ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
صہیونی اسرائیل کے ذریعہ فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی تاریخ اتنی طویل اور دلخراش ہے کہ دنیا کا ہر انصاف پسند اور انسانیت نواز شخص اس مظلوم لیکن بہادر قوم کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑا ہونا اور ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کرنا اپنا اخلاقی فریضہ تصور کرے گا۔ یوں تو کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب فلسطینیوں کو گرفتاری، ذلت، قتل، اقتصادی و سماجی پابندی اور مکمل محاصرہ کے تجربات سے نہ گزرنا پڑتا ہو۔ چند قدم کا فاصلہ طے کرنے کے لیے بھی انہیں گھنٹوں انتظار کے بعد اسرائیلی فوج اور پولیس کے ذریعے قائم کردہ تفتیشی گھیروں سے ہوکر گزرنا پڑتا ہے۔ دس لاکھ سے زیادہ آبادی والا علاقہ غزہ گزشتہ سولہ برسوں سے مکمل اسرائیلی حصار کی مار جھیل رہا ہے جس کی وجہ سے انسانی زندگی قابل ترس حد تک بے بسی کا شکار ہے۔ تمام قسم کی تجارتی اور اقتصادی پابندیوں کے درمیان برسوں سے زندگی گزارنے والی نسل کے دل و دماغ میں ذلت و بے بسی کے کیسے کیسے تصورات جنم لیتے ہوں گے اور مستقبل کے تئیں کس قدر مایوسی کا ماحول ان کی نفسیات پر غالب رہتا ہوگا اس کا اندازہ وہ لوگ کر سکتے ہیں جنہیں کبھی مختصر مدت کے لیے بھی ایسی انسانیت سوز زندگی سے سابقہ پڑا ہوگا۔ وہ خواہ چین کے اویغور مسلم ہوں یا بے وطنی کی زندگی گزار رہے روہنگیا ہوں۔ فلسطینیوں کو کبھی اسرائیل کی جیلوں میں ٹھونس دیا جاتا ہے، تو کبھی انہیں گولیوں سے نشانہ بناکر ختم کر دیا جاتا ہے تو کبھی ان کے مقدسات کو پامال کرکے انہیں درپۂ آزار کیا جاتا ہے۔ برداشت اور صبر کا پیمانہ جب لبریز ہوجاتا ہے تو کبھی کبھی ایسے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں جیسا کہ ان دنوں تل ابیب کے اندر دیکھنے کو مل رہا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ فلسطین کے ایسے نوجوان جن کے بارے میں خود اسرائیل کا میڈیا کہہ رہا ہے کہ وہ کسی فلسطینی مسلح یا غیر مسلح جماعت سے تعلق نہیں رکھتے ہیں ایسے نوجوان بھی اپنی جان اور اپنے اہل خانہ کے مستقبل کی پروا کیے بغیر صہیونی عناصر پر حملہ آور ہوکر ان کو ختم کر دیتے ہیں اور خود بھی موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی سلسلہ گزشتہ کئی دنوں سے اسرائیل میں جاری ہے۔ اب تک دس سے زیادہ صہیونی عناصر فلسطینیوں کے ہاتھوں جان گنوا چکے ہیں۔ تازہ ترین واقعہ کا تعلق 27 سالہ فلسطینی نوجوان رعد فتحی حازم سے ہے جو کہ مغربی پٹی کے جنوب میں واقع جنین خیمہ میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہتا تھا۔ 7 اپریل کو اس نے اسرائیل کے شہر تل ابیب میں صہیونیوں پر اچانک حملہ کر دیا جس میں تین اسرائیلی مارے گئے اور دس زخمی ہوگئے۔ بعد میں اسرائیل کی فوج نے فتحی کو اپنی گولیوں کا نشانہ بناکر شہید کر دیا۔ یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ ہمیشہ کی طرح اسرائیلی پولیس اور فوج نے جنین میں واقع اس کے گھر کو گھیر لیا اور اس کے تمام اہل خانہ کو سرینڈر کرنے کا فرمان جاری کردیا۔ مقتول کے والد نے پوری جرأت کے ساتھ ایسا کرنے سے منع کر دیا اور ہر قسم کے نتائج جھیلنے کو تیار نظر آئے۔ اسرائیل کے ذریعے فلسطینیوں کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ جب بھی کبھی ایسا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو اسرائیل مبینہ ملزم کے گھر والوں کو گرفتار کرتا ہے، ان کے گھر کو منہدم کر کے انہیں بے گھر کر دیتا ہے اور سخت ترین اذیت اور تکلیف کی زندگی گزارنے پر انہیں مجبور کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ساڑھے چار ہزار سے زیادہ فلسطینی آج بھی اسرائیلی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں جن میں مرد، عورتیں اور بچے سب شامل ہیں۔ تل ابیب جیسے واقعے نے اسرائیل کو بڑی مشکل میں ڈال دیا ہے کیونکہ یہ عام طور پر وہ فلسطینی ہیں جنہیں اسرائیل کی شہریت حاصل ہے اور ایسے نوجوان ہیں جو کسی جماعت سے منسلک ہیں اور نہ ہی ان کا جرم کی دنیا میں پہلے سے کوئی ریکارڈ موجود ہے۔ یہ منصوبہ بند طریقہ سے کسی منظم سازش کے تحت بھی حملے نہیں کر رہے ہیں بلکہ برسوں سے ذلت کی زندگی بسر کرتے کرتے ان میں ایسی نفسیاتی اور جذباتی تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ بالکل آخری اقدام کر بیٹھتے ہیں۔ ایسے انفرادی حملوں کو روک پانا اسرائیل کی سراغ رساں ایجنسیوں اور پولیس دونوں کے لیے مشکل ہو رہا ہے اور ان واقعات کو روکنے کے لیے جو اقدامات کیے جا رہے ہیں ان سے معاملہ سلجھنے کے بجائے مزید الجھاؤ پیدا ہو رہا ہے جس کا اعتراف خود اسرائیلی ماہرین اور سیکورٹی کا عملہ کر رہا ہے، کیونکہ جوابی کارروائی میں اسرائیلی سیکورٹی فورسز فلسطینیوں کے ساتھ مزید ظلم و زیادتی کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں جس سے غم و غصہ کی لہر مزید تیز ہو جاتی ہے اور کئی بے قصور جانیں تلف ہوتی ہیں یا پھر قید و بند کے مراحل سے گزرتی ہیں۔ اسرائیل کو جب بھی کبھی فلسطینیوں کے انسانی حقوق کی رعایت کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے تو بجائے اس پر کان دھرنے کے وہ بڑی لاپروائی سے ان کو نظر انداز کر دیتا ہے اور مسئلہ بد سے بدتر ہوتا جاتا ہے۔ اسرائیل کو سمجھنا چاہیے کہ فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے مظالم سے خود اسرائیلی معاشرہ بھی سکون سے نہیں رہ پائے گا۔ اسرائیل نے فلسطینی زمین و جائیداد اور قدرتی ذرائع پر اپنا ناجائز قبضہ برقرار رکھنے کے لیے جس طرح کی وحشت ناک تاریخ اپنے ہاتھوں سے لکھی ہے اس کو فلسطینی عوام کبھی بھلا نہیں پائیں گے۔ ایسی ہی صہیونی وحشت و بربریت کی علامت فلسطینیوں کا وہ قتل عام بن چکا ہے جو صہیونی عناصر کے ہاتھوں 9 اپریل 1948 کو دیر یاسین میں وقوع پذیر ہوا تھا۔ یہ وہی سال ہے جسے فلسطین کی تاریخ میں ’’نکبہ‘‘ کے آغاز کا سال کہا جاتا ہے۔ دیر یاسین قدس شہر کے مغرب میں واقع ایک گاؤں تھا جس پر صہیونی جتھے نے حملہ کرکے اپنی انسانیت سوز حرکت کا ثبوت دیا تھا۔ بے رحمی اور قساوت قلبی کی ساری حدیں پار کر دی گئی تھیں۔ فلسطینیوں کے گھروں کو اس طرح سے ڈھایا گیا تھا کہ مکینوں کو ان گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی تھی۔ جن گھروں میں فلسطینی خاندان ہنس کھیل کر پروان چڑھا تھا ان کو ان پر ہی ڈھاکر ان کی قبروں میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ جو فلسطینی اس وحشیانہ قتل و خوں ریزی سے بچ بچاکر بھاگ رہے تھے انہیں جان بچاکر بھاگنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ ان کا تعاقب کیا گیا اور ان پر سیدھا نشانہ لگاکر انہیں ختم کر دیا گیا۔ عرب اور بین الاقوامی ذرائع کے مطابق اس قتل عام میں 254 فلسطینی جاں بحق ہوئے تھے جن میں 25 حاملہ عورتیں تھیں۔ ان حاملہ عورتوں کے ساتھ مزید سنگ دلی کا مظاہرہ صہیونیوں نے کیا۔ ابھی وہ سانس لے رہی تھیں اور زندگی کی رمق ان میں باقی ہی تھی کہ ان کے شکم کو پھاڑ کر انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس قسم کی حیوانیت عموماً تبھی نظر آتی ہے جب کوئی قوم کسی سے سخت حد تک نفرت کرنے لگتی ہو۔ ہم ہندوستان کی جدید تاریخ میں 2002 کے اندر گجرات کے مسلم قتل عام میں دیکھ چکے ہیں جہاں ایک حاملہ مسلم عورت کا پیٹ تلوار سے چاک کرکے شکم مادر میں پلنے والے معصوم کو تلوار پر اچھال کر ختم کر دیا گیا تھا۔ نفرت کی وہی آندھی مسلمانوں کے خلاف ایک بار پھر چل رہی ہے۔ نفرت کا یہ مزاج کسی بھی معاشرے کو بدترین سماج میں تبدیل کرنے کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ مظلوم قومیں اپنی تاریخ کبھی نہیں بھولتی ہیں۔ ان کے بھولنے کا بس ایک ہی طریقہ ہے کہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے اور قیادت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ زخموں کو کریدنے کے بجائے ان پر مرہم لگانے کا کام کرے، ورنہ یہ زخم ناسور بن جاتا ہے۔ چونکہ فلسطینیوں کو اب تک ان پر ڈھائے گئے مظالم کا انصاف نہیں ملا، اس لیے وہاں سکون کسی کو میسر نہیں ہے۔ حماس کے لیڈر دیر یاسین قتل عام کی 74 ویں برسی پر کہہ چکے ہیں کہ ہماری زمین اور قوم کے ساتھ جس بہیمانہ عمل کا ارتکاب کیا گیا ہے وہ صرف وقت گزرنے سے ختم نہیں ہوگا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ فلسطینی عوام اسرائیل کے مجرموں کا تعاقب ہر بین الاقوامی اسٹیج پر اس وقت تک کریں گے جب تک انہیں انصاف نہیں مل جاتا اور ان کی زمین اسرائیل کے ناجائز قبضے سے آزاد نہیں ہوجاتی۔ کیا اسرائیل کبھی سنجیدگی سے اس مسئلے پر غور کرکے فلسطینیوں پر مظالم کا سلسلہ روکے گا؟ بظاہر اس کی کوئی توقع نظر نہیں آتی کیونکہ ابھی گزشتہ کل ہی اسرائیلی وزیر اعظم بینیٹ نے فلسطینیوں کی جانب سے جاری انفرادی حملوں کی روک تھام کے لیے اسرائیلی فوج کو مکمل آزادی دے دی ہے۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ ابھی فلسطینیوں کو مزید قربانیاں پیش کرنی ہوں گی۔ جس طرح سے اسرائیلی پولیس اور صہیونی آبادکار مل کر لگاتار فلسطینیوں کو بھڑکا رہے ہیں، ان پر حملے کر رہے ہیں اور رمضان کے مبارک مہینے میں بیت المقدس کے تقدس کو پامال کر رہے ہیں اس سے اس بات کا اندیشہ ہو رہا ہے کہ کہیں گزشتہ سال کی طرح ایک بار پھر غزہ پر اسرائیل کی جارحیت کا آغاز نہ ہوجائے۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں