زین شمسی
یو پی ایس سی جہاد کام آگیا، نئے چیئر مین نے کام کر دیا یا قوم کے بچے نے کام خراب کردیا، ایسے کئی سوال یوپی ایس سی کا رزلٹ شائع ہونے کے بعد ذہن میں آنا لازمی تھے، اور ایسے سوال ضروری بھی ہیں کیونکہ منجدھار سے کشتی نکالنی ہو تو تعلیم ہی ناخدا کا کردار ادا کر سکتی ہے۔ 3فیصد سے کم کی کامیابی نے دکھی بھی کیا اور خوفزدہ بھی۔ اتنی کم تعداد میں مسلم بچوں کی کامیابی دیکھ کر کئی لوگوں نے یوپی ایس سی کے کریڈیبلٹی پر ہی سوال کھڑے دیے۔ کئی لوگوں نے اس قلیل پرفارمنس کے تار اس ٹی وی ڈبیٹ سے جوڑ دیے جس میں صاف صاف کہا گیا تھا کہ مسلمان یو پی ایس سی کرنے کے بعد دیش کا نقصان کر سکتے ہیں، گویا یہ ایک ایسا زہر بھرا الزام تھا جس کا سامنا کم از کم یو پی ایس سی جیسی معتبر تنظیم نے کبھی نہیں کیا ہوگا، لیکن چونکہ آج کا دور سوائے مسلم نفرت کے اور کچھ نہیں ہے سو اس بار جب مسلم بچوں نے اپنی پرفارمنس نہیں دکھائی تو قوم کے ذہن میں مذکورہ بیانات گونجنے لگے۔ ویسے اتنی کم تعداد میں مسلمانوں کی کامیابی کے پس پشت ان کا ذہنی انتشار بھی ہو سکتا ہے، جو انہیں آج کل ہر جگہ سننے اور سہنے کو مل رہا ہے۔ جب سرکار کے بیشتر ادارے تعصب کے شکنجے میں ہیں تو ایجوکیشن کا شعبہ کیسے پاک و صاف رہ سکتا ہے۔ میں یہ تو کبھی نہیں کہوں گا کہ یو پی ایس سی نے کوئی جانبداری برتی ہوگی، مگر یہ تو ضرور کہوں گا کہ کہیں نہ کہیں کوئی سازش تو ضرور کارفرما ہے۔ گزشتہ 10برسوں میں جس طرح ہندوستان کی سیاست اور ہندوستان کا سماج زہریلی کروٹ لے رہا ہے، اس میں یہ بات تسلیم کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ مسلمانوں کے نام اب حلق سے نہیں اتر رہے ہیں، خواہ میدان کوئی سا بھی ہو۔
مضمون لکھنے سے قبل بی بی سی کے ایک صحافی کا فون آیا کہ علیگڑھ کے کسی کالج میں کوئی پروفیسر نماز پڑھ رہے تھے، ان کا ویڈیو وائر ل ہوا اور نتیجہ میں انہیں چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے اور انکوائری جاری ہے، اس واقعہ پر آپ کیا کہیں گے؟ میں نے کہا اس واقعہ پر کہا کیا جا سکتا ہے؟ اس طرح کی عام باتوں کو اب واقعہ کہا جانے لگا ہے، پہلے تو یہ فخر کی بات ہوا کرتی تھی۔ اسکول، کالج ہو، یا ٹرین، بس پلیٹ فارم ہو، آفس ہو یا کوئی کھیل کا میدان مسلمان کہیں بھی کسی جگہ نماز پڑھتا نظر آجاتا تھا، نہ صرف پڑھتا نظر آجاتا تھا بلکہ ہندو بھائی اس عمل میں ان کی مدد کرتے نظر آتے تھے۔اس وقت نہ کسی ہندو کو یہ لگتا تھا کہ ان کی نماز ہمیں اپوتر کر دے گی اور نہ ان کے بھگوان کبھی اس بات پر ناراض ہوتے تھے۔ یہ تو وقت ایسا ہے کہ میدان یاکالج تو دور اب تو مسجدوں کی اذانیں بھی ان کے کان میں خراش پیدا کرنے لگی ہیں۔ کالج، اسکول یاکسی ایجوکیشنل انسٹی ٹیوٹ میں مذہبی عمل کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگ اسی جگہ سرسوتی وندنا بھی کریں گے اور پوجا پاٹھ بھی کریں گے، اس پر عمل کرنے والوں کو چھٹی پر نہیں بھیجا جائے گا اور نہ ہی انتظامیہ یا عدالت اس کا خود نوٹس لے گی، کیونکہ انہیں بھی پتہ ہے کہ کرنا کیا ہے۔
جب سیاست نے سماج کو ایسے رخ پر ڈھکیل دیا ہے تو اس کا علاج صرف یہ ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کے ترجمان یا تو پردھان منتری کے دوار پر اپیل کریں یا عدالت کے دروازے پر قطاربند ہوں۔ اس کے علاوہ اور کوئی چارہ تو ہے نہیں۔ آپ اپنا مذہب نہیں چھوڑ سکتے اور وہ آپ کے مذہب پر سیاست بچھائے بیٹھے ہیں، ایسے میں اور کیا کیا جاسکتا ہے۔ ایک دو دن پہلے ایک تصویر پر نظر گئی۔ مولانا ارشد مدنی اور مولانا محمود مدنی ساتھ ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ اس تصویر پر مسلمان جشن منا رہے تھے کہ دونوں ایک ہو گئے، یہ وقت کی اہم ضرورت ہے اور میں سوچ رہا تھا کہ مسلمانوں کو خوش ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔ یہ دونوں حضرات ایک ساتھ بیٹھ گئے تو خوشی کی کیا بات ہے۔ خوشی کی بات تو تب ہو جب یہ دونوں اہل حدیث کے سربراہ کے ساتھ بیٹھیں، پھر یہ تینوں بریلویوں کے علما کے ساتھ بیٹھیں، پھر یہ چاروں اہل تشیع کے اماموں کے ساتھ بیٹھیں اور تب یہ سوچیں کہ کیا کرنا ہے اور ہاں یہ لوگ کچھ دانشوروں کو بھی مسلمان سمجھ کر اپنے بازو میں بٹھائیں اور پوچھیں آپ کی کیا رائے ہے۔ تب ہی مسلمانوں کے کسی بھی ترجمان کی کوئی اہمیت ہوگی اور حکومت بھی اس کی بات کو سنجیدگی سے لے گی، اور آپ کو اور ہم کو اور سب کو پتہ ہے کہ ایسا کچھ ہونے والا نہیں ہے تو پھر جو ہورہا ہے اسے برداشت کیجیے، اتنا برداشت کیجیے کہ ایسا واقعہ آپ کے ساتھ نہ ہوجائے۔
ویسے ملک کے دقاق صحافیوں کے مضامین اخبارات میں پڑھتا رہتا ہوں۔ ان ایوراڈ یافتگان صحافیوں سے درخواست ہے کہ وہ آزاد صحافی کا کردار نبھاتے ہوئے کم از کم قوم کو نئی راہ دکھائیں، مسائل کا حل تلاش کریں،علما اور لیڈروں کے ساتھ فوٹو کھنچوا کر، نام نہاد تنظیموں سے چھوٹے موٹے ایوارڈ لے کر خود کو خود ساختہ صحافی کہلانے میں اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ ایوارڈ تو ایسے بھی مل جائے گا اگر آپ کاریکٹ ہے تو،اس کے لیے بڑے بڑے اخبارات کے صفحے خراب کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ فرسودہ طرز نگارش اور روایتی مضامین لکھ کر قوم کا وقت برباد کرنے سے اچھا ہے کہ اتحاد کے لیے کوشاں رہیں۔صاف اور واضح الفاظ میں علما سے پوچھیں، بے باک ہوکر سیاسی رہنما ئوںسے سوال کریں، دانشوران سے بے لاگ تبصرہ لیں۔ تین چار شعبوں سے منسلک لوگوں کو ایک جگہ بٹھانے کی کوشش کریں تاکہ یہ محسوس ہو کہ 200سالہ اخباری تاریخ کے جشن میں آپ نے فوٹو ہی نہیں کھنچوایا، کچھ کام بھی کیا ہے۔ ابھی صرف صحافی ہی ہیں جو مسلمانوں کی زبوں حالی کا کچا چٹھا سامنے لا سکتے ہیں۔کیجیے، کچھ تو کیجیے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]