انسانوں کے درمیان مفاہمت کیلئے مکالمہ: محمد حنیف خان

0

محمد حنیف خان

دنیا آج ترقی کی جن منازل سے ہمکنار ہوچکی ہے،وہ واقعی مسرت آمیز اور تعجب خیز ہیں۔گزشتہ چند دہائیوں میں دنیا نے برق رفتاری سے ترقی کی،کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب دنیا کسی نئی ایجاد سے فیضیاب نہ ہوتی ہو۔چونکہ دنیا گلوبل ولیج کی شکل اختیار کرچکی ہے،اس لیے ہر ترقی سے ہم فوراً آشنا بھی ہوجاتے ہیں۔زندگی کا کوئی بھی ایسا شعبہ نہیں ہے جہاں ترقیات کے نقوش ثبت نہ ہوں۔کھیتی کسانی جیسا روایتی شعبہ بھی جدید آلات اور ایجادات سے اپنی شکل بدل چکا ہے۔یہ اور بات ہے کہ ہر ملک میں ان ترقیات کا فیض اس قدر عام نہیں ہوا جیسا یوروپی ممالک میں ہوا۔لیکن ان ترقیات کے درمیان ایک بات ایسی بھی ہوئی ہے جسے خوشگوار کسی بھی صورت میں قرار نہیں دیا جاسکتا، وہ ہے تہذیبوں اور مذاہب کے درمیان تصادم۔متنوع تہذیبوں اور دنیا کے مختلف مذاہب کے درمیان تصادم کے سلسلے نے ترقیات کی چمک دمک کو ماند کردیا ہے،ایسا نہیں ہے کہ جو طاقتور اور اکثریت میں ہے، وہ خوش ہے اور جو کمزور اور اقلیت میں ہے، اس کی زندگی تباہ ہے۔اس تصادم سے دونوں جس خلفشار کا شکار ہیں، وہ ناقابل بیان ہے۔دنیا کا کوئی ایسا کونا نہیں ہے جہاں تہذیبی اور مذہبی تصادم نہ ہو۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جدید دنیا کی یہ جدید ترقیات اور ایجادات کا ثمر بے فیض ثابت ہو رہا ہے۔
اگر مذاہب اور تہذیبوں کے درمیان تصادم نہ ہوتا تو سوچئے آج دنیا کس قدر خوشحال ہوتی، دنیا کا شاید کوئی انسان بھوکے نہ مرتا،بغیر علاج کے کسی کی موت نہ ہوتی،کسی کے مرنے پر کوئی خوشی نہ مناتا، ملکوں میںمذہبی اور ثقافتی اقلیتوں کی نسل کشی نہ ہوتی۔میانمار،چین اور روس کے خطے میں انسانی تباہی کے منظر نہ دیکھے جاتے،افریقہ،امریکہ اور انگلینڈ میں بردہ فروشی اور نسلی برتری کا کھیل نہ کھیلا جاتا، گورے اور سفید میں تمیز اور تعصب نہ ہوتا،جنگ عظیم کا خونیں منظر دنیا کے اسٹیج پر نہ پیش کیا جاتا۔ فلسطین اور اسرائیل کے مابین کشمکش اور اس میں یومیہ مظلوموں کی جانوں کا اتلاف نہ ہوتا، ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم نہ ہوتی،ہندوستان میں سب سے بڑی اقلیت حاشیے پر نہ پہنچ جاتی مگر کیا کیا جائے کہ تہذیب اور مذہب کے ترفع کی ذہنیت نے انسانوں کو تباہی کے اندھے کنویں میں دھکیل دیا ہے۔اس وقت دنیا میں خلفشار کا سب سے بڑا سبب یہی دو نقطے ہیں، اگر یہ دونوں حرف غلط کی طرح مٹا دیے جائیں تو یقین مانئے دنیا جنت بن سکتی ہے مگر اس کے لیے شرط ہے کہ قرآنی درس پر عمل کرنا ہوگا اور زندگی میں ’’لکم دینکم و لی دین ‘‘پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔
حال ہی میں رابطہ عالم اسلامی کے تحت اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر نیویارک میں ’’مشرق اور مغرب کے درمیان مفاہمت اور امن کے پلوں کی تعمیر‘‘ کے عنوان سے ایک پروگرام کیا گیا جس میں دنیا کی اہم مذہبی،سیاسی اور سماجی شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا،جس کا مقصد تھا کہ ہم سب مل کر بیٹھیں اور مشرق و مغرب کے درمیان کی خلیج کو ختم کریں، ان دونوں کے درمیان امن کے پلوں کی تعمیر کریں۔ظاہر سی بات ہے کہ اس کے لیے مکالمے سے بہتر کوئی راستہ نہیں ہوسکتا۔رابطہ عالم اسلامی کی یہ کوشش امن عالم کے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہے لیکن اگر اس کا موضوع’’ مشرق و مغرب کے درمیان مفاہمت ‘‘کے بجائے ’’ انسانوں کے درمیان مفاہمت‘‘ہوتا تو اس کی اہمیت دوچند ہوجاتی۔اچھی بات یہ رہی کہ ہر شخص نے یہاں انسانیت کی بات کی اور تہذیبی و مذہبی تصادم سے کنارہ کشی پر زور دیتے ہوئے مکالمہ کی راہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔
رابطہ عالم اسلامی کے تحت دنیا کے مذہبی،سیاسی اور سماجی لیڈروں نے بڑی خوبصورت باتیں کیں،انہوں نے انسانیت کو تقویت دینے اور نفرت کو شکست دینے پر زور دیا۔ خاص طور پر دنیا میں مذہبی شدت پسندی اور اس کے جلو میں معاشرے میں راہ پائی نفرت کے خاتمہ پر گفتگو کی گئی۔ دراصل مشرق و مغرب کا مطلب ہی اسلام اور عیسائیت سے ہے کیونکہ دنیا میں یہی دو سب سے بڑے مذاہب ہیںاور مشرق اسلام کی آماجگاہ تو مغرب عیسائیت کی۔ان دونوں کے مابین فکری تنازع کی وجہ سے دنیا دو حصوں میں تقسیم دکھائی دیتی ہے۔دنیا کی دوسری تہذیبیں اور مذاہب ان دونوں کے پس پشت نظر آتے ہیں۔گزشتہ چند دہائیوں سے دنیا میں ان دونوں مذاہب کے ماننے والے اس طور پر بر سرپیکار ہیں کہ دنیا دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔اسی نفرت کے خاتمہ کے لیے رابطہ عالم اسلامی نے یہ پہل کی ہے اور دنیا کے لیڈروں کو مدعو کرکے مکالمے کا موقع دیا ہے۔
لیکن تعجب خیز بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں چکنی چپڑی گفتگو کرنے والے یہ سیاست داں،ماہرین سماجیات،مذہبی اکابرین اپنے ممالک میں اقلیتوں کی حقوق سلبی پر خاموش رہتے ہیں،اس وقت ان کی زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں اور ان کے مفادات ان کی نظروں کے سامنے رقص کرنے لگتے ہیں۔رابطہ عالم اسلامی کے اس پروگرام میں خوبصورت باتیں کرنے والے یہ افرادکیا اپنے ملکوں کی حکومتوں کو بھی راہ راست پر لانے کی کوشش کریں گے؟کیا وہ اپنے ملکوں میں مذہبی،تہذیبی اور رنگ و نسل کی بنیاد پر ہونے والے امتیاز کے خاتمہ کے لیے آواز اٹھائیں گے اور حکومتوں کو مجبور کریں گے کہ وہ امن عالم کے لیے نفرت انگیز بیانیہ کو ختم کرکے انسانیت کے بیانیے کو فروغ دیں۔اگر یہ ذمہ دار ان وا عیان واقعی اپنے قول میں سنجیدہ ہیں تو ان کو اپنے اپنے ملکوں کی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سب سے پہلے سامنے آنا ہوگا۔اگر ہر ملک میں اقلیتوں کے حقوق محفوظ ہوجائیں اور ان کے ساتھ دہرا رویہ اختیار کیا جانا بند ہوجائے تو امن عالم کا خواب پورا ہوسکتا ہے۔
رابطہ عالم اسلامی کے اس اسٹیج سے دنیا میں پھیلے نفرت انگیز اور امتیازی بیانیے کی مذمت کی گئی اور اس کو تشویش کا باعث قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو تنازعات،اموات اور تباہی میں مزید اضافہ ہوگا۔تنوع کے احترام اور اس کے خیر مقدم کوامن کی تلاش کابنیادی نکتہ قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ امن کے لیے ایک نئے عالمی شعور اور اجتماعی تبدیلی کی ضرورت ہے جس کی کلید ہمارے ذہن میں ہے۔
اس ضمن میں دنیا اور خاص طور پر ہندوستان کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات بالکل عیاں ہوجاتی ہے۔ اگر تنوع کا احترام نہ کیاجائے تو اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ہندوستان ایک متنوع ملک ہے جس میں زبان سے لے کر تہذیب اور مذاہب میں تنوع پایا جاتا ہے۔ایک ہی مذہب کے ماننے والے متنوع تہذیب کے حامل ہیں،ہندوستان میں ہندوؤں کی اکثریت ہے، اس کے باوجود شمالی ہند اور جنوبی ہند کے ہندوؤں کی تہذیب و ثقافت یہاں تک کہ مذہبی اصولیات تک میں بے انتہا فرق نظر آئے گا۔لسانی سطح پر تنوع بھی جگ ظاہر ہے،شمالی ہند اور جنوبی ہند اسی تنوع کے عدم احترام اور اپنی برتری کو تھوپے جانے کی وجہ سے کئی بار آمنے سامنے آچکے ہیں۔
مذہبی سطح پر مسلمان یہاں کی سب سے بڑی اقلیت ہیں لیکن تنوع کے عدم احترام کی وجہ سے وہ معاشرے کے نچلے پائیدان پر کھڑے ہیں،اپنے ہی ملک میں ان کو نہ صرف مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے بلکہ ان کے خلاف سازشیں عام بات ہے۔بائیں بازو کی تنظیمیں کھلے عام دعوت مبارزت دیتی ہیں اور حکومتیں اس لیے خاموش رہتی ہیں کیونکہ وہ خود تنوع کے عدم احترام میں اپنا مفاد دیکھتی ہیں۔مذہبی اور تہذیبی سطح پر ملک میں تنوع کے عدم احترام کی ایک دو نہیں ہزاروں مثالیں موجود ہیںجن کے بطن سے خونریزی،نفرت،تعصب اور دشمنی نے جنم لیا ہے،جنہوں نے ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رکھی ہیں۔نفرت انگیز اور امتیازی بیانیہ کا اجراء حکومتی گلیاروں سے ہوتا ہے جسے میڈیا کھلے عام فروغ دیتا ہے۔یہ روش بند ہونی چاہیے جس کے لیے سبھی کا آواز اٹھانا ضروری ہے کیونکہ نفرت اور برتری کی نفسیات کا خاتمہ پرامن دنیا کے لیے ضروری ہے،تبھی انسان بہترین اور خوشحال زندگی گزار سکیں گے۔ جس کے لیے زبانی وعدوں سے عمل کی طرف جاناہوگا،ہر ملک اور ہر گھر میں محبت اور رواداری کے بیج بونے ہوں گے،جو تعلیمی پروگراموں اور سماجی اقدامات کے بغیر ناممکن ہے،جس کی طرف پیش رفت ہی دنیا کو تباہی و بربادی سے بچا کر خوشحالی کی جانب لے جا سکتی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS