نظرانداز نہ ہوجائیں بڑے سوالات

0

بھارت ڈوگرا

یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد سے ایسے مسائل مزید سنگین ہوگئے ہیں جن کی وجہ سے زمین کی حیات بخش صلاحیت بھی خطرے میں پڑجاتی ہے۔اس بحران کے چار پہلو ہیں۔ پہلا ماحولیاتی بحران ہے۔ ماحولیاتی بحران کے بھی بہت سے پہلو ہیں جیسے موسمیاتی تبدیلی، پانی کا بحران، فضائی و سمندری آلودگی، حیاتیاتی تنوع کا تیزی سے نقصان، فاسفورس اور نائٹروجن سائیکل میں تبدیلی، کئی خطرناک نئے کیمیکلز اور مصنوعات کی بغیر کسی مناسب معلومات کی تشہیر، اوزون کی پرت میں تبدیلی وغیر ہ۔
دوسرا پہلو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں، خاص طور پر جوہری، کیمیائی و حیاتیاتی اور روبوٹک ہتھیار۔ ان میں کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں پر پابندی عائد ہے۔روبوٹک ہتھیار ابھی نسبتاً ترقی کے ابتدائی مرحلے میں ہیں۔جوہری ہتھیاروں کے ساتھ یہ دیگر ہتھیار بھی زندگی کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔تیسرا پہلو بعض ٹیکنالوجیز، جیسے جینیاتی انجینئرنگ اور روبوٹس وغیرہ کی ایک حد سے زیادہ ترقی۔ چوتھا پہلو ہے- متعدی امراض کے برعکس نئے مسائل کا پیدا ہونا۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان بحرانوں سے ہمیں الگ الگ ہی نبردآزما ہونا ہوگا۔ کئی بحران ساتھ ساتھ بڑھ رہے ہیں اور عملی سطح پر ہمیں ان کے ملے جلے اثرات کو برداشت کرنا ہوگا۔ موسمیاتی تبدیلی کے بحران کے اثرات جن کا ہم سامنا کریں گے، وہ پانی کے بحران، سمندروں میں رونما ہورہی تبدیلیوں، حیاتیاتی تنوع کے نقصان وغیرہ سے وابستہ ہیں۔ جوہری ہتھیاروں کا استعمال ہوتا ہے تو اس کے بعد بڑے علاقہ میں جو تبدیلیاں رونما ہوں گی وہ مختلف ماحولیاتی بحران کے ساتھ مل کر زمین کی حیات بخش صلاحیت کو بھی متاثر کریں گی۔اسی طرح روبوٹک ٹیکنالوجی کے سول استعمال سے اس کے فوجی استعمال کے امکانات میں اضافہ ہوگا۔ زراعت و صحت میں جینیاتی انجینئرنگ کے استعمال سے نئے حیاتیاتی ہتھیاروں کے امکانات پیدا ہونے لگے ہیں۔ اس طرح یہ مختلف سنگین خطرات ایک دوسرے سے مختلف سطحوں پر وابستہ ہیں۔
اسٹاک ہوم ریزی لینس سینٹر کے سائنسدانوں کی تحقیق نے حالیہ دنوں میں کرۂ ارض کو درپیش سب سے بڑے بحرانوں کی جانب توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ تحقیق بہت مقبول ہوئی ہے۔ اس تحقیق میں زمین پر زندگی کے تحفظ کے لیے نو مخصوص باؤنڈری لائنز کی نشاندہی کی گئی ہے جن پر تجاوزات انسانی سرگرمیوں کو نہیں کرنا چاہیے۔ یہ تشویش کی بات ہے کہ ان نو میں سے تین حدود پر قبضہ ہونا شروع ہوچکا ہے۔ یہ تین حدود ہیں- موسمیاتی تبدیلی، حیاتیاتی تنوع کا نقصان اور گلوبل نائٹروجن سائیکل میں تبدیلی۔اس کے علاوہ چار دیگر حدود ہیں جن کی مستقبل قریب میں خلاف ورزی کا امکان ہے۔ یہ چار شعبے ہیں-گلوبل فاسفورس سائیکل، عالمی سطح پر پانی کا استعمال، سمندری تیزابیت اور عالمی سطح پر زمین کے استعمال میں تبدیلی۔
یہ مختلف خطرات کئی سطحوں پر ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں اور ایک حد کو پار کرنے(جسے اکثر ٹپنگ پوائنٹ کہا جارہا ہے) کی زمین کی زندگی کو برقرار رکھنے کی صلاحیت کو اتنا نقصان ہوسکتا ہے کہ اس کا ازالہ کرنا مشکل ہوگا۔
گزشتہ سات دہائیوں میں دنیا کی ایک بڑی بے ضابطگی یہ رہی ہے کہ بڑے تباہ کن ہتھیاروں کے اتنے ذخائر موجود ہیں جو تمام انسانوں کو اور زیادہ تر زندگی کی دیگر اقسام کو ایک بار نہیں کئی بار برباد کرنے کی تباہ کن صلاحیت رکھتے ہیں۔ جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے تشکیل شدہ کمیشن نے دسمبر2009میں جاری ہونے والی اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ جب تک کچھ ممالک کے پاس جوہری ہتھیار ہیں، کئی دوسرے ممالک بھی انہیں حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ حتیٰ کہ دہشت گرد تنظیمیں بھی جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اگرچہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے دیگر ہتھیاروں بالخصوص کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں پر پابندی کے معاہدے ہوچکے ہیں لیکن دنیا ان ہتھیاروں سے آزاد نہیں ہوئی ہے۔ جہاں تک دہشت گردوں کے ذریعہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے استعمال کا خطرہ تو یہ کیمیائی ہتھیاروں کے مقابلہ جوہری ہتھیاروں کے تناظر میں اور بھی زیادہ ہے۔
واضح ہو کہ زندگی کے وجود کو لاحق خطرات کو ناقابل برداشت حد تک بڑھنے دیا گیا ہے اور یہی اس وقت دنیا کا سب سے پیچیدہ مسئلہ ہے۔ اس بحران میں مبتلا دنیا میںاب اصل امید تو دنیا میں افرادی قوت کے ایسے اُبھار سے ہی رہ جاتی ہے جو تنگ تقسیموں سے اوپر اٹھ کر دنیا کو آنے والی نسلوں کی زندگیوں کے تحفظ کے انتہائی ضروری کام کے لیے وقف کرے۔
لہٰذا ایک بڑی ضرورت تو اس بات کی ہے کہ لوگ زندگی کو بحران میں ڈالنے والے خطرات کے تئیں کہیں زیادہ الرٹ اور سرگرم ہوں۔ جہاں بڑے پیمانہ پر تباہی مچانے والے ہتھیاروں جیسے خطرات کے تئیں الرٹ ہونا ضروری ہے، وہاں دوسری جانب یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ان کے استعمال کے امکانات میں کیوں اضافہ ہورہا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک خصوصاً زیادہ تر طاقتور ممالک کی کارروائیاں بنیادی طور پر اپنے ملک کی معاشی اور سیاسی طاقت اور تسلط کو بڑھانے کے پیش نظرہورہی ہیں۔اس صورت حال میں زمین پر زندگی کے تحفظ جیسا اہم ترین مقصد پیچھے رہ جاتا ہے۔ مختلف ممالک کی داخلی سیاست بھی اکثر چھوٹے موٹے مقاصد، مختلف قسم کی خود غرضی اور تنگ سیاسی اٹھاپٹخ، بنیاد پرست سرمایہ داری اور کرونی کیپٹلزم سے متاثر ہے۔ اس صورتحال میں قومی سطح پر بھی ایسی کوئی بڑی پہل نہیں ہوپارہی ہے جو دوسرے ممالک کو زمین کی حفاظت کی طرف بڑھنے کی ترغیب دے سکے۔
تنگ سیاسی مفادات کے علاوہ معاشی بالادستی اور معاشی ترقی مرکز میں ہے۔ اس تناظر میں کئی ایسے حالات ہیں جو کشیدگی کو بڑھانے والے ہیں۔ موجودہ مالیاتی اور کاروباری ادارے جیسے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن، ورلڈ بینک اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ خود ناانصافی اور عدم مساوات کے نظام کی علامت ہیں۔ اقوام متحدہ امریکہ جیسی بڑی طاقتوں کی جانب سے عالمی تجارت اور سرمایہ کاری میں ایسی تبدیلیاں لانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں جو بڑی طاقتوں کے تسلط اور ان کے بڑے اثاثوں میں مزید اضافہ کریں گی۔ پوری دنیا میں منظورشدہ کرنسی جیسے بڑے سوالات کا ابھی تک تسلی بخش حل نہیں نکل سکا ہے جبکہ کچھ اہم ممالک جیسے چین، روس اور ایران، امریکی ڈالر کی آفاقیت کو چیلنج کرسکتے ہیں اور اس کی وجہ سے تناؤ میں تیزی سے اضافہ ہوسکتا ہے۔
دوسری طرف اگر زمین کی حیات بخش صلاحیتوں کی حفاظت کرنی ہے تو اس کے لیے پہلے امن و امان پر مبنی نظم و نسق، بین الاقوامی سطح پر اور مختلف ممالک کی اندرونی سطح پر بہت ضروری ہے۔ جو بہت سے بنیادی کام بڑے پیمانے پر کرنے ضروری ہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ دنیا میں امن و امان، نظم و نسق اور مضبوط جمہوریت ہو۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب عوامی طاقت سے جمہوریت، امن و امان اور انصاف- مساوات کے حق میں ایک بڑا اُبھار آئے۔
جمہوریت مضبوط نہیں ہوگی تو زندگی کو بحران میں ڈالنے والے حالات کے دور میں خود غرض عناصر طرح طرح کے عجیب و غریب حل سامنے لائیں گے جس سے مسائل میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ انصاف اور مساوات کی سمت میں کوششیں نہ کی گئیں تو عام آدمی کے تعاون سے کوئی بڑا اُبھار نہیں آسکے گا۔ اس کے لیے معاشی مساوات کے ساتھ ساتھ سماجی مساوات جیسے صنف، ذات، مذہب، نسل، رنگ وغیرہ کی بنیاد پر مساوات ضروری ہے۔ تب ہی زمین کی حیات بخش صلاحیتوں کے تحفظ کے لیے اتحاد و اتفاق سے کام تسلسل سے ہوسکے گا۔ لہٰذا زمین کے تحفظ کے لیے جو بھی بہت جامع پروگرام بننا ہے وہ امن وامان، انصاف اور جمہوریت کے دائرے میں ہی بننا ہے۔ یہ پہلے سے ہی وسیع پیمانے پر تسلیم شدہ مقاصد ہیں۔ نئی اور بڑی ضرورتوں کے لیے اب انہیں پہلے سے مزید مضبوطی سے، نئی راہ دکھاتے ہوئے آگے لے جانا ہے۔
لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ انصاف، مساوات، امن و امان اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے جو بھی تنظیمیںاور عوامی تحریکیں ہیں، وہ باہمی اتحاد و یکجہتی کو بڑھائیں اور ساتھ میں زمین کی حیات بخش طاقت کے تحفظ سے جڑنے کے لیے اپنے کام میں ضروری توسیع بھی کریں۔ زمین کی حفاظت کے وسیع ایشوز کو لوگوں کے دکھ-درد کم کرنے کے مسائل سے جوڑ کر ان کے لیے وسیع پیمانہ پر حمایت حاصل کی جاسکتی ہے اور ایسی کوششوں کے دوران عوام کی زمین کی حیات بخش صلاحیتوں سے متعلق سمجھ میں بھی اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS