ہندو معاشرتی قوانین کا سب سے اہم ماخذ ’ منوسمرتی‘ ایک بار پھر بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ اس بحث کا تازہ باب دہلی یونیورسٹی نے کھولا ہے۔یونیورسٹی کی لا فیکلٹی اپنے گریجویٹ پروگرام میں نیائے شاستر (قانونی طریقہ) کے عنوان سے مقالے کے تحت قدیم سنسکرت متن منوسمرتی کو شامل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ دہلی یونیورسٹی میں اس سلسلے میں مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ نظرثانی شدہ نصاب کو اگست کے تعلیمی سیشن سے نافذ کرنے کا فیصلہ کل جمعہ 12 جولائی کودہلی یونیورسٹی کی اکیڈمک کونسل کے سامنے رکھا جائے گا۔اس سے پہلے اس کاساراہوم ورک کیاجاچکاہے۔ اطلاعات کے مطابق ایل ایل بی سمسٹرI کے یونٹV کیلئے اس تجویز کردہ نصاب کا متن براہ راست منوسمرتی کے ساتھ ساتھ جی این جھا کی لکھی ہوئی ’میدھاتیتھی‘ سے پڑھایاجانا ہے۔فیکلٹی آف لا کی ڈین پروفیسر انجو ولی ٹکو کاکہنا ہے کہ یہ نیا نصاب منوسمرتی نئی تعلیمی پالیسی 2020 کے مطابق متعارف کرایا جارہاہے تاکہ تعلیم میں ہندوستانی نقطہ نظر کو پیش کیا جا سکے۔
ان ہی سطور میںچند ماہ قبل نئی تعلیمی پالیسی کے مضمرات کا جائزہ لیتے ہوئے جن خدشات کا اظہارکیاگیا تھا، ان میں تعلیم کے ’ قدیم ہندوستانی نقطہ نظر ‘ کو جدید ہندوستان کی تشکیل میں سب سے بڑی رکاوٹ بتاتے ہوئے کہاگیاتھا کہ یہ نئی تعلیمی پالیسی ہندوستان کو جدیدیت کی راہ سے بھٹکاکر نام نہاد سنہرے ماضی کی بھول بھلیوں میں گم کرنے کی سازش ہے تاکہ طبقاتی تقسیم کے نظام کونافذ کرنے کی راہ میں نئے اذہان رکاوٹ نہ بن سکیں۔ یہ خدشات دھیرے دھیرے کرکے سامنے آنے لگے ہیں۔اس نئی تعلیمی پالیسی کے نفاذ کے بعد پہلے مرحلے میں سہ لسانی فارمولے کے تحت ’اردو ‘ کونکالنے کی راہ ہموار کی گئی پھر مرضی کی تاریخ پڑھانے کیلئے تاریخ اور ادب کے نصاب میں دیومالائی قصے کہانیاںشامل کی گئیں، بلبل پر سوار ہوکر منٹوں میںہزاروں کلومیٹر کا سفر طے کرنے کو ہندوستان کی ’ قدیم سائنس‘ قرار دے کر اسے شامل نصاب کیاگیا، اب طبقاتی تقسیم کو نئی نسل کیلئے قابل قبول بنانے کا آغاز کیاجارہاہے اور پہلے مرحلے میں ’ تذلیل آدم‘ کا سبق پڑھانے کیلئے ’منوسمرتی‘ کوشامل نصاب کیاجارہاہے۔
یادرہے کہ ’منو سمرتی‘ ہندو معاشرتی نظام کیلئے قوانین کا سب سے اہم ماخذ ہے جس میں معاشرہ میں تنظیم و ترتیب کیلئے ذات پات کے نظام کو لازم قرار دیتے ہوئے اس کے حق میں دلائل دیے گئے ہیں۔ذات پات کا نظام ہندوؤں کو برہمن، کھتری ‘ ویشیہ اور شودر کے چار طبقات میں تقسیم کرتا ہے۔ اس طبقاتی تقسیم میں سب سے اوپر برہمن آتے ہیں جن کا کام تعلیم، تربیت اور دماغی کاموں کی انجام دہی ہے۔ بتایاگیا ہے کہ یہ طبقہ برہما کے سر سے وجود میں آیا ہے۔اس کے بعد کھتریوں کا درجہ آتا ہے جودنیا پر حکمرانی کیلئے برہما کے بازوؤں سے وجود میں آئے ہیں۔تیسرے نمبر پر ویشیہ ہیں جن کا کام تجارت اور ملازمت ہے اوریہ برہما کی رانوں سے وجود میں آئے ہیں۔سب سے نچلا درجہ برہما کے پیروں سے وجود میں آنے والے شودرہیں جن کا مقدر اپنے بالائی طبقوں کی غلامی ہے۔یہ اچھوت ہوتے ہیں، ان کا شمار ہندو ذات پات کے نظام سے باہر سمجھا جاتا ہے۔ ان چارطبقات میں سے پیشہ کی بنیاد پر پھر کئی ہزار مزید ذات اور ثانوی ذات سامنے آتی ہیں۔منو کے اس انتہائی رجعت پسند،متنازع اور قابل اعتراض فلسفہ کے خلاف ہندوستان میںآزادی کے فوراً بعد سے ہی احتجاج اور تحریک شروع ہوگئی تھی، ڈاکٹر امبیڈکر منوسمرتی کو برہمنیت کا بنیادی ضابطہ سمجھتے تھے، ان کا نقطہ نظر ہے کہ یہ کتاب برہمنوں کو پیدائشی طور پر برتر اور پسماندہ، دلتوں و عورتوں کو پیدائش کی بنیاد پر کمتر قرار دیتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ پسماندہ دلتوں اور عورتوں کا واحد فرض برہمنوں اور مردوں کی خدمت کرنا ہے۔ انسانیت کے خلاف اس فلسفہ کی جانب سے دنیا کو توجہ دلانے کیلئے 25 دسمبر1927کو اس کے مسودہ کو باقاعدہ نذر آتش کیا گیا تھا۔
تکریم انسانیت کے اولوہی ضابطوں کی دھجیاں اڑانے اور ایک مخصوص طبقہ کیلئے حق حکمرانی اور حق دولت کو معاشرہ کی ترتیب و تنظیم سمجھنے والی اس اسمرتی کا ہندوستان کے تعلیمی نصاب میںشامل کیاجانا نہ صرف ملکی آئین کے خلاف ہے بلکہ دنیا بھر میںہندوستان کی ذلت و رسوائی کا سبب بھی بنے گا۔ یہی وجہ ہے کہ دہلی یونیورسٹی میں اساتذہ کی قابل لحاظ تعداد اس کی مخالفت کررہی ہے۔دہلی یونیورسٹی کے کئی اساتذہ کا کہنا ہے کہ ملک کی 85 فیصد آبادی پسماندہ لوگوں پر مشتمل ہے اور 50 فیصد آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔ ان کی ترقی کا انحصار ترقی پسند نظام تعلیم اور تدریس پر ہے۔ منوسمرتی کے کئی حصوں میں خواتین کی تعلیم اور مساوی حقوق کی مخالفت کی گئی ہے۔ منوسمرتی کے کسی بھی حصے یا حصے کا تعارف ہمارے آئین کے بنیادی ڈھانچے اور ہندوستانی آئین کے اصولوں کے خلاف ہے۔ اس سلسلے میںسوشل ڈیموکریٹک ٹیچرس فرنٹ نے دہلی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو ایک خط بھی لکھا ہے جس میں طلبا کو منوسمرتی پڑھائے جانے کو قابل اعتراض قرار دیتے ہوئے نصاب حذف کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
آج کے ہندوستان میں طلبا کو ذات پات اور صنفی جبر کا ذریعہ سمجھی جانے والی ’ منوسمرتی ‘ کی نہیں بلکہ انسانیت اور جمہوریت کے بنیادی فلسفہ کی تشریح و توضیح کرنے والے نصاب کی ضرورت ہے تاکہ انسان کو انسان کا درجہ حاصل ہو، چاہے وہ برہمن ہو یا دلت یا پھر مسلمان!
[email protected]
دہلی یونیورسٹی اور تذلیل آدم کا سبق!
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS