سے واقف ہیں اور نہ ہی واقف ہونا چاہتے ہیں۔ میں مسلم مؤرخوں کی بیان کردہ تاریخ کی بجائے ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے سیکولر ہندو تاریخ دانوں کا خاص طور پر حوالے دینا چاہتا ہوں کہ یہ لوگ بپن چندرا، رومیلا تھاپڑ، تارا چرن، ہربنس مکھیا، راج کشور، بی این پانڈے، رام چندر گوہا، پی سیتا رمیاوغیرہ کی لکھی تاریخ کا مطالعہ کریں تو آنکھیں کھل جائیں گی لیکن یہ فرقہ پرست وہ لوگ ہیں جو ملک کی سا لمیت سے مسلسل کھلواڑ کر رہے ہیں اورانتہا یہ ہے کہ اگر کوئی ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والا بھی اگر سیکولر اور سیکولرازم کی باتیں کرتا ہے تو وہ سیدھے دیش دروہ قرار دیا جاتا ہے۔ دابھولکر، پنسارے ، گوری لنکیش وغیرہ جیسی شخصیات کی سیکڑوں مثالیں خوفناک شکل میں ہمارے سامنے موجود ہیں کہ ان معصوم لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب سیکولر لوگ اور سیکولرازم پر یقین رکھنے والی تنظیمیں خوف سے اپنی زبان پر قفل ڈالنے پرمجبور ہیں۔ ایک راہل گاندھی ہیں جو تمام تر مخالفتوں اور موسمی شدتوں کو جھیلتے ہوئے پورے ملک میں بڑھتی نفرت، تشدد، بدعنوانیوں، فرقہ پرستی، تخریب کاری وغیرہ کو ختم کرنے کے لئے کنیا کماری سے کشمیر تک نفرت کے بازار میں پیار محبت، اخوت اور مساوات کی دوکان کھولنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
[email protected]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS