نایاب ڈائنوسور کی باقیات دریافت

0

ڈائنوسور کی انتہائی نایاب قسم اور ٹرائنوسورس ریکس سے بھی بڑے سپائنوسورس کے کچھ ڈھانچے برطانوی علاقہ آئزل آف وائٹ سے دریافت ہوئے ہیں۔ مگرمچھ سے ملتے جلتے ڈھانچے جیسے لیکن حجم میں انتہائی بڑے سپائنوسورس ڈائنوسورس میں دلچسپی لینے والوں کی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ یہ دیکھنے میں انتہائی اچھوتے ہوتے ہیں اور جراسک پارک فلم میں دکھائے جانے والے خطرناک ٹرائنوسورس سے بھی کئی گنا بڑے اور طاقت ور ہوتے ہیں۔ تاہم مقبولیت کے باوجود سائنسدانوں کو ان سے متعلق انتہائی کم معلومات حاصل رہی ہیں اور اس کی وجہ ان کے ڈھانچوں کا نہ ملنا ہے۔ سائنسدان سپائنوسورس کے ڈھانچوں کے ملنے کو ’تقریباً ناممکن‘ قرار دیتے رہے ہیں۔ آج تک سپائنوسورس کے صرف سات ڈھانچے دریافت کیے گئے تھے، جس میں سے سب سے زیادہ بہتر حالت میں ملنے والا ڈھانچہ مراکش کے مشرقی حصے سے ملا تھا۔ اسی تناظر میں سائنسدانوں کو امید ہے کہ نئے ملنے والے ڈھانچوں سے اس عظیم الجسہ ڈائنوسور سے متعلق معلومات میں اضافہ ہو گا۔ یہ نئے ڈھانچے انگلینڈ کے علاقے آئزل آف وائٹ کے جنوب مغربی ساحلی علاقے سے ملے ہیں۔ سائنسی جریدے پیئر جے لائف اینڈ انوائرمنٹ میں شائع ہونے والی مطالعاتی رپورٹ کے مطابق ملنے والے یہ نئے ڈھانچے 125 ملین برس پرانے ہیں۔ برطانوی یونیورسٹی آف ساؤتھ ایمپٹن سے وابستہ اور اس مطالعاتی ٹیم کے قائد کرس بیکر کے مطابق، یہ بہت بڑا جانور تھا۔ دس میٹر سے بھی زیادہ قامت کا۔ ہم نے اس کی جہتیں ناپیں ہیں اور ممکن ہے کہ یورپ میں دریافت ہونے والے یہ آج تک کا سب سے بڑا شکاری جانور ہو۔ محققین کے مطابق خیال یہی ہے کہ سپائنوسورس کا اصل میں تعلق مغربی یورپ سے تھا، یہیں سے یہ کہی اسپیشیز میں تقسیم ہوئے اور ہجرت کرتے چلے گئے۔ اسی گروپ سے تعلق رکھنے والے جانور جنوبی انگلینڈ کے علاوہ برازیل، نائجر، تھائی لینڈ اور لاؤس میں بھی ملے ہیں۔ ایک یونانی جنگی بحری جہاز کی باقیات غرق شدہ ہیرکلیون شہر میں سے ملی ہیں۔ غرق شدہ شہر مصر کے خلیج ابْو قیر کی تہہ میں ہے۔ اس شہر کو تھونس بھی کہا جاتا تھا۔ اس کی غرقابی زلزلوں اور سونامی کا نتیجہ تھی۔ یہ شہر دوسری صدی قبل از مسیح کے آخر میں ڈوبا تھا۔ بحری جہاز آمون کے ٹیمپل کے قریب لنگر انداز تھا اور ڈوبنے پر شہر کی گرتی عمارتوں کے ملبے تلے دب گیا تھا۔ پہلی بار سن 1912 میں ایک آسٹریلوی محقق رچرڈ مارکفراف نے مصری ساھلی علاقے سے سپائنوسورس کی باقیات دریافت کیں۔ جرمن محقق ایرنسٹ شٹرومر فان رائشن باخ نے اسے سپائنوسورس ایگپٹیاکْس کا نام دیا۔ بدقسمتی سے مصر سے جرمن میوزم میونخ منتقل کرتے ہوئے ان ڈھانچوں کو شدید نقصان پہنچا جب کہ 1944 میں جرمن شہر ڈؤسلڈورف کے آلٹے اکیڈمی میوزیم پر ہوئے ایک فضائی حملے میں باقی ماندہ ہڈیاں بھی کھو گئیں۔ باقی بچ جانے والی باقیات کو سامنے رکھتے ہوئے سائنسدانوں نے سپائنوسورس کی جسامت سے متعلق اندازے لگائے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق یہ جانور پندرہ سے اٹھارہ میٹر لمبا اور چھ سے نو ٹن وزنی ہوا کرتا تھا۔ اس کی کھوپڑی ہی پونے دو میٹر لمبی ہے، جس سے طے ہوتا ہے کہ شکار کرنے والے جانوروں میں سپائنوسورس ممکنہ طور پر سب سے بڑے جانور تھے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS