نہ دیکھ رشک سے تہذیب کی نمائش کو

0

صبا فردوس بنت ناظیر چاؤس
اللہ تعالیٰ نے انسان کو تمام مخلوق پر شرف عطا فرمایا ہے۔ انسان کو اللہ نے عقل وشعور اور قوتِ فیصلہ عطا کی ہے۔ انسان، زمین پر اللہ کا خلیفہ ہے۔ انسان کوجو صفات دوسری مخلوقات سے ممتاز وممیز کرتی ہیں، ان میں ایک نمایاں صفت اس کی شرم وحیا کی حِسّ اور جذبۂ عفّت ہے۔ انسان کا لباس اسے موسم کی شدت سے بھی محفوظ رکھتا ہے اور اسے زیبائش وخوب صورتی بھی فراہم کرتا ہے لیکن سب سے اہم مقصد جو لباس سے پورا ہوتا ہے، وہ ستر کا ڈھانکنا اور اپنی حیاداری کا پاس ہے۔ اسلام میں حیا کی بے پناہ اہمیت ہے۔نبی کریمؐ نے حیا کو ایمان کا ایک شعبہ قرار دیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس شخص میں شرم وحیا نہیں، گویا اس میں ایمان نہیں۔ بے شرم انسان، ہرذلت وپستی میں گرنے کے لیے ہروقت آمادہ وتیار رہتا ہے جبکہ باشرم وحیادار انسان اپنی اس صفت کی وجہ سے تمام مشکلات کے باوجود اپنے شرفِ انسانیت کی حفاظت کرتا ہے۔ نبی اکرم ؐکا اخلاق وکردار ہرپیمانے سے منفرد، بے مثال اور قابلِ تقلید ہے۔ آپؐ میں تمام فضائلِ حسنہ بدرجہ اتم واعلیٰ موجود تھے اور شرم وحیا کی صفت بھی اتنی نمایاں تھی کہ صحابہ کرامؓ آپؐ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ آپؐ اعلیٰ خاندان کی پردہ نشین کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ شرمیلے تھے۔ (بحوالہ صحیح مسلم، حدیث2320)
ہمارا پیارا اسلام مرد و عورت دونوں کو ستر پوشی کا حکم دیتا ہے، اور خواتین کو حجاب و پردہ کی تاکید و تلقین کرتا ہے۔ اسلام نے جہاں مردوں کو نگاہیں جھکا کر چلنے اور شرم گاہوں کی حفاظت کا حکم دیا وہیں عورتوں کو بھی نگاہیں نیچی، حجاب و پردہ کی پابندی اور اپنی پاک دامنی و پارسائی کی حفاظت و صیانت کا حکم صادر فرمایا کہ اسی میں ان کی عزت و عفت کی بقا و تحفّظ ہے۔سورہ نُور میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۔۔
اے نبیؐ ، مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیںاور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ اُن کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سے باخبر رہتا ہے۔اور اے نبیؐ ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں جھکا کر رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنا بناوٴ سنگھار نہ دکھائیں بجز اُس کے جو خود ظاہر ہو جائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں۔ (القران)
پردہ عورت کی عزت کو محفوظ رکھتا ہے، پردہ اللّٰہ رب العالمین کی طرف سے عورت کے لیے اُس کی حفاظت کا قلعہ ہے۔ ہوس پرست انسانوں کی حریص نگاہوں سے بچاتا ہے، عورت کی عزت و عفت کو تقدّس و پارسائی عطا کرتا ہے، بد نگاہی سے بچانے کے لیے دیوار آہنی ثابت ہوتا ہے اور یقیناً پردہ عورت کے حسن کو مزید نکھار بخشتا ہے۔بلا شبہ حیا کی کشش حسن سے زیادہ ہوتی ہے۔لیکن افسوس صد افسوس آج ہمارا معاشرہ مختلف قسم کی برائیوں کی دلدل میں غرق ہے. انہی میں سے ایک بے پردگی کا بڑھتا ہوا رجحان بھی ہے۔ مغربی تہذیب کی عورتیں پردہ کو معیوب سمجھتی ہیں ۔مغرب کی بے پردہ تہذیب میں پھنسی ہوئی خواتین پردے کو اپنے لیے گراں سمجھتی ہیں۔ لیکن ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ وہ بھی عورتیں تھیں جنہوں نے جب پردے کے احکامات سنے تو اپنے جسم کی چادریں پھاڑ کر اپنی اوڑھنیاں بنا لیں۔ یہ اتنا فرق کیوں اور کیسے۔۔۔!!! دورِِ اول کی عورت اپنے آپ کو روحانی ترقی کی بلندیوں پر پہنچانے کے لیے کوشاں رہتی تھی، جبکہ آج کی عورت نام نہاد ترقی کے جھانسے میں آکر بے پردہ ہورہی ہے۔ یہ ترقی نہیں تنزلی ہے۔ عورت کی زینت اور زیور اس کی شرم و حیا ہے۔ اور اس زیور کی حفاظت ایمان سے مشروط ہے۔ جیسا کہ نبی کریم ؐ کا فرمان ہے کہ:’حیا ایمان سے ہے‘۔
جو اپنے ایمان کی حفاظت نہیں کرسکتا وہ حیا کی حفاظت کیونکر کرے گا! ایک عورت اُس وقت تک محفوظ ہے جب تک وہ حجاب میں ہے۔ آج شیطان کا سب پہلا ہتھکنڈا یہی ہے کہ عورت کو برہنہ کردے۔ لیکن اگر برتن کھلا ہو تو مکھیاں اس کو آلودہ کردیتی ہیں، اور ڈھکا ہوا برتن اس گندگی سے محفوظ رہتا ہے۔
دوسری چیز جو مغربی طاقتوں کا ہدف ہے، وہ ہمارا عائلی نظام ہے، کیونکہ یہ واحد چیز ہے جو مسلم معاشرے کی اساس اور بقا ہے، جو اپنی خالص اور اصل صورت میں صرف مشرق ہی میں موجود ہے۔ اس کام کے لیے بھی عورت کو حجاب سے باہر لانا ضروری ہے کیونکہ جب تک مشرقی عورت کو بے پردہ نہیں کیا جائے گا اس کے عائلی نظام پر ضرب نہیں لگائی جا سکے گی۔ آج مشرقی عورت کے لیے مغرب کا پُرفریب نعرہ یہ ہے کہ پردہ ایک قید ہے اور آزادی تمھارا حق ہے جو حجاب کی موجودگی میں تمھیں حاصل نہیں ہوسکتی۔ جتنی آزادی اسلام نے عورت کو دی ہے کسی اور مذہب نے نہیں دی۔ ماں، بہن اور بیٹی کی صورت میں تکریم سے لے کر وراثت ، معیشت اور معاشرت میں بھرپور حصہ۔۔۔ جبکہ مغرب میں عورت کا درجہ کیا ہے۔۔۔؟ صرف اور صرف گرل فرینڈ۔ اس لیے مظلوم تو مغربی عورت ہے۔۔۔ قید میں تو مغرب کی عورت ہے۔ مشرقی عورت تو حجاب میں بھی آزاد اور خودمختار ہے۔ اپنا الگ مقام، تشخص اور وقار رکھتی ہے۔ آج مشرقی عورت کو اسی پیغام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔آج ہم شیطان کے حملوں کے سامنے ترنوالہ بن چکے ہیں۔ ہمیں اپنے دین وایمان، ملی تشخص اور دینی روح کو محفوظ کرنے کے لیے شرم وحیا کا کلچر عام کرنا ہوگا۔ہم اس نبیؐ کی امت ہیں، جس نے حیا کو ایمان کا شعبہ قرار دیا اور خود زندگی بھر اس پر کاربندرہے ہمارے معاشرے میں خیروبھلائی اور ہماری زندگیوں میں حسن وخوبی اسی صورت میں پیدا ہوسکتی ہے کہ ہم اپنی ذات، گھر، اداروں، گلی محلوں، تقریبات اور ملبوسات، ہرچیز کو قرآن وسنت کی تعلیمات کے تابع کردیں۔ اس کام کا آغاز اگر ہم اپنی ذات اور گھر سے کردیں تو دیکھتے ہی دیکھتے اس کے اثرات پھیلنے لگیں گے اور یوں پورا معاشرہ معطّر ہوجائے گا۔

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS