کورونا کے دورمیں لوگوں کے سامنے بے روزگاری اور مہنگائی کاسنگین مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔نہ کام مل رہا ہے اورنہ آمدنی ہورہی ہے ۔گزربسر کرنامشکل ہوگیا ہے ۔خاص طور سے ملک کے دیہی علاقوں میں لوگوں کو بہت پریشانی کاسامنا کرنا پڑرہا ہے ۔پچھلے سال جب مارچ میں لاک ڈائون لگایا گیا تھا تو سرکارنے عوامی نظام تقسیم کے تحت نومبر تک مفت راشن فراہم کرایاتھاجس سے غریبوں اورضرورت مندوں کو کافی راحت ملی تھی۔اس باربھی وزیراعظم نریندر مودی نے دیہی علاقوںکے غریب لوگوں اورضرورت مندوں کیلئے نومبرتک مفت راشن دینے کااعلان کیا ہے۔اس سے لوگوں کی پریشانیوں میں ضرورکمی آئے گی ۔لیکن یہ بات دیکھی اورمحسوس کی جارہی ہے کہ لوگوں کے کھانے پینے کے مسائل بہت حدتک حل ہورہے ہیں لیکن ترقیاتی کام ایک طرح سے ٹھپ ہیں ۔ منتخب نمائندے خصوصاً ممبران پارلیمنٹ اپنے علاقے میں کچھ بھی کام کرانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ کورونا کے دور میں وہ عوام سے دور رہے ۔شاید اس کاسبب وباکا خوف اورکام کرانے کے لئے فنڈ نہ ہونا ہو۔ انہوں نے گزشتہ سال دسمبر میں ممبر پارلیمنٹ لوکل ایریا ڈیولپمنٹ اسکیم (ایم پی ایل اے ڈی) کے فنڈ کو ریلیز کرنے اوراس کے تحت شروع کرائے گئے کاموں کو جاری کرنے کی مانگ کی تھی ۔ایک بار پھر راشٹریہ جنتا دل کے منوج جھا ، کانگریس کے اکھلیش پرساد سنگھ، شرومنی اکالی دل کے بلوندر سنگھ بھوندڑ اور دیگر نے مذکورہ مانگ دہرائی ہے بلکہ منوج جھا کا کہنا ہے کہ اس وقت اس اسکیم کی جتنی ضرورت ہے ، شاید اتنی پہلے کبھی نہیں رہی ۔
ممبر پارلیمنٹ لوکل ایریا ڈیولپمنٹ اسکیم حکومت ہند کی بہت اہم اسکیم ہے ۔یہ وہ اسکیم ہے جس کے ذریعہ ممبران پارلیمنٹ اپنی سفارش کے ذریعہ علاقے کے لئے کچھ خصوصی کام کراکے رائے دہندگان یا عوام سے کئے گئے وعدے کی تکمیل کرتے ہیں۔ اسکیم کے تحت جو بھی کام ہوتے ہیں ، وہ انہیں کے نام سے ہوتے ہیں اور لوگ بھی دیکھتے اورسمجھتے ہیں کہ ہمارے ممبر پارلیمنٹ نے علاقے میں فلاں کام کرایا اورفلاں وعدہ پورا کیا ۔اگر یہ فنڈ یااسکیم نہ ہوتوممبران پارلیمنٹ کے لئے اپنے طور پر علاقے میں کچھ بھی کرانا بہت مشکل ہوگا۔ اس کی فنڈنگ مرکزی حکومت کرتی ہے اوراس کے لئے ہرسال اسکیم کے لئے 5کروڑ روپے الاٹ کئے جاتے ہیں ،جس کے ذریعہ لوک سبھاکے ممبران اپنے حلقہ میں ،راجیہ سبھاکے منتخب ممبران اس ریاست میں جہاں سے منتخب ہوتے ہیں اورنامزدممبران ملک میں کہیں بھی کام کی سفارش کرتے ہیںاور کام ہوتا ہے ۔
یہ اسکیم 23دسمبر1993کونرسمہارائوسرکارنے شروع کی تھی ۔ ایک سال وزارت دیہی ترقی کی نگرانی میں چلی ،1994میں اسے وزارت وپروگرام پر عملدرآمد کے ماتحت کردیا گیا ۔سالانہ فی ممبر پارلیمنٹ 2 لاکھ سے شروع کی گئی یہ اسکیم آج 5کروڑ سالانہ تک پہنچ گئی ہے ،لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہاں اس اسکیم کے ذریعہ بہت سے ممبران پارلیمنٹ نے اپنے اپنے حلقہ میں ترقیاتی کام کرائے توکچھ نے اسے خرچ کرنے اوراس کے ذریعہ کام کرانے میں دلچسپی ہی نہیں لی۔اس طرح ان کافنڈ الاٹ ہوکر واپس چلاگیا۔ اتنی اہم اسکیم پر کورونا کا دورشروع ہونے کے بعد گزشتہ سال اپریل سے روک لگی ہوئی ہے ۔ ممبران پارلیمنٹ شروع کرانا چاہتے ہیں لیکن سرکار شروع نہیں کررہی ہے، جس کی وجہ سے بہت سے پروجیکٹ رکے ہوئے ہیں ۔ کورونا کے دور میں جہاں لوگ ممبران پارلیمنٹ سے کافی امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں ۔توممبران پارلیمنٹ فنڈ کی بحالی کی مانگ کررہے ہیں کیونکہ عوام کی ناراضگی بڑھتی جارہی ہے ۔ظاہر سی بات ہے کہ اس میں لوگوں کے ساتھ ساتھ ممبران پارلیمنٹ کا بھی نقصان ہے ،جس پر سرکار کوتوجہ دینی چاہئے ۔
[email protected]
راشن کے ساتھ ترقیاتی کام بھی ضروری
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS