ہمارے مزاج کا حصہ بن چکی ہے گندگی: محمد حنیف خان

0

محمد حنیف خان

معاشرے میں صفائی ستھرائی لانے کے لیے حکومت ’’سوچھ بھارت مشن ‘‘ جیسا منصوبہ چلا رہی ہے تاکہ ملک کو صاف ستھرا بنا کر عوام کی زندگی کو خوبصورت اور بیماریوں سے پاک بنایا جاسکے۔ہندوستان کے عوام کی زندگی میں انقلاب لانے کے لیے سب سے پہلے موہن داس کرم چند گاندھی نے صفائی مہم شروع کی تھی کیونکہ انہوں نے دیکھاتھا کہ ہندوستان میں متعدی بیماریاں کس طرح پھیل رہی ہیں اور غریب عوام ان کا شکار ہوکر لقمۂ اجل بن رہے ہیں۔اگر انسانی زندگی میں صفائی ستھرائی آجائے تو وہ بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ گاندھی جی کی یہ مہم اپنے پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکی تھی،بعد میں کانگریس کی حکومت میں ’’نرمل بھارت ‘‘کی مہم شروع کی گئی جسے موجودہ حکومت نے 2014میں ’’سوچھ بھارت مشن ‘‘ میں تبدیل کردیا۔ان کا مقصد بھی یہی ہے کہ عوام نظافت پسند بن کر زندگی کو خوشگوار بنائیں مگر ہماری اجتماعی نفسیات آج تک گندگی پسند ہے۔ جس کی بہترین مثال عوامی مقامات مثلاً بس اڈے، ریلوے اسٹیشن،سرکاری اسپتال وغیرہ ہیں۔
تہذیب و تمدن کی پہلی ظاہری سیڑھی نظافت ہے،کوئی فرد خواہ کتنا بھی خود کو متمدن اور تہذیب یافتہ کہے، اگر وہ صاف صفائی کا خیال نہیں رکھتا ہے تو اسے تہذیب سے آشنا نہیں تصور کیا جاسکتا۔ انسان اپنے طرز حیات اور زندگی کے سلیقے سے ہی محترم ٹھہراہے،اس کے احترام میں اس کے شعورکا سب سے زیادہ دخل ہوتا ہے۔یہ شعور ہی ہے جو بتاتا ہے کہ انسان کو کیسے رہنا چاہیے۔اگر فرد /اجتماع شعور سے تہی دست ہوجائے تو اس کا احترام جاتا رہتا ہے، اس لیے انسان کی ارتقاء اور اس کی شہر کاری میں اس کے شعور کو سب سے اہم تصور کیا جاتا ہے جس کا سب سے پہلا مظاہرہ رہن سہن اور بود و باش ہے،جس میں صفائی ستھرائی کو اولیت حاصل ہے۔انسانی ارتقاء کا یہ عالم ہے کہ آج زمین پر رہنے والے انسان کے قدموں کے نیچے آسمان ہے لیکن بے شعوری کا عالم یہ ہے کہ ہم صفائی سے دور ہیں اورگندگی آج بھی ہمارے مزاج کا اہم حصہ بنی ہوئی ہے۔
صفائی ستھرائی یا گندگی ان دونوں کے مثبت و منفی اثرات ہماری زندگی پر مرتب ہوتے ہیں،اس میں کوئی شک نہیںکہ صفائی سے جہاں طبیعت میں انشراح اور شگفتگی آتی ہے، وہیں گندگی کبیدہ خاطر اور بوجھل پن کا سبب بنتی ہے،اس کے اثرات ہماری صحت پر بھی پڑتے ہیں،صاف ستھری جگہ اورماحول میں رہنے والے افراد بیمار کم ہوتے ہیں جبکہ گندی بستیوں میں رہنے والے لوگ طرح طرح کے امراض کی زد میں رہتے ہیں۔اسی لیے اس بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ گندگی کے بجائے صفائی ستھرائی رہے مگر چونکہ اجتماعی سطح پر ہمارا مزاج گندگی کی طرف مائل ہے، اس لیے ہمیں اس میں کامیابی نہیں مل رہی ہے اور آج بھی انسان کیڑے مکوڑوں کی طرح زندگی گزارنے اور گندگی سے پیدا ہونے والے امراض کی زد میں آکر مرنے پر مجبور ہے۔ایسا نہیں ہے کہ گندی بستیوں میں رہنے واے افراد ہی گندگی پھیلاتے ہوں، عالیشان مکانات اور خوبصورت ڈرائنگ روم میں رہنے اور اٹھنے بیٹھنے والے افراد بھی خوب گندگی پھیلاتے ہیں،جنہیں راہ چلتے دیکھا جا سکتا ہے،جو ان کی بے شعوری کو واضح کرتا ہے۔
حکومت صاف صفائی کے لیے ایک خطیر رقم خرچ کرتی ہے،اس کے باوجود چھوٹے بڑے ہر شہر میں گندگی کا ڈھیر نظر آتا ہے،سڑکوں کے کنارے کچرے کے ڈھیر سے اٹھنے والا تعفن آس پاس کی بستیوں کے ساتھ ہی راہ گیروں کو بھی اپنی زد میں لے کر طرح طرح کی بیماریوں کا شکار کر رہا ہے۔ حکومت نے 2019میں ہی ہندوستان کو کھلے میں رفع حاجت سے پاک(او ڈی ایف)ملک کا اعلان کردیا تھا مگر یہ جلدبازی میں کیا گیا اعلان تھا کیونکہ ابھی تک خاص طور پر دیہی علاقوں میں ہر گھر کو اجابت خانے میسر نہیں ہیں، شہروں میں اگر اجابت خانے ہیں تو نالی اور نالوں سے بہنے والے پانی کی نکاسی کا درست نظام نہیں ہے جس کی وجہ سے ذرا سی بارش اپنے ساتھ گندگی کا طوفان لے کر آجاتی ہے اور شہر کی سڑکوں پر نالیوں کی گندگی بہنے لگتی ہے۔اس کے باوجود حکومت کے مطابق یہ مشن اپنے مقاصد میں کامیاب ہے لیکن زمینی سطح پر اس کے وہ مقاصد آج تک حاصل نہ ہوسکے جو ہونے چاہیے تھے۔
کبھی اس بات پر غور نہیں کیا گیا کہ آخر اتنی اہم مہم کیسے ناکام ہوگئی،جوایک بڑے منصوبے اور خاکے کے ساتھ شروع کی گئی تھے،جس مشن کے لیے خود وزیراعظم نریندر مودی اور کابینی وزرا سڑکوں پر جھاڑو لگاتے ہوئے نظر آئے۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ رہی کہ زمینی سطح پر کام کرنے سے زیادہ اس کی تشہیر پر زور دیا گیا۔اس مہم کا خوبصورت پہلو یہ تھا کہ سماج میں صفائی ستھرائی سے متعلق بیداری کے لیے ایک منظم مہم شروع ہوئی تھی لیکن بہت جلد یہ مشن پی آر/تشہیری مہم میںبدل گیا۔اہم مواقع پر جوتقریبات ہوتی ہیں، وہاں صفائی کے لیے لوگوں کو جمع کیا جاتا ہے خواہ سرکاری عملہ ہو یا غیر سرکاری دونوں جس طرح سے صفائی کا ڈرامہ کرتے ہیں اور اس کی تصویریں کھینچ کر جس طرح سے اخبارات میں شائع اور ٹیلی ویژن پر نشر کی جاتی ہیں، ایک حقیقت پسند قوم کے لیے المیہ ہونا چاہیے مگر وہ افراد جنہوں نے یہ مشن شروع کیا اور وہ جو اس مہم کو کامیاب کرنے میں لگائے گئے ہیں، دونوں اس المیے کا سبب بن رہے ہیں کیونکہ وہی کچھ کرنے کے بجائے پی آر کے لیے بس تصویریں کھنچواتے نظر آتے ہیں۔اکیسویں صدی کا ہندوستان اب تصویریں یا ویڈیو دیکھ کر یہ تسلیم نہیں کررہا کہ جو لوگ جھاڑو لگاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں وہ واقعی جھاڑو لگا کر صفائی کر رہے ہیں بلکہ ان کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو بس بیوقوف بنا رہے ہیں۔یہ سچ ہے کہ اس طرح سے جھاڑو لگانے سے صدیوں میں بھی ہندوستان کچرے اور گندگی سے پاک صاف نہیں ہو سکتا۔
حکومت اگر واقعی صاف صفائی کو ہماری اجتماعی زندگی کا حصہ بنانا چاہتی ہے تو زمینی سطح پر جو کام ہو رہے ہیں، ان میں غبن کو کسی صورت راہ نہیں دینا چاہیے،کیونکہ یہ بات مسلم الثبوت ہے کہ دیہی علاقوں میں اجابت خانوں کے لیے جو رقم دی جاتی ہے، اس میں سے ایک حصہ بطور رشوت غریب عوام سے وصول لیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اجابت خانے تو بن گئے مگر وہ قابل استعمال نہیں ہوتے۔شہروں میںسیورلائن کا پائپ آج بھی نالیوں میں پھٹا پڑا ہے جس میں نالی کا گندہ پانی شامل ہوکر لوگوں کے گھروں تک پہنچتا ہے اور لوگ اسے پینے پر مجبور ہیں۔
نظافت کو اگر انسان زندگی کا لازمہ بنا لے تو یقینی طور پر اس کے بہت ثمرات اس کو ملیں گے جس میں سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوگا کہ اس کو ہزاروں بیماریوں سے بغیر کسی علاج و معالجہ کے آزادی مل جائے گی لیکن اس کے لیے انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر خلوص کے ساتھ محنت کرنی ہوگی۔ سیاست دانوں اور ان سماجی تنظیموں کی طرح کام پر نہیں جن کو اخبار میں خبر اور ٹی وی اسکرین پر خبر یا اسکرول کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ پیسہ اور عہدہ ملنے میں آسانی ہو۔ اس طرح کی مہم سے کبھی اصل مقاصد حاصل نہیں ہوسکتے ہیں، اس لیے حکومت کو تصویر کے بجائے حقیقت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
مسلمانوں کو اس مہم میں شدت کے ساتھ عملی سطح پر شریک ہونا چاہیے کہ نبی کریمؐ نے پاکی/صفائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے۔ہم اس مہم کو اسلامی تعلیمات کے عام کرنے کا ذریعہ بھی بناسکتے ہیں۔اس سے عوام کا ہی بھلا ہوگا اور حکومت کے ایک اچھے کام میں تعاون بھی۔
مذہب اسلام نے بہت پہلے اس جانب توجہ مبذول کرادی تھی جس پر آج زر خطیر صرف کیا جا رہا ہے۔کم از کم اگر مسلمان اپنی مذہبی تعلیمات سے واقف ہوتے یا اس پر عمل کر رہے ہوتے تو گندگی کا یہ عالم نہیں ہوتا،افسو س تو اس بات کا ہے کہ شہروں میں ان مسلمانوں کے محلے سب سے زیادہ گندے تصور کیے جاتے ہیںاور زمینی سطح پر ہیں بھی جن کے نبی کریمؐ نے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا تھا۔دور جدید نے انسان کو منطقی بنادیا ہے جو اچھی بات ہے، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ صفائی ستھرائی سے متعلق مذہبی تعلیمات کو سائنسی نقطہ نظر سے دیکھا جائے اور اسی کے مطابق اس کی تشریح کی جائے اور عوام کے ذہنوں میں یہ بات بٹھائی جائے کہ صفائی ستھرائی انسانی زندگی کو خوبصورت اور پرسکون بنانے کا سب سے بہترین ذریعہ ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS