ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
امریکی صدر جوبائیڈن نے جب اپنی امیدواری پیش کی تھی اور سْپر پاور امریکہ کا صدر بننے کے بعد جن مسئلوں کو اولیت دینے کا اعلان کیا تھا ان میں جمہوریت اور جمہوری قدروں کی بحالی کو سر فہرست رکھا گیا تھا۔ وجہ صاف تھی کہ جمہوری نظام کے علمبردار ملک میں ہی خود فسطائیت کی جڑیں کافی گہری ہوتی جا رہی تھی اور اس کا تجربہ 6 جنوری 2020 کو خود امریکیوں کو ہوگیا جب سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکی انتخابات کے نتائج پر سوال کھڑے دیئے اور ان کے حامیوں نے امریکہ میں عوام کے منتخب نمائندوں پر خود کاپیٹل ہیل پہنچ کر حملہ کر دیا۔ جو حالات پیدا ہوگئے تھے ان کی روشنی میں یہ بجا طور پر یہ کہا جا سکتا تھا کہ جمہوریت کے مرکز میں ہی جمہوری نظام جاں کنی کے عالم میں پہنچ گیا ہے۔ یہ پس منظر اتنا بھیانک تھا کہ جوبائیڈن کے اس اعلان پر سوال کھڑا نہیں کیا جا سکتا تھا کہ وہ واقعی جمہوریت کو بچانے کے سلسلہ میں سنجیدہ ہیں۔ لیکن کیا اس جمہوری نظام کی بحالی کا دائرہ صرف امریکہ تک محدود رکھا گیا تھا یا دنیا کے باقی حصوں میں بھی اس کی جڑی مضبوط کرنے کا کوئی مؤثر پلان تیار کیا گیا تھا؟ کیا مشرق وسطیٰ کے اندر جمہوری قدروں کو بڑھاوا دینے کے لئے امریکہ نے کبھی کوئی سنجیدہ کوشش کی؟ کیا مشرق وسطیٰ میں انسانی حقوق کی پامالی کو روکنے کے سلسلہ میں امریکہ نے اپنے اثر و رسوخ کا کوئی مثبت استعمال کیا؟ ان سارے سوالات کا جواب نفی میں ہے اور اس کے اپنے اسباب ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے تناظر میں جمہوریت کے تئیں امریکی ادارہ کی سنجیدگی یا عدم سنجیدگی کو سمجھنے کے لئے ان پالیسیوں کو دھیان میں رکھنا ضروری ہوگا جو سپر پاور اس خطہ کے لئے تیار کرتا ہے۔ مثال کے طور پر مشرق وسطیٰ میں انسانی حقوق کے تحفظ کا معاملہ سب سے زیادہ اہم ہے کیونکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ خطہ جس قدر عدم استحکام کا شکار رہا ہے دنیا کا کوئی خطہ نہیں رہا ہے۔ آج بھی شام، عراق، فلسطین، یمن، لیبیا، سوڈان اور مصر و اردن بے شمار مسائل سے دوچار ہیں اور انسانی حقوق کی پامالی کا مسئلہ ان ملکوں میں سب سے زیادہ سنگین ہے۔ لیکن اس کو حل کرنے کے معاملہ میں امریکہ کے سابق صدور کی طرح جوبائیڈن بھی غیر سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ بائیڈن اپنے جمہوریت کی بحالی پروجیکٹ کو بھی مشرق وسطی میں سنجیدگی سے نافذ کرنے کے سلسلہ میں کوئی دلچسپی نہیں دکھاتے ہیں کیونکہ بحیثیت مجموعی اب تک ان کی پالیسیاں یہ ثابت کرتی رہی ہیں کہ وہ بھی انہی لیڈران کو تعاون پہنچاتے ہیں جو استبدادی نظام کو سختی سے اس خطہ میں نافذ کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کے علاوہ دوسرا اہم مسئلہ جو عرب عوام کے دل کے بہت قریب ہے وہ ہے مسئلۂ فلسطین۔ دیکھا جائے تو اس مسئلہ کا بلا واسطہ تعلق جمہوریت سے بھی ہے لیکن اس سلسلہ میں بھی بائڈن ایڈمنسٹریشن نے اپنے موقف میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کی ہے۔ یہ ادارہ مسلسل اسرائیل کی حکومت، اس کے اپارتھائیڈ نظام اور مقبوضہ فلسطینی زمینوں پر لگاتار چل رہے مظالم کو حمایت دیتا چلا آرہا ہے۔ سب سے بدترین پہلو یہ ہے کہ فلسطین۔ اسرائیل مسئلہ پر ٹرمپ کی پالیسیوں کے سخت ناقد ہونے کے باوجود اسرائیل کو تمام قسم کی مراعات مہیا کرنے کے معاملہ میں بائڈن نہایت پرجوش نظر آتے ہیں۔ اسرائیل کو مل رہی اس بے روک ٹوک امریکی حمایت کا فلسطینیوں کی روز مرہ کی زندگی پر بڑا مہلک اثر پڑتا ہے۔ آج بھی امریکی سفارت خانہ یروشلم میں موجود ہے اور فلسطینیوں کی مقبوضہ زمین پر توسیع کاری میں مصروف ہے۔ اس پر طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اسرائیل کی ہر فسطائی حرکت پر بس روایتی الفاظ اور بے معنی ’گہری فکر مندی‘ کے اظہار کے علاوہ اس کے پاس فلسطینیوں کے لئے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اب تو فلسطین میں امریکہ کے اس قسم کے بیانات کو صرف حقارت اور نفرت کے جذبات کے ساتھ ہی دیکھا جاتا ہے اور ان سے کوئی امید وابستہ نہیں رکھی جاتی۔ یہی معاملہ ’ابراہیمی معاہدہ‘ کا ہے جس کو ٹرمپ نے بڑے زور و شور سے نافذ کیا تھا اور اب بائیڈن بھی اسی نہج پر قائم ہے جبکہ اس معاہدہ کی حقیقت بالکل دو دو چار کی طرح واضح ہے کہ وہ صرف استبدادیت کو پروان چڑھانے کا آلہ ہے۔ اس کے علاوہ مشرق وسطیٰ میں جمہوریت کے قیام کے لئے جو تحریکیں اٹھتی ہیں ان کو امریکہ کی پالیسیاں اس طور پر متاثر کرتی ہیں کہ وہ استبدادی نظام کے سامنے اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پاتے کیونکہ سْپر پاور کا تعاون ان تحریکوں کو نہیں بلکہ ڈکٹیٹروں کو ملتا ہے جو کسی طرح بھی ان تحریکوں کا وجود برداشت کرنا نہیں چاہتے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت کو بڑھاوا دینے کے سلسلہ میں امریکہ کی سنجیدگی کے باوجود مشرق وسطیٰ کو استثنائیت کے خانہ میں رکھا جاتا ہے۔ امریکی فیصلہ سازوں کے اندر اس بات کی فکرمندی تقریباً مفقود ہے کہ جمہوریت کو اس خطہ میں پنپنے کا موقع دیا جائے۔ وہ نہیں چاہتے کہ عالمی نظام کو استحکام بخشنے والے انہیں نظریات کو مشرق وسطیٰ میں بھی نافذ کیا جائے جن سے باقی ترقی یافتہ ملکوں نے فائدہ اٹھایا ہے۔ کیونکہ ایسا کرنا امریکہ کے طویل مدتی پروگرام سے میل نہیں کھاتا ہے۔ امریکی دماغوں کو یہ معلوم ہے کہ اس خطہ کا استحصال بہتر ڈھنگ سے تبھی ممکن ہو سکتا ہے جب یہاں اس کی مرضی کے حکمراں رکھے جائیں۔ لیکن یہ گیم بھی اب زیادہ دنوں تک چلنے والا نہیں ہے۔ خود عرب حکمرانوں میں اب یہ احساس جڑ پکڑنے لگا ہے کہ امریکہ پر ضرورت سے زیادہ بھروسہ کرنا ان کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس کا سب سے بڑا مظاہرہ سعودی عرب نے کیا جب اس نے چین کے ساتھ بہت سے پالیسی معاملوں پر اتحاد کرنا ضروری سمجھا اور امریکی مفادات کی بالکل پرواہ نہیں کی۔ واشنگٹن کے پالیسی سازوں کے درمیان بڑی بے چینی کا ماحول قائم ہوا لیکن وہ کچھ کر پانے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ اسی طرح شام کے مسئلہ کو حل کرنے کے سلسلہ میں امریکہ کا کوئی کردار نظر نہیں آ رہا ہے۔ وہ ملک پورے طور پر روس کے دائرۂ اثر میں داخل ہوچکا ہے اور اس کا مستقبل روس کے علاوہ ترکی اور ایران کے مفادات کی روشنی میں ہی طے ہوگا۔ عرب حکام کے علاوہ یہاں کے عوام میں بھی امریکی پالیسیوں کے تئیں غصہ اور نفرت ہے۔ زیادہ تر لوگ اس خطہ میں امریکی پالیسیوں کو اس کی منافقت سے تعبیر کرتے ہیں اور استبدادی نظام کے خلاف اپنی جنگ میں مدد کے لئے امریکہ کی طرف بالکل منہ نہیں کرتے۔ یہ بات اس سروے سے صاف واضح ہو جاتی ہے جس کو ’عرب سنٹر فار ریسرچ اینڈ پالیسی اسٹڈیز قطر‘ نے 14 ملکوں میں کیا ہے۔ الجزیرہ میں موجود تفصیلات کے مطابق باوجودیکہ عرب عوام کی اکثریت نے یہ مانا ہے کہ جمہوریت بہترین نظام حکومت ہے اور2011 میں 67 فیصد کے مقابلہ 2022 میں 72 فیصد لوگوں نے جمہوریت کے تئیں اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا ہے لیکن وہ یہ قطعاً نہیں مانتے کہ جمہوریت کے قیام میں امریکہ معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے برعکس عرب عوام میں سے 78 فیصد کا ماننا ہے کہ امریکہ اس خطہ کے لئے سب سے بڑا خطرہ اور عدم استحکام کا سبب ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سات برسوں تک مسلسل شام پر بمباری کرنے والا روس اور عراق و ایران میں عوامی احتجاجوں کو کچلنے والا ایرانی نظام بھی اس قدر حقارت سے نہیں دیکھا جا رہا ہے جس قدر امریکہ کو دیکھا جا رہا ہے۔ عرب بہاریہ میں حصہ لینے والے لوگ بطور خاص امریکی منافقت سے نالاں ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ امریکہ نے ابتداء میں جمہوریت کی بحالی کے لئے جو یقین دہائی کرائی تھی وہ صرف ایک فریب تھا۔ حقیقت میں امریکہ کی حمایت جمہوریت مخالفت قوتوں کو ہی حاصل تھا۔ فلسطینیوں کی بدحالی، پناہ گزینوں کی در بدری اور اقتصادی و سماجی عدم استحکام جیسے مسائل نے امریکہ کے اس دعوی کو کھوکھلا ثابت کر دیا ہے کہ وہ جمہوریت کے قیام کے تئیں سنجیدہ ہے۔ اس کا نقصان عالمی سطح پر یہ ہو رہا ہے کہ فسطائیت اور استبدادیت کو فروغ دینے والی قوتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں اور چین و روس کا دائرۂ اثر بڑھ رہا ہے۔ اس کا نہایت منفی اثر عالمی نظام پر پڑے گا اور مزید انتشار و عدم استحکام کا ماحول قائم ہوگا۔ اس کا مؤثر علاج یہی ہے کہ امریکہ جمہوریت کی بحالی کے تئیں اپنے موقف پر قائم رہے اور مشرق وسطی کے علاوہ دیگر خطوں میں بھی جمہوری قدروں کو پروان چڑھانے کے لئے سنجیدہ کوشش کرے۔ یہی وقت کی بڑی ضرورت ہے۔ بطور خاص فلسطین مسئلہ پر اسرائیل کی مجرمانہ پالیسیوں کی حمایت بند کرے ورنہ اس خطہ کو مستقبل قریب میں استحکام نصیب نہیں ہوگا اور اس کے لئے امریکہ بھی اتنا ہی ذمہ دار ہوگا جتنا کہ مشرق وسطیٰ کے مطلق العنان حکمراں ذمہ دار ہیں۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں