غزہ کی کھلی جیل میں بربریت کا مظاہرہ: پروفیسر عتیق احمدفاروقی

0

پروفیسر عتیق احمدفاروقی
7اکتوبر کو علی الصباح حماس نے بیک وقت پانچ ہزار راکٹوں سے اسرائیل پر حملہ کردیا جس سے وہاں تھوڑی ہی دیر میں ہرطرف افرا تفری، قتل وغارت گیری اورعمارتوں کی مسماری کے دل دہلانے والے مناظر عام ہوگئے۔ متعدد شہروں اورآبادیوں میں مسلح افراد اسرائیلی شہریوں کو یرغمال بنانے لگے۔تقریباً150سے زائد اسرائیلیوں کو یرغمال بنایاجاچکاہے۔ جن میں عام شہری اورفوجی دونوں شامل ہیں۔ جواباً اسرائیل نے غزہ پر وحشیانہ بمباری شروع کردی ہے ۔ 10دن سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ دونوں جانب سے ان فوجی کارروائیوں میں اب تک ہزاروں فوجی وشہری بشمول بچے جاں بحق ہوگئے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق تین لاکھ 38ہزار فلسطینی بے گھرہوچکے ہیں۔ دوسری طرف حماس کے حملے میں 180 فوجیوں سمیت 1300؍ اسرائیلی ہلاک ہوچکے ہیں اور12800اسرائیلی زخمی ہیں۔دراصل صہیونی فورسز نے غزا کا ، جسے سالوں سے ایک کھلی جیل کی شکل میں بدل دیاگیاہے، اسرائیل نے مکمل محاصر ہ کیاہوا ہے۔ بجلی ،پانی، خوردنی اشیاء ،ادویات وایندھن پر مکمل طور پر پابندی عائد کردی گئی ہے جس سے وہاں کی گزربسر بیحد مشکل ہوگئی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم کاکہناہے کہ وہ غزہ پٹی کو پوری طرح برباد کردیں گے اورایک بھی حماس کارکن زندہ نہیں بچے گا۔ ان کا موقف یہ ہے کہ حملے کی شروعات حماس نے کی ہے اورجوابی کارروائی میں اگربے گناہ شہری اوربچے مارے جارہے ہیں تو اس کیلئے حماس ہی ذمہ دار ہے۔
اگراسرائیل کا ایک ملک کی حیثیت سے تاریخی جائزہ لیاجائے تو پتہ چلے گاکہ عربوں کی سرزمین پر یہودیوں یااسرائیلیوں کو امریکہ اوربرطانیہ نے خصوصاًاس لئے بسایاکہ یہودی سائنسدانوں نے ہی سب سے پہلے ایٹم بم بناکر ممالک کو تحفہ میں دیاتھا۔ جس سرزمین پر یہودی بسائے گئے ہیں وہ فلسطینیوں کی تھی اوریہودیوں کے ساتھ ساتھ اُردن جیسے کچھ عرب ممالک نے بھی ان کی زمین پر قبضہ کیا۔ بہرحال عربوں نے فلسطینیوں کی حمایت کی اورشروع میں اسرائیل کو ایک ملک کی حیثیت سے نہیں تسلیم کیا۔ عربوں نے خصوصاً مصراورشام میں فلسطینیوں کے وجود کی بقاء کیلئے اسرائیل ، جس کی حمایت مغربی ممالک خصوصاً امریکہ اوربرطانیہ نے کی تھی،سے تین جنگیں لڑیں لیکن مجموعی طور پر اسرائیل کی فوجی طاقت اورٹیکنالوجی کی برتری کے سبب عرب ممالک جنگ میں کامیاب نہیں ہوسکے بلکہ اس کے برعکس ان کی اچھی خاصی زمین پر اسرائیل نے قبضہ کرلیا۔ فلسطین اب ویسٹ بینک اورغزہ پٹی میں سمٹ گیاہے۔ دراصل فلسطین پر پی ایل او کی حکومت تھی ، بعد میں اس کا ایک دھڑ حماس جوکہ پی ایل او کے مقابلے شدت پسند تھااوراسرائیل کے خلاف زیادہ مدافعت میں یقین رکھتاتھا، اس سے الگ ہوگیا۔ یہ کہناغلط نہ ہوگاکہ حماس جوکہ اسلامی برادرہوڈ کی ایک شاخ ہے، کو کھڑا کرنے والابھی اسرائیل اورامریکہ ہی ہے تاکہ پی ایل او میں پھوٹ پڑجائے اوراسرائیل کے خلاف مدافعت کمزور پڑجائے۔ ویسٹ بینک پر پی ا یل او کی حکومت ہے جبکہ غازہ پٹی پر 2005سے حماس کی حکمرانی ہے۔ اب ان دونوں دھڑوں کے بیچ مفاہمت ہوچکی ہے اورکوئی خاص تنازعہ نہیںہے۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ حماس نے اسرائیل پر کیوں حملہ کیا؟ دراصل حماس نے محسوس کیاکہ فلسطین کا مدعہ آہستہ آہستہ ناپید ہورہاہے ۔مصر، متحدہ عرب امارات ،قطر اورچند دیگر عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلیے ہیں ۔ سعودی عرب اوراسرائیل کے درمیان بھی سفارتی تعلقات قائم کرنے کا سمجھوتہ اب ہونے جارہاتھا ۔ اس مدعہ کا کمزور ہونے کا سبب یہ بھی تھاکہ صوویت یونین ٹوٹ چکاہے اورناوابستہ تحریک بھی موجودہ بین الاقوامی سیاسی و اقتصادی حالات کے ناطے کمزور پڑچکی ہے۔ دوسری طرف گزشتہ کم ازکم 75سالوں سے فلسطینی جس مشکل حالات سے گزررہے تھے انہیں لفظوں میں بیان نہیں کیاجاسکتا۔ عملی طور پر اسرائیل نے غزہ کو شروع سے ہی گھیر رکھاہے۔ اگریہ کہاجائے کہ 18سال سے فلسطینی غزہ میں ایک کھلی جیل میں زندگی گزاررہے ہیں تو غلط نہ ہوگا ۔ آئے دن کسی نہ کسی بہانے فلسطینیوں کے قتل کی خبریں سننے میں آتی رہتی ہیں۔ حماس کو مغربی ممالک اوراسرائیل دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ اسرائیل کی موجودہ نتن یاہو کی حکومت نے فلسطینیوں کی زمینوں پر یہودی آبادیاں بسانے کا سلسلہ جاری رکھاہے۔ اسرائیل کی حزب مخالف جماعتوں نے حکومت کو اس کے خلاف متنبہ بھی کیاتھا لیکن ان کی ایک نہیں سنی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ حماس کے اس حملے کیلئے وہاں کے اپوزیشن لیڈر نتن یاہو حکومت کو ذمہ ٹھہرارہے ہیں۔ اس وقت ہزاروں فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں۔ اب جو ڈیڑھ سو اسرائیلیوں کو حماس نے یرغمال بنایاہے ان کی مدد سے وہ جیل میں قید فلسطینیوں کو رہا کروانے کی کوشش کرے گا۔
اگرانصاف کی بات کی جائے توحماس جو کچھ کررہاہے وہ اس کی مجبوری تھی۔ زیادہ نہیں اگرگزشتہ پندرہ سال کے واقعات ، جو فلسطین میں رونماہوئے،کاجائزہ لیاجائے تو پتہ چل جائے گاکہ اصلی دہشت گرد کون ہے حماس یااسرائیل؟دراصل فلسطینی مصلح غیرمصلح افراد کی کارروائیاں اسرائیل کی کارروائیوں کے جواب میں ہوتی ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2008سے لیکر 2023 کے ستمبر ماہ تک اسرائیل کے میزائل حملوں میں 6,407فلسطینی ہلاک ہوئے ہیںجبکہ اسرائیلی کی شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد 308ہے۔ اس سے قبل مئی 2021 میں اسرائیل نے دمشق کے قریب یوروشلم گیٹ پر جوکہ مسجد اقصیٰ تک جانے کا راستہ ہے، لوہے کی بیریکیڈنگ کردی تھی۔ نتیجتاً دونوں فریقین میں جو جھڑپیں ہوئیں ان میں سے 349فلسطینی 11اسرائیلی ہلاک کئے گئے تھے۔ اس طرح حماس کی موجودہ کارروائی کا سبب بیت المقدس میں اسرائیلیوں کی دراندازی اورنتن یاہو حکومت کی جانب سے اس کی حوصلہ افزائی بھی ہے۔
اگرچہ حماس کی کارروائی کا رد عمل اسرائیل پر کیا ہوگا اس کا علم انہیں پوری طرح تھا لیکن اسرائیل کے ہاتھوں اب تک فلسطینیوں کی جوتباہی ہوئی ہے اس سے زیادہ اورکیاہوگی۔ حماس کی کارروائی کے رد عمل کے طور پر اسرائیل جو بربربیت کامظاہرہ کررہاہے (جس میں قریب 800بچوں کی ہلاکت بھی شامل ہے)اس سے فلسطینیوں کی مظلومیت بین الاقوامی سطح پر اجاگر ہوگی۔ فلسطین مسئلہ کے حل تلاش کرنے کی فکر بین الاقوامی برادری کو ہوگی اوراسرائیل وامریکہ کی بدنامی ہوگی۔ چاروں طرف حماس کی مذمت ہورہی ہے ، ٹھیک ہے ہونی بھی چاہیے، اسلام مذہب معصوموں کے قتل کی اجازت قطعی نہیں دیتا لیکن جن حالات میں حماس نے یہ قدم اٹھایاہے وہ بھی قابل غور ہے لیکن اسرائیل کی مذمت اس کے چار گناہونی چاہیے کیونکہ اس نے حماس کے مقابلے دس گنابے گناہوں کا قتل کیاہے۔ امریکہ کو چاہیے کہ وہ بحیرہ روم میں اپنے سب سے طاقتور بحری بیڑے کو کھڑا کرکے اسرائیل کی حمایت کرنے کے بجائے اس کو سمجھائے کہ حماس کے خلاف کارروائی کرنے میں وہ جنگی قانون کا خیال رکھے اوردباؤ ڈال کر جنگ بند کرائے اوردونوں فریقین مذاکرہ ٹیبل پر بیٹھ کر ’اوسلو قرارداد ‘کی روشنی میں مسئلے کا حل تلاش کریں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS