ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی
پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ کے وہ ارشادات جن کاتعلق انسانی امراض اوران کے علاج نیز حفظان صحت کے ضمن میںہے انہیں ایک عنوان کے تحت بیان کرکے صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابو دائود، ترمذی وغیرہ میں کتاب الطب کا نام دیاگیا ہے۔اس کے علاوہ کتاب المرضیٰ، کتاب الاشربہ، کتاب الاطعمہ، کتاب اللباس،کتاب الجنائز، کتاب السلام، کتاب المساقاۃ، کتاب الادب وغیرہ کے تحت بیان کردہ بہت سی احادیث کو ابن القیم الجوزیہ (آٹھویںصدی ہجری) ابو عبداللہ الذہبی (آٹھویں صدی ہجری) ابو نعیم پانچویں صدی ہجری) ابوبکر ابن السنی (چوتھی صدی ہجری) اور دیگر علماء کرام نے طب النبوی کے تحت بیان کیا ہے۔ اس طرح اگر طب نبوی کے موضوع کی ساری احادیث کویکجا کیا جائے توان کی تعداد چار سو سے تجاوز کرتی ہے۔الجوزی نے زادالمعاد فی ہدی خیرالمعاد کے باب النبوی میں کم وبیش تین سو پچاس احادیث شامل کی ہیں۔
حالیہ برسوں میںطب نبوی پر کئی اہم تصانیف منظر عام پر آئی ہیں۔ ان میں بڑی محنت اورعقیدت کے ساتھ احادیث کے معنی ومفہوم کو بیان کرکے نبی کریمؐ کے بتائے ہوئے علاج کے طریقوں کو اپنانے کی تلقین کی گئی ہے۔ یہ کتابیں مسلمانوں کے لئے یقینا اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ یہ ایمان کو طاقت بھی پہنچاتی ہیں اور علم میں اضافہ کا سبب بھی بنتی ہیں۔ لیکن پھر بھی ان کو کئی اعتبار سے مکمل سمجھنا مشکل ہے۔
زیادہ تر تصانیف میں پیغمبری دوائوں کی پہچان کی بابت فاش غلطیاں کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک کمی جو بیشتر طب نبوی کی کتابوں میں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ مصنّفین نے عام طور سے نبی کریمؐ کی طبی ہدایات کے ان مثبت پہلوئوں پر تفصیلی روشنی نہیں ڈالی ہے جن سے ساری دنیا فیضیاب ہوئی ہے۔ یورپ کے غیر مسلم مورخین کا خیال ہے اورجسے سائنس کی تاریخ کی بیشتر کتابوں میںپڑھا جاسکتا ہے کہ ساتویں صدی سے دنیائے اسلام میں طبی سائنس سے دلچسپی اورزبردست فروغ کی اصل وجہ پیغمبر اسلام کی وہ طبی ہدایات تھیں جو انہوں نے عام مسلمانوں کودیں اورجن پر پوری امت نے صدق دلی سے عمل کیا۔ گر ایسانہ ہوتا تو ساتویں صدی اوراس سے قبل کے مروجہ جھاڑ پھونک اور جادو ٹونا جیسے علاجوں سے ہٹ کر مسلمان دوا پر اتنازور کیوں کر دیتے اوردنیا کے بہترین اسپتالوں کی بنیاد بغداد، دمشق، قاہرہ، غرناطہ، قرطبہ، اشبیلیہ وغیرہ میں کیوںکر پڑتی اور یونانی طب کی بنیادںپراسلامی طب کی اہمیت کو ساری دنیا ماننے پر مجبور ہوتی ہے اور مسلمان اطباء کی ’’القانون‘‘ (Qanun)اور ’’الحادی‘‘ (Continens) جیسی تصنیفات کو یورپ کی میڈیکل یونیورسٹیوں میں چھ سو سال سے زیادہ عرصہ تک کیوں کر پڑھایا جاتا۔
طب نبویؐ کے موضوع پر کثیر تعداد میں مسلم علماء اور دانشوروںکی تصنیف کردہ زیادہ تر کتابیں ایسی ہیں جن میں علاج و معالجہ کا روحانی نقطہ نظر پیش کیاگیا ہے۔ نیزاعتقادات کے پہلوپر زوردیتے ہوئے پیغمبری دوائوں کی افادیت بیان ہوئی ہے۔ عام طور سے ارشادات رسولؐ کو موجودہ سائنسی علم کی روشنی میں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش نہیں کی گئی ہے اس سچائی کو اب مغرب کے مورخین بھی تسلم کرنے لگے ہیںاور محسوس کرتے ہیں کہ ارشادات رسولؐ نے طبی علم کوحیات نو بخش کر انسانیت پراحسان فرمایا ہے۔ کیونکہ اسلام سے قبل طبی علم تقریباً بھلایا جاچکاتھا۔یہی نہیں طبعی علاج ومعالجہ غیر دینی عمل تصور کیاجاتا تھا۔ مشہور مورخ ڈگلس گتھری (Medicine Arab) تسلیم کرتا ہے کہ مسلمانوں میں طبی سائنس کی گہری دلچسپی اور فروغ کی اصل وجہ وہ ارشادات اوراحکام تھے جور سول اکرمؐ نے مسلمانوں کودئے تھے۔
طب نبویؐ سے متعلق بعض اردو تصانیف یا مشہور عربی کتابوںکے انگریزی اور اردو ترجمے منظر عام پر آئے ہیں جن میں ادویہ کی سائنسی پہچان کی کوشش توکی گئی ہے لیکن یہ کوششیں ایسی نہیں ہیں جن کوسائنسی اعتبار سے قبولیت حاصل ہوسکے۔ کیونکہ بعض سائنسی غلطیاں بہت واضح ہیں۔مثلاً زیادہ ترکتابوں میں بہی (حدیث۔ سفرجل) لوبان (حدیث، لبان) کندر (حدیث، کندر)عود (حدیث،عودالہندی)ورس (حدیث،ورس) اور کافور (حدیث، کافور) وغیرہ کی شناخت ایسی نباتاتی ناموں سے کی گئی ہے جو سراسر غلط ہیں۔ ان غلطیوں کے ساتھ طب نبوی کی تصانیف نہ تواس اہم موضوع کے شایان شان ہیں اور نہ ہی اس کاحق اداکرتی ہیں۔ بعض تصانیف میں کچھ نامناسب خیالات کا اظہار کیاگیا ہے۔ مثلاً حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے علاج سامنے موجودہ طبی علاج کوہیچ بتا یاگیا ہے۔ یہ موازنہ نامناسب ہے۔ مصنّفین نے ملحوظ نہ رکھاکہ موجودہ طبی علم کی بنیادوہ طبی سائنس سے جس کو مسلمانوں نے فروغ دیا اور مسلمانوں کاطبی علم ارشادات رسولؐ کا مرہون منت ہے۔کسی بھی دوسرے علم کی طرح طبی علم ہمیشہ ترقی پذیر ہونے والا علم ہے اوراس کے اشارے احادیث میں بکثرت ملتے ہیں۔
بخاری، مسلم اور دیگر احادیث میں بہت سی احادیث موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ باقاعدگی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتے اور اپنی بیماریوں کے بارے میں بتاتے تھے۔ وہ انہیں مشورہ دیتے کہ پہلے دوا کا سہارا لیں اور پھراللہ سے بیماری سے نجات کی دعا کریں۔ کئی مواقع پر وہ خود کچھ دوائیں تجویز کرتے۔ مثال کے طور پر، بھوک نہ لگنے کی صورت میں وہ اکثر تلبینہ لینے کا مشورہ دیتے ، جو کہ جو سے تیار کی جاتی ہے۔ قبض کے لیے وہ سنا (Senna alexandrina) کے استعمال کا مشورہ دیتے۔ وہ تندرست رہنے کے لیے شہد کے باقاعدہ استعمال کے حق میں بھی تھے۔ اسی طرح مختلف بیماریوں کے لیے وہ زیتون ( Olea Europaea)کلونجی (a Nigelasativ)، کاسنی (Cichoriumentybus )، میتھی (Trigonella foenum-graecum ) کے۔ , ادرک ( officinale Zingiber ) مرزنجوش((Origanum vulgare , زعفران ( sativus Crocus )سرکہ وغیرہ کیاستعمال کا مشورہ دیا کرتے۔۔ یہاں تک کہ پینے کے پانی، کھانا کھانے، اور صاف ستھرا رکھنے کے لیے بھی انہوں نے مشورہ دیا۔ انہوں نے فرمایا کہ ’’صفائی نصف ایمان ہے۔‘‘واضح رہے کہ مغرب کے مورخین یہ تسلیم کرتے ہیں کہ دور وسطیٰ میں جس جھاڑ پھونک کا چلن نصرانیوں نے اور یہودیوں میں عام تھا اسے ختم کرنے میں اسلامی نقطہ نظر بہ سلسلہ طب کا سب سے اہم رول رہا ہے۔ یہ چلن نہ ختم ہوا ہوتا تو آج کا طبی انقلاب بھی بپا نہ ہوا ہوتا۔طب نبوی کا اصل مقصد ومدعا مسلمانوں کو طبعی علاج کی طرف متوجہ کرنا تھانہ کہ عام طبیبوں کی طرح دوائوں کے نسخہ جات عطا کرنا۔ لہٰذا طب کے سلسلہ کے فرمودات رسولؐ کوآج کل کے طبیبوں کے نسخوں کی روشنی میں پرکھنانا مناسب طرز فکر ہے۔ ابن خلدون نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف ’’مقدمہ‘‘ میں اس نقطہ نظر کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے : ترجمہ : رسول کریمؐ کا پیغام خدائی قانون کا ہم تک پہونچانا تھا نہ کہ عام طبی نسخوں کو بتانا۔ابن خلدون کی نظر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طبی اورغیر طبی سارے علوم میں مسلمانوں کو دلچسپی لینے کی تلقین فرمائی اوران میں خوداعتمادی پیدا کرنے کا طریقہ اپنایا۔ اس ضمن میں ابن خلدون مسلم کی وہ حدیث بیان کرتا ہے جو حضرت انس سے مروی ہے اورجس کے بموجب کھجور کے درختوں میں تابیر (Fecundation) نہ کرنے کا مشورہ کی بناپر پیداوا رمیں کمی واقع ہوگئی توحضور اکرمؐ نے مسلمانوں کوتلقین فرمائی کہ وہ د نیاوی معاملات میں اپنے علم اورجانکاری کی روشنی میں کام کریں۔ اس واقعہ نے مسلمانوں میں یقینا خود اعتمادی کا زبردست احساس پیدا کیا تھا۔
ہندوستان اورپاکستان کے بعض مصنفین نے طب نبوی کا جائزہ لیتے ہوئے جو طریقہ اپنایا ہے وہ ابن خلدون کے نظریات سے بالکل مختلف ہے۔مثلاً ایک پاکستانی مصنف نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی بیماری دل سے متعلق بخاری کی حدیث کو بیان کرتے ہوئی تحریر فرمایا کہ دل کے دورہ کے لئے حضور اکرمؐ نے جو نسخہ حضرت سعدؓ کے لئے تجویز کیا تھا یعنی پسی ہوئی سات کھجوریں وہ آج کل کی Bypass Heart Surgery سے کجا بہتر ہے۔ موصوف نے اس حقیقت کو نظر انداز کردیاکہ حضور اکرمؐ نے حضرت سعد کو کھجور کھانے کی صلاح دیتے ہوئے یہ مشورہ بھی دیا تھاکہ چونکہ وہ دل کے مرض میںمبتلا ہیں لہٰذا ثقیف کے طبیب حارث بن کلدہ سے رجوع کریں جوایک یہودی حکیم تھا اور بڑاماہر بھی۔ گویا اس حدیث میں پیغام مضمر ہے کہ کسی بھی جان لیوہ مرض میں لازم ہے کہ مریض یا اس کے متعلقین اس علاقے کے ماہر طبیب سے رجوع کرکے بہتر سے بہتر دوا اور علاج سے فائدہ اٹھائیں۔ واضح رہے کہ رسول اللہ نے خود اپنے علاج کے لئے متعدد دوائیں استعمال کیں۔ صرف حب سوداء یا کھجور پر ا کتفا ء نہ کیا۔
ساتویں صدی اوراس سے قبل افریقہ اورایشیاکے سارے علاقوں میں جہاں رومیوں یا بازنطیوں کا اقتدار تھا طب سے شدید نفرت پائی جاتی تھی اور دینی اعتبار سے کسی مرض کے لئے دوا کے استعمال کو نامناسب عمل تصور کیا جاتا تھا۔ مرض پر قابو پانا یا اس سے چھٹکارا دلانا طبیب کاکام نہ تھا بلکہ یہ فریضہ کاہنوں، جادوگروں یا پھر عبادت گاہوں میںرہنے والے دینی رہنمائوں کا تھ۔ بعض یورپین مورخین نے لکھا ہے کہ رومن سلطنت کے زوال کے بعد کئی سو سال تک کلیسیا نے یونانی طبی علم کو جاہلیت (Heathen)سے تعبیر کر کے الحاد بتایا اور امراض کے علاج کے لئے صرف روحانی علاج کی اجازت دی۔ علاج ومعالجہ کے سلسلہ میں یورپ کاحال فارس، عراق، شام ومصر کے حال سے زیادہ خراب تھا۔ وہاں تو سوائے جادو، ٹونا اور گنڈہ وتعوید کے مرض سے نجات پانے کاکوئی دوسرا طریقہ ہی نہ تھا۔ طبعی علاج کرنے والے سزا کے مستحق قرار دئے جاتے۔ ڈونالڈ کیمبل نے Arabian Medicine-1926 میں یورپ کا حال بیان کرتے ہوئے لکھاہے ترجمہ : اسلامی سائنس (کے فروغ) کے دور میں یورپ تاریکی کے دور سے گزر رہا تھا۔ جہل کی برائیاں، کٹرپن، ظلم، جادو، ٹونا اورتعویذ عام تھے۔
کیمبل کے نزدیک یورپ میں علم سے بیزاری کی اصل وجہ کلیسا کا رول تھا۔چنانچہ وہ لکھتاہے کہ :
.ترجمہ : عیسائی کلیسا نے یورپ کی علمی سطح (ماحول) کو مزید گرانے میں مدد کی۔یورپ کی جاہلیت کے ماحول کا تذکرہ کرنے کے بعد کیمبل عیسائیت اور اسلام کاموازنہ بہ سلسلہ طب ان الفاظ میں کرتا ہے : ترجمہ : جن دنوں عیسائی دنیا تاریک دور سے گزر رہی تھی اس وقت اسلام کے عالموںنے علم الطب میںحیرت انگیز سرگرمی کا مظاہرہ شروع کر دیا۔جارج سارٹن کے خیالات کیمبل کے احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ وہ لکھتا ہے کہ : ترجمہ : اسلام سے قبل دواکے معنی جادو کے تھے نہ کہ اصل دوا کے۔
یورپ میں علاج ومعالجہ کے لئے کلیسیا کی مخالفت لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت کے پیش نظر ڈی بوائر نامی دانشور یہ لکھنے پرمجبورہوجاتاہے :مسلمانوں نے سائنس کو فرسودہ اعتقادات سے پاک کردیا۔ڈگلس گتھری (Douglas Guthrie) نے رومن اور بازنطین کے علاقوں میں طبعی طریقہ علاج کے خلاف عام رجحان کی بہت سی مثالیںدیں ہیںاورتحریر کیا ہے کہ اگر کوئی طبعی علاج کیابھی جاتا اوراس سے فائدہ ہوتا بھی تو تاثر یہ دیا جاتا کہ کامیاب علاج دعا کا نتیجہ ہے نہ کہ دوا کا۔
امراض کوتقدیر الٰہی سمجھ لینا اوراس کے لئے علاج کوغیر ضروری سمجھنا ایک ایسا طرز فکر تھا جورومن سلطنت میں عام تھا اور کہاجاتا ہے کہ یہی منفی طرز عمل اس کے زوال کا سبب بنا۔ بتایا جاتاہے کہ ایک زبردست ملیریاکی وبانے رومن سلطنت کی کافی آبادی کوموت سے ہمکنار کردیا۔ لاکھوں افراد دماغی اور جسمانی اعتبار سے مفلوج ہوگئے۔سلطنت کا ڈھانچہ گرنے لگا لیکن صورت حال پر قابو پانے کے لئے کوئی طبعی طریقہ نہ اپنایا گیا۔ کیونکہ ایسا کرنے کودین کی مخالفت سمجھی گئی۔ غرضیکہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو اس دور میں سارا عالم بالعموم دنیا اور عرب دنیا بالخصوص طب یا طبی علم سے بے خبر ہی نہ تھی بلکہ اس پر اعتقاد کو دین کی ضد تصور کرتی تھی۔ پانچویںصدی عیسوی قبل مسیح کا یونانی طبی علم تاریکیوں میںکھو چکا تھا۔ بقراط (Hippocratus) کا کوئی نام لیوا نہ تھا۔ ایسے دور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طب،دوا وعلاج، صحت وتندرستی، صفائی وستھرائی اور پاکی کے لئے انقلابی ہدایات عطا فرمائیں۔ امراض کے تدارک کے لئے طبعی علاج کواپنانے کا حکم صادر فرمایا۔ با معنی دعا کی اجازت دی لیکن بے معنی جھاڑ پھونک کی مخالفت فرمائی۔ دعاسے قبل مناسب دوا کاراستہ اپنانے کی تلقین کی۔ مرض کو اور مرض کے علاج دونوںکوتقدیر الٰہی سے تعبیر کیا۔
واضح رہے کہ حضور اکرم ؐ نے علاج ومعالجہ کے لئے جو ہدایات دیںان پر خود بنفس نفیس عمل کرکے امت کے لئے مثالیں قائم فرماد یں۔ مختلف مواقع پر ضروری طبی مشورے دئے۔ سنن ابو دائود میں ایک روایت بیان ہوئی ہے جس کی رو سے حضرت سعد بن وقاصؓ کو سینہ میں شدید دردکی شکایت ہوئی توحضور اکرمؐ ان کی عیادت کوتشریف لے گئے۔ وہاں پہنچ کر آپ نے حال معلوم کیا اورحضرت سعد کے سینہ پر اپنا مرمریں ہاتھ رکھا۔ حضرت سعد کا فرمانا ہے کہ نبی کریمؐ کے ہاتھ رکھنے سے ان کے سینے میں ٹھنڈک محسوس ہوئی گویاوہ ٹھیک ہوگئے۔ ظاہر ہے کہ ایک پیغمبر اپنی امت کے کسی بیمار فرد پر ہاتھ رکھ دے تو اس کا کیا سوال کہ وہ مریض فوراً صحت یاب نہ ہوجائے اور یہ معجزہ کسی بنی، کسی پیغمبر کے لئے بڑی بات بھی تو نہیں لیکن پیغمبراسلام اس موقع پر کسی معجزاتی علاج کو ضروری نہ سمجھتے ہوئے حضرت سعد کو طبعی علاج کا مشورہ دیتے ہیں۔ یہ مشورہ یقینا آئندہ نسلوں کے لئے پیغام ثابت ہوتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ چونکہ انہیں (سعدکو) دل کی تکلیف (دورہ) ہے اس لئے اچھے طبیب سے رجوع کیاجائے اور جس طبیب سے رجوع کرنے کا مشورہ مرحمت فرماتے ہیں وہ حارث بن کلدہ نامی شخص تھا جو ثقیف کا باشندہ تھا۔ اس نے طب کا فن ایران کے مشہور شہر شاپور میں حاصل کیا تھا اورعقیدہ کے اعتبار سے ایک یہودی تھا۔ ابن ابی حاتم نے نقل کیا ہے کہ اس نے اسلام قبول نہ کیا تھا۔ حضور اکرمؐ اس کے یہودی ہونے اور ماہر فن ہونے سے خوب واقف تھے۔ غرضیکہ حضرت سعد کا علاج حارث کے ہاتھوں ہوتا ہے۔ وہ صحت یاب ہوجاتے ہیں اور ایک عرصہ تک اسلامی افواج کی قیادت فرماتے ہیں۔ عراق وفارس کی مہم سر کرتے ہیں۔ ۔۔مندرجہ بالا احادیث کا اگر غور سے مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ یہ حضرت سعد کے لئے صرف ایک صلاح ہی نہیں بلکہ ایک پیغام ہے پوری امت کے لئے کہ جب بھی کوئی فرد کسی شدید مرض میں مبتلا ہو تواس پر لازم ہے کہ وہ اپنے قرب کے کسی ماہر طبیب سے رجوع کرے۔ طبیب کا صرف ماہر ہونا شرط ہے۔ اس کادین اور نسل اور قومیت کیا ہے اس کا کوئی واسطہ علاج سے نہیں۔بعض احادیث سے اس بات کا واضح طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے صحابی جب بھی آپ کے زبان مبارک سے کسی مریض کے لئے طبیب سے رجوع کرنے کی ہدایت سنتے تو قدرے تعجب میں پڑ جاتے اورکبھی دریافت بھی کرلیتے کہ ’’یہ آپ فرماتے ہیں‘‘ چنانچہ حضرت عمروبن دینار کی سند سے ایک حدیث اس طرح بیان ہوئی ہے : ترجمہ : نبی ؐ ایک مریض کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے آپ نے فرمایا کہ طبیب کو بلاکر انہیں دکھائو۔ ایک شخص نے عرض کیا۔ اے رسولؐ اللہ۔ آپ فرماتے ہیں۔ آپ نے فرمایا۔ ہاں (راوی حضرت عمروبن دینار۔ الجوزی طب نبوی)ارشادات نبویؐ بسلسلہ امراض وعلاج کا اصل مدعا ساری انسانیت کو ایسا پیغام دینا ہے جس کی رو سے انسان علاج ومعالجہ کواپنی بقا کے لئے ضروری سمجھے نیز یہ محسوس کرے کہ علاج کے لئے ترقی پسند رویہ اپنایا جائے۔ توہمات سے دور رہاجائے۔
طب نبوی کو دوا کی تاریخ میں ایک نیا موڑکہا جاسکتا ہے اور بقول ابن القیم ’’طبعی علاج کرانا سنت رسولؐ ہے‘‘۔ ایک عالم نے یہ بھی لکھا ہے کہ صرف دوا کرنا یا صرف دعا کرنا دونوں ہی طریقے حق وصواب سے ہٹے ہوئے ہیں اور کتاب وسنت کی تعلیم سے دور ہیں۔ نبی ? نے دونوں علاج ا یک ساتھ کرنے کا حکم فرمایا ہے۔‘‘
طب نبویؐ کے معنی اورمفہوم نہ تو طب کی کتاب کے ہیں اور نہ ہی اس سے مراد کسی طبی نسخہ سے ہے۔ لہٰذا اس کاموازنہ موجودہ طبی علم سے کرنا یا قدیم طبی کتابوں سے اس کامقابلہ کرنا ایک نا مناسب طریق کار ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ اسلامی انقلاب صرف ایک دینی انقلاب نہیں ہے بلکہ یہ دنیاوی انقلاب بھی ہے یا یوں کہا جائے کہ یہ ایک ہمہ جہتی انقلاب تھا جس کامقصد پورے نظام زندگی میں تبدیلی لانا تھا اور طب نبوی بھی اسی مقصد کاایک حصہ ہے۔ اس طرح طبی انقلاب کو اسلامی انقلاب کا ایک حصہ مانا جاسکتا ہے اوراس سچائی سے طب کی تاریخ پر نظر رکھنے والے لوگ بخوبی واقف ہیں۔
طب نبوی اصل میں نام ہے ایک پیغام کاجوطب کے سلسلہ میںذہنوں کو جھنجھوڑتا ہے۔طب نبوی نام ہے اس ہدایت کا جو ہمیں دوا اور دعا کی ضرورت سمجھانے کے لئے دی گئی۔ طب نبوی نام ہے ایک نصیحت کا ان لوگوں کے لئے جو علاج ومعالجہ میں روحانی علاج کے نام سے غلط روایات کا شکار رہتے ہیں۔ طب نبوی ایک فہمائش ہے ان حضرات کے لئے جو مرض کوتقدیر الٰہی سمجھ کر علاج ودوا کو گناہ سمجھتے ہیں۔ طب نبوی نام ہے اس حکم کا جو رسولؐ نے انسانوں کوطب کے میدان میں نئی راہیں تلاش کرنے کے لئے دیا۔
[email protected]
ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی: طب نبوی – ایک ہدایت،ایک پیغام
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS