افسپاکی واپسی کا مطالبہ

0

ناگالینڈ میںتخریب کاروں کے شبہ میں 14بے گناہ شہریوں کوفوج کے ذریعہ ہلاک کردیے جانے کے واقعہ کے بعد سے ایک بار پھر شمال مشرق سے مسلح افواج(استحقاق) ایکٹ 1958 یعنی افسپا(AFSPA) کو واپس لینے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا ہے۔ پارلیمنٹ کے جاری سرمائی اجلاس میں بھی اس معاملہ کی گونج سنائی دینے لگی ہے ۔ آج ہی ناگالینڈ پیپلز فرنٹ کے رہنما کے جی کینئے نے راجیہ سبھا میں بھی اس قانون کو واپس لینے کا مطالبہ اٹھایا۔کینئے کا کہنا ہے کہ مسلح افواج کے خصوصی اختیارات نے شمال مشرقی علاقے کے لوگوں سے باقی ماندہ ملک کے لوگوں کے درمیان ’ دشمنی‘ پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں کیاہے۔ناگالینڈ پیپلز فرنٹ کے اس مطالبہ کی حزب اختلاف کی کئی دوسری جماعتوں نے بھی حمایت کی ہے۔ ترنمول کانگریس نے تو باقاعدہ اس کیلئے مہم چھیڑنے کا اعلان کیا ہے اور اس معاملے میں وزیرداخلہ امت شاہ سے ملاقات کیلئے وقت بھی مانگا ہے۔ مسلح افواج (استحقاق) ایکٹ کا تنازع کافی پرانا ہے ۔ اس سے پہلے بھی کئی شہری تنظیمیں اور ان ریاستوں کے مقامی سیاست داں جہاں یہ قانون نافذ ہے، برسوں سے اس قانون کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے اور اس ایکٹ کی آڑ میں سیکورٹی فورسز پر زیادتیوں کا الزام لگاتے آرہے ہیں۔
ملک کے ’ پریشان کن علاقے‘ میں قیام امن و امان کیلئے 1956 میں مسلح افواج (استحقاق) ایکٹ نافذ کیاگیاتھا لیکن انتہائی سختی کے ساتھ نفاذ بھی شمال مشرقی خطہ میں حالات کو پرسکون نہیں کرسکا بلکہ دھیرے دھیرے حالات مزید خراب ہوتے چلے گئے اور قانون کا دائرہ ایک ایک کرکے شمال مشرق کی تمام ریاستوں تک پھیل گیا ۔ جن خطوں میں یہ قانون نافذ ہے وہاں امن و امان برقرار رکھنے کیلئے فوج کے اہلکاروں کو معمولی شبہ میں بھی طاقت کے بے تحاشہ استعمال ، کسی بھی ایسے شخص کو جن پر انہیں ذرا سا بھی شبہ ہو،وجہ بتائے بغیر گرفتار کرنے حتیٰ کہ گولی مار کر ہلاک کردینے کا حق بھی حاصل ہے۔ یہ قانون فوج کے جوانوں کو اپنے اس عمل کیلئے سول عدالتی چارہ جوئی سے استثنیٰ بھی فراہم کرتا ہے ۔
سول سوسائٹی کے ایک غالب حصہ نے ہمیشہ ہی اس قانون پر اعتراض کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ قانون اپنے مقصد سے کافی آگے نکل گیا ہے، امن و امان برقرا ر رکھنے کی بجائے یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا آلہ کار بن گیا ہے ۔ شہریوں کی آزادی چھینی جارہی ہے اور لاتعداد بے گناہ مرد و خواتین مسلح افواج کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں۔یہ قانون شمالی مشرقی ریاستوں میں فی الحال آسام، ناگالینڈ، منی پور اور اروناچل پردیش کے کچھ حصوں میں نافذ ہے۔ علیحدگی پسند خالصتانی تحریک کے پرتشدد ہونے کے بعد اس قانون کو 1973 میں پنجاب اور چنڈی گڑھ تک بڑھا دیا گیا تھا۔ مغربی ہندوستان کے اس حصے سے افسپا کو واپس لینے میں حکومت کو تقریباً 14 سال لگے تھے۔1990میں اس وقت کی ریاست جموں و کشمیر میں بھی اس قانون کو نافذ کیا گیا۔لیکن بدقسمتی سے پنجاب اور تریپورہ کو چھوڑ کر ملک کے باقی حصوں میں اس قانون کے مثبت نتائج کبھی دیکھنے کو نہیں ملے۔انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی کئی برس سے جاری لاتعداد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مثالیں دیتے ہوئے مسلسل اس قانون کی منسوخی کا مطالبہ کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے منی پور میں جولائی 1979 سے 2012 کے دوران پولیس، فوج اور پیرا ملٹری افواج کی طرف سے مبینہ طور پر کی گئی1,528ہلاکتوں میں سے کم سے کم 87 ہلاکتوں کی تحقیقات کیلئے سی بی آئی کو ٹیم تشکیل دینے کا بھی حکم دیا تھا۔غیر سرکاری تنظیم کامن ویلتھ ہیومن رائٹس اِنی شیئٹو نے اپنی 2016 کی رپورٹ میں بتایا تھا کہ AFSPA کے تحت ریاستوں میں مسلح افواج کی طرف سے 2012 اور 2016 کے درمیان انسانی حقوق کی 186 خلاف ورزیاں ریکارڈ کی گئی تھیں۔ اس کے بعد ڈاٹا ہی دستیاب نہیں کرایاگیا۔
اس قانون کے تحت مسلح افواج کو حاصل لامحدود اختیارات کے خلاف منی پور کی ارم چانو شرمیلا 2000 سے مسلسل 16 برسوں تک بھوک ہڑتال پر رہیں لیکن اس کے باوجود حکومت اس قانون کو واپس لینے پرآمادہ نہیں ہوئی، اس کے برخلاف فوج کے بعض طبقوں کی جانب سے اس قانون کے بے دریغ اور ظالمانہ استعمال میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ تازہ واقعہ ناگالینڈ میں14بے گناہ شہریوں کی ہلاکت کا ہے، ہر چند کہ وزیرداخلہ امت شاہ نے اس واقعہ پر اظہار افسوس کرتے ہوئے مہلوکین کے اہل خانہ سے تعزیت کی ہے اورمعافی بھی مانگ لی ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے۔
پولیس، سیکورٹی دستے اور مسلح افواج کی پرورش شہریوں کے ٹیکس سے ہوتی ہے اور ان کا مقصد شہریوں کو ممکنہ تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے لیکن ناگالینڈ کا حالیہ واقعہ اور اس سے قبل سیکڑوں واقعات اس کے برعکس نتائج بتارہے ہیں، اب ضرورت ہے کہ باقاعدہ ایوان میں بحث کی جائے اور عوام کی مکمل تائید کے مطابق ہی مسلح افواج(استحقاق) ایکٹ 1958 کی مدت میں توسیع یا ترمیم کی جائے، اس کے ساتھ ہی متعلقہ ریاستوں میں عوام کے بڑھتے ہوئے غم و غصہ سے چوکنا رہنے کی بھی ضرورت ہے ۔کہیں ایسا نہ ہوکہ اس قانون کے خلاف ان کا غم و غصہ علیحدگی پسندی کی شکل اختیار کرجائے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS