ڈاکٹر ریحان اخترقاسمی
یورپ کی غلامی میں آکر جب عالم ِ اسلام کے ذہن وفکر او رتہذیب واخلاق غیر اقوام کی تہذیب سے متاثر ہوگئے، اور دینی و علمی او راخلاقی فتنوں نے اسلامی تہذیب ومعاشرت پریلغار کی ، توسب سے پہلے اسلام کے نظامِ ستر، حجاب ، پردہ اورعورتوں کے مقدس اورمحترم مقام ومنزلت اور اس پر مبنی ایک پاکیزہ خاندانی نظام کوتہہ وبالا کرنے کے لئے مشتشرقین یورپ،غیر مسلم مصنفین اور موجودہ دور میں مغربی تہذیب کے دلدادہ دانشوران قوم یورپی تہذیب وکلچر کومعیار حق و انصاف سمجھنے والے نام نہاد اسلامی مفکرین ومصلحین نے بھی ستر وحجاب کونشانۂ تضحیک بنانے سے گریز نہیں کیا۔ مسلمانوں میں بھی مغرب سے مرعوب ذہن وفکر نے مغربی پروپیگنڈہ کی تقلید کی توکبھی تعدد ازدواج کی ہنسی اڑائی گئی ، پردہ کومشق تحقیق بنایا اور کبھی مسلمان عورتوں کی نام نہاد مظلومیت اورگھروں کی چہار دیواری میں قید وبند کاماتم شروع کیا، اس طرح سے مسلمان عورتوں کی ایک نہایت بھیانک قابلِ رحم تصویر بنا کر دنیا کے سامنے پیش کردی حالانکہ صداقت اس غلط بیانی کے بر عکس ہے۔
دنیا بھر کے اقوام وملل اور انسانی رسم ورواج میں عورت جس ظلم وستم اور تذلیل وتحقیر کی حالت میں مبتلا تھی۔ دنیا کی تاریخ اس المناک داستان سے بھری پڑی ہے، عورت ذات کو محض ایک آلۂ تعیش ، ذریعہ لذت بناکر رکھ دیا گیاتھا اس کی حیثیت ووقعت مردوں کے لئے ایک مشترکہ قومی ملکیت کی سی تھی۔ لوگوں کے تفریح طبع کاایک سامان تھی، اس کا مشغلہ صرف اتنا تھاکہ غلاموں کے مانند مردوں کے آرام وراحت رسانی میں لگی رہے۔ اور نت نئی اداؤں دلفریب مسکراہٹوں اور نمودونمائش کے نئے نئے طریقوں سے مردوں کوسامانِ تسکین فراہم کرتی رہے۔ ایک مرد بلالحاظ عدل و انصاف اور بلالحاظ تعداد جتنی چاہے عورتوں کونکاح یا تمتع میں رکھ سکتا تھا حتیٰ کہ اپنے خونی رشتے سے جسمانی تعلق قائم کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔
لیکن اسلام نے آکر ایک طرف تو اس نحیف وکمزور اور ضعیف وناتواں کے جسم سے ظلم واستبداداور ذلت ورسوائی کی ساری بیڑیاں توڑ ڈالیں۔ اور اسے مقام انسانیت اور شرف وفضل میں مردوں کے ہمسر قرار دیااور فرمایا:
یا ایھا الناس انا خلقنا کم من ذکر وانثی،لحجراۃ،آیت ۱۳
ترجمہ اے لوگوں یقینا ہم نے تم کوایک مرد او رایک عورت سے پیدا کیاہے۔ ،
دین اسلام نے عورتوں پرہونے والے تمام بے جا ظلم وجور، تحقیر وتذلیل کو اس طرح ختم کردیا کہ عورت ذات مرد کی دست دراز یوں اور درندہ صفت انسانوں سے ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوگئی۔ اور ان کی حفاظت کے لئے وہ تمام طریقہ کار اختیار فرماے جوانسانیت کے لیے حددرجہ ضروری ہے، اور عورت کواس کی حیثیت ووقعت کوایک بیش بہا خزانہ ایک قیمتی سرمایہ اور انمول موتی اور ایک نازک آبگینہ قرار دیا۔
قرآن وسنت پرایک سرسری نگاہ ڈالیں او ردیکھیں کہ مرد وعورت کو معاشرتی زندگی گذارنے کے لئے خالقِ کائنات نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح رہنمائی کی ہے۔ اس کے بعد ایک انصاف پسند اور جویائے حق طبیعت خود فیصلہ کرسکتی ہے کہ خدا اور رسول کاکیا منشاء ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔
وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الاولی(الاحزاب، آیت ۳۳)۔
ترجمہ: اور گھروں میں ٹھہری رہو اور پچھلی جاہلیت کی زینت ، نمائش ترک کردو۔
عفت وعصمت اور پاکدامنی وپاکبازی کوملحوظ رکھتے ہوئے چلتے پھرتے عورتوں پر پابندی عائد کی کہ وہ ایسے لباس میںملبوس رہیں کہ ان کے جسم کاکوئی حصہ اور کوئی عضو ایسا نہ کھلا رہے جس سے مخفی محاسن کی نمودونمائش ہو، اللہ پاک کاارشاد ہے۔
والیضربن بخمر ھن علی جیوبھن، سورہ النور،آیت ۳۱۔
اپنے سینوں اور گریبانوں پر دوپٹوں کاآنچل مارلیں۔
ایک دوسری جگہ ازدواج مطہرات ، بناتِ اطہار اور تمام مسلمان عورتوں کومخاطب کرتے ہوئے اللہ پاک نے فرمایا۔
ید نین علھین من جلا بھین،سورہ الاالاحزاب ، آیت ۶۹۔
وہ لمبی لمبی چادریں اپنے اوپر ڈھانپ لیں۔
علامہ ابوبکر جصاص لکھتے ہیں۔
’’ یہ آیت اس بات پردلالت کرتی ہے کہ جو ان عورتوں کو اجنبیوں سے چہرہ چھپانے کاحکم ہے اور اسے گھرسے نکلتے وقت پردہ داری اور عفت مآبی کااظہار کرناچاہئے۔ تاکہ بد نیت لوگ اس کے حق میں طمع نہ کرسکیں (احکام القرآن،جلد۳،ص،۴۵۸)۔
علامہ نیشاپوری اپنی تفسیر میںلکھتے ہیںکہ ابتدائے اسلام میں عورتیں جاہلیت کی طرح قمیص اور ڈوپٹے کے ساتھ نکلتی تھیں۔ اور شریف عورتوں کالباس ادنیٰ طبقہ کی عورتوں سے مختلف نہ تھا پھر حکم دیا گیاکہ وہ چادریں اوڑھیں اور اپنے سراور چہروں کوچھپائیں تاکہ لوگوں کومعلوم ہوجائے کہ وہ شریف عورتیں ہیں، فاحشہ نہیں ہیں۔ غرائب القرآن بر حاشیہ ابن جریر، جلد ۲۲،ص،۳۲۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کاپاک ارشاد ہے۔
ان المرأۃ عورۃ مستورۃ فاذا خرجت استشرفھا الشیطان(رواۃ الترمذی)۔
ترجمہ: بلا شبہ عورت ایک چھپی ہوئی چیز ہوتی ہے جب وہ باہر نکل جاتی ہے توشیطان اس کی تاک میں لگ جاتاہے کہ اب کسی کو دامِ فریب میں فساؤں گا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا فرماتی ہیں کہ سوا ر ہمارے قریب سے گذرتے تھے اورہم عورتیں رسول اللہ کے ساتھ ساتھ احرام میںہوتی تھیں۔ پس جب وہ لوگ ہمارے سامنے آجاتے توہم اپنی چادریں اپنے سروں کی طرف سے اپنے چہروں پر ڈال لیتیں اورجب وہ گذر جاتے تو کھول لیتی تھیں( سنن ابی داؤد باب فی المرأۃ تعظی وجھھا)۔
شمس الائمہ سرخسی نے کہاکہ دیکھنے کاحرام ہونا فتنہ کی وجہ سے ہے اور عورت کاچہرہ دیکھنے میں فتنہ (گناہ) کاخوف واندیشہ ہے اس وجہ سے دوسرے کے بالمقابل عورت کے چہرہ میں حسن وکشش زیادہ ہوتی ہے (المبسوط، ص ۱۵۲-جلد ۱۰،)۔
علامہ ابن حجر عسقلانی نے فرمایا کہ مساجد، بازار اور اسفار میں نقاب لگا کر جانے کاعمل ہمیشہ سے چلا آرہاہے امام غزالی نے فرمایاکہ ہمیشہ مردوں کاچہرہ کھلا ہوا چلاآرہاہے اور عورتیں نقاب لگا کر نکلا کرتی تھیں(فتح الباری ، جلد، ۹، ص، ۳۳۷)۔
علامہ سہارنپوری بذل المجہود میں رقم طراز ہیں۔
’’ کہ صرف ضرورت کے موقع پر چہرہ کھولنے کاجائز ہونا اس پر امت کایہ اتفاق دلالت کرتا ہے کہ عورتوں کوچہرہ کھول کر نکلنا جائز نہیں ہے بالخصوص فساد کی کثرت اور اس کے ظہور کے زمانے میں( شرح سنن ابی داؤد جلد، ۱۴، ص ۴۳۱)۔
حجاب کے احکام کی حکمت
اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ نظام حیات میں پردے اور حجاب اسلامی کو کس حکمت و دانشمندی کے تحت حکم دیئے گئے ہیں،اس حاکم ربانی میں اللہ رب العزت نے کتنی برکتیں اور رعیتیں ودیعت کردیں ہیں۔حالات حاضرہ کے تناظر میں اور معاشرتی پراگندگی کے ماحول میں اس کا اندازہ ہوتاہے کہ خالق کائنات نے دنیا کے اس حسین نگینہ کو کس طرح سے شرم وحیا کی چادرمیں ملبوس فرمایااورعورت انسانی کو معراج عفت عصمت عطاکیا۔تخلیق انسانی اس بہترین شاہکارکو قرآنی اصول حیا سے مزین کردیا،تاکہ رہتی دنیا تک یہ ذات پیکرحیا کی مثال ہو۔
اسلام کا نظام معاشرت نہ ہی قدامت پرستی پرمبنی ہے جو انسانی خواہشات و ضروریات پر بندش لگادے اور نہ ہی آج کے جدید اور روشن خیال معاشروں کی طرح مردوعورت کواتنی آزادی عطاکردے کہ دوسری مخلوقات اپنے آپ پر شرمندہ حیا ہوں۔اسلام نے دنیا کے سامنے ایک معتدل نظام حیات پیش کیااور دنیائے انسانی کے لئے معراج انسانی اور رحمت وبرکت کا پیش خیمہ قراردیا۔اللہ رب العزت کا ارشادہے:
اللہ ولی الذین اٰمنوایخرجھم عن الظلمات الی النور،والذین کفرو ااولیائھم الطاغوت یخرجھم عن النور الی الظلمات۔اولئک اصحاب النار ھن فیھا خالدون۔(البقرہ:۳۵۷)
(جولوگ ایمان لاتے ہیں ان کا حامی و مددگار اللہ ہے اور ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتاہے اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں،ان کے حامی ومددگار طاغوت ہیں اور انھیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں یہ آگ میں جانے والے لو گ ہیں۔جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے)
ڈاکٹر رقیہ جعفری صدیق اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں:
’’اسلام نے عورت پر پردہ فرض کیا ہے یعنی جب بھی عورت گھر سے باہر نکلے تو اپنی زینت کو چھپائے اور سوائے اپنے چہرے اور ہاتھوں کے اپنے پورے جسم کو چادر یاحجاب سے چھپائے رکھے۔حجاب دراصل شریعت محمدی ﷺ کی طرف سے ایک نایاب تحفہ اور تحفظ کی بہترین نشانی ہے،جس کو مغرب (west) نے مسلمان عورتوں کے لیے ایک ظلم و زیادتی قرار دیا ہے۔ بے پردگی اور خود ساختہ آزادی نے مغربی عورت کو مرد کے ہاتھوں کھلونابنادیاہے،اس کی عصمت و آبرو کو تار تار کردیاہے۔مرد نے عورت کو گلی کے نکڑ پر گھڑا کر دیا تاکہ ہر آنے والا اس کو استعمال کر کے پھینک دے۔در اصل مغرب نے عورت کو گھر کے باہر رکھی جانے والی جوتی بنایاہے اور اسلام نے عورت کو گھر کے اندر محفوظ رکھی جانے والی تجوری بنایاہے۔اسلام نے ماں کو بچوں کی پہلی معلمہ اور اس کی گود کو پہلی درس گاہ قرار دیا۔ماں کی شفقت بھری گود کو بچے کا پرسکون گہوارہ بنادیا،ماں کے دودھ کو دنیا کا بہترین مشرب قرار دیا اور ماں کے لمس (touch) اور لوریوں(lullabies) کو بچے کے لیے روھانی نشہ۔
(حکمت قرآن،مرکزانجمن خدام القرآن لاہور، دسمبر ۲۰۰۷ ، ص:۷۶)
پردے کا حکم عورت پراحسان عظیم قرار دیتے ہوئے اسیر ادروی مدیر مجلہ ترجمان اسلام میںلکھتے ہیں :
’’اسلام میں عورت کے لیے پردے کا حکم دیاگیاہے، ترقی پسند روشن خیال اور جدید تعلیم یافتہ خواتین اور نام نہاد مسلم دانشور،یونیور سٹیوں کے پروفیسر جو جدید تعلیم سے آراستہ ہیں ان تمام کو سب سے زیادہ غصہ اسلام کے اسی حکم پر ہے،اسلام کو ایک دقیانوسی،فرسودہ اور زمانہ جہالت کانمائندہ مذہب تصور کرتے ہیں حالانکہ تجربا ت ومشاہدات روزمرہ کے واقعات و حقائق ان کے خیالات کی تردید کے لیے صف بہ صف کھڑے ہیں،ترقی یافتہ یورپین ملکوں سے لے کر ایشا کے ترقی پذیر ممالک تک میں شائع ہونے والی جرائم کی رپورٹوں کو اگر انھوں نے سنجیدگی سے پڑھاہوتاتو وہ تھک ہار کر اسلام میں پردے کے حکم کو عورت کی عظمت و شرافت،عفت و عصمت کی حفاظت و بقا کے لیے ایک نعمت تصور کرتے اور ان کونسوانی دنیا پر اسلام کا ایک عظیم احسان تسلیم کرناپڑتا،کیونکہ ان رپورٹوں میں جرائم کی جو تفصیل ملتی ہے ان میں پچاس فیصدی جرائم جنسیات سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں صرف ’’زن‘‘ سے تعلق رکھتے ہیں،یہ تناسب وہاں کم ہوجاتاہے جہاں عورت پردے کی پابند ہے،جس طرح ہرجانور اپنے موسم میں جنسی اعتبار سے پاگل ہوجاتاہے انسان میں بھی یہ حیوانی جذبہ بدرجہ اتم موجود ہے،عمر کے ایک مخصوص دور میں یہ جذبہ دیوانگی کی سرحدودں کو چھولیتاہے اور جب اس جذبے کا تناؤ بڑھ جاتاہے تو انسان بھی کچھ دیر کے لیے جنسی درندہ بن جاتاہے اور وہ سب کچھ کر گذرتاہے جو ننگ انسانیت ہے۔‘‘
(مجلہ ترجمان الاسلام،جامعہ اسلامیہ ریوڑی تالاب بنارسمارچ ۱۹۹۴ء، ص:۷۳)
حدیث نبوی ﷺ میں حجاب کے سلسلے میں بہت ہی واضح تعلیمات مستند کتابوں کے حوالے سے ملتی ہیں۔حدیث نبوی مندرجہ ذیل ہیں :
(۱)’’حضرت ابن مسعود ؓسے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ عورت عورت ہے یعنی پردہ میں رکھنے کی چیز ہے۔جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس عورت کو گھورتاہے یعنی کسی اجنبی عورت کو دیکھنا شیطانی کام ہے۔‘‘(ترمذی)
(۲)حضرت ام سلمہ ؓسے روایت ہے کہ میں اور حضرت میمونہ حضورﷺکی خدمت حاضر تھی کہ (ایک نابیناصحابی) ابن مکتوم ؓسامنے سے حضورﷺکی خدمت میں آرہے تھے تو سرکار ﷺ نے (ہم دونوں سے) فرمایاکہ پردہ کرلو(حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ)میں نے عرض کیایا رسول اللہ ﷺ کیاوہ نابینا نہیں ہیں؟وہ ہمیں نہیں دیکھ سکیں گے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کیاتم دونوں بھی نابیناہو،کیاتم انھیں نہیں دیکھوگی‘‘ (احمد،ترمذی۔ابوداؤد)
یعنی مرد کے لیے جس طرح اجنبی عورت کو دیکھنا ناجائز ہے اسی طرح عورت کے لیے بھی اجنبی مرد کو دیکھنا جائز نہیں ۔
(۳)’’حضرت جریربن عبداللہ ؓنے فرماکہ میں نے حضورﷺ سے (کسی عورت پر)اچانک نظر پڑجانے کے متعلق پوچھا تو حضور ﷺ نے مجھے نظرپھیر لینے کا حکم فرمایا‘‘(مسلم)
حجاب کا طریقہ
تفسیر ابن کثیر میں اس آیت ’’یٰآیھاالنبی قل لازواجک و بنٰتک ونسآء المومنین یدنین علیھن من جلابیبھن(اے نبی اپنی بیویوں سے اور اپنے صاحبزادیوں سے اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادر یعنی گھونگھٹ ڈال لیاکریں) کے تحت لکھا ہے:
’’قال ابن عباس ﷺ:امراللہ نساء المومنین اذاخر جن من بیوتھن فی حاجۃ ان یغطین وجوھھن من فوق رؤوسھن بالجلابیب ویبدین عیناواحداً،
(یعنی:حضرت ابن عباس نے فرمایاکہ اللہ نے مومن عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی ضرورت کے لیے اپنے گھر سے باہر نکلیں تو اپنے سر کے اوپر سے گھونگھٹ نکال کر چہرہ چھپالیں اور ایک آنکھ کھلی رکھیں)
آگے لکھا ہے:وقال محمد بن سیرین : سألت عن عبیدۃ السلمانی عن قول اللہ عزوجل :یدنین علیھن من جلابیبھن، فغطی وجھہ ورأسہ و ابرزعینہ الیسریٰ(یعنی : محمد بن سیرین نے کہا کہ عبیدہ سلمانی سے اللہ عزوجل کے قول ’’یدنین علیھن من جلابیبھن ‘‘ کی تفسیر پوچھی تو انھوں نے اپنا چہرہ اور سرڈھانک لیا اور بائیں آنکھ کھلی رکھی)
الدارالمختار میںلکھاہے:’’وأما فی زماننافمنع من الشابۃ ،لا الٔنہ عورۃ،بل لخوف الفتنۃ‘‘
(یعنی: ہمارے زمانے میں جو ان عورت کا چہرہ دیکھنے سے منع کیاجائے اس لیے نہیں کہ یہ حصہ ستر میں داخل ہے بلکہ اس لیے کہ اس میں فتنہ کا خوف ہے) (جاری)
email: [email protected]
ڈاکٹر ریحان اخترقاسمی: احکام الٰہی اورنسوانی فطرت کے خلاف عالمی رجحانات کاایک جائزہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS