دہلی: جامعہ ملیہ اسلامیہ کی جانب سے 19واں پروفیسر ہادی حسن یادگاری ویبینار کا انعقاد

0

نئی دہلی: آج بروز بدھ شعبہ فارسی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کی جانب سے 19واں پروفیسر ہادی حسن یادگاری خطبہ (ویبینار) کا انعقاد زوم کے ذریعے صبح 11 بجے عمل میں آیا۔ جس کا آغاز جامعہ کی تہذیب کے مطابق تلاوت کلام پاک سے ڈاکٹر یاسر عباس نے کیا۔ پروفیسر عبد الحلیم، سابق صدر شعبہ فارسی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ نے استقبالیہ خطبہ میں پروفیسر ہادی حسن کو یاد کرتے ہوئے ان کی زندگی، کرشماتی شخصیت، علم وزبان و ادب کے بے بہا خدمات اور جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ان کے تعلقات کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر ہادی حسن اپنے علمی کارناموں کی وجہ سےہمیشہ فارسی زبان و ادب کی خدمت کرنے والوں کے لئے مشعل راہ  رہیں گے۔ مزید ویبینار میں شرکاء کا استقبال کیا۔
پروفیسر علیم اشرف خان، سابق صدر شعبہ فارسی، دہلی یونیورسٹی، دہلی نے اپنے خطبہ میں چشتی صوفیا:خدمات و تعلیمات کے عنوان کے تحت گفتگو کی ۔ جس میں انہوں نے 3 مشاہیر صوفیا میں حضرت معین الدین چشتی اجمیری، حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی اور حضرت نظام الدین اولیاء کی خدمات اور تعلیمات سے روشناس کرایا۔ انہوں نے کہا کہ چشتی تعلیمات قرآن و احادیث نبوی کی سادہ اور عام فہم زبان میں بیان ارشادات ہیں جو مختلف مشاہیر چشتی صوفیا نے دی ہیں ۔
اس ویبینار کے مہمان خصوصی پروفیسر  عزیز الدین ہمدانی، سابق ڈین فیکلٹی آف ہومیونیتیز اینڈ لیگویجز ، جامعہ ملیہ اسلامیہ نے کہا کہ صوفیا نے دنیا اور ہندوستان میں اولیاء اللہ کے مخلوق خدا کے نظریہ کو آگے بڑھایا۔ غریب لوگوں کی مدد کی۔ دوسری ایک اہم چیز جو حضرت نظام الدین اولیاء کے دور میں ہوئی ویہ کہ  منگول دہلی میں آئے اور علاء الدین خلجی سیری فورٹ چھوڑ کرپہاڑی کی طرف چلا گیا۔ منگول کئ مہینے دہلی میں رہے لیکن امیر خسرو کے کلام میں اور برنی کی تاریخ فیروزشاہی میں دہلی میں قتل و غارت کا کوئی حوالہ نہیں ملتا۔ اس کے برعکس برنی نے لکھا ہے کہ گیہوں اور چاول علاء الدین کے نرخ ، کم نرخ پر منگولوں نے دہلی کی عوام کو بیچے۔ یہ وہ منگول تھے جنہوں نے سینٹرل ایشیاء اور لاہور و ملتان میں قتل بھی کیا اور لوٹا بھی۔ اگر دہلی منگولوں کی بربریت سے محفوظ رہی تو اس کو ہم حضرت نظام الدین اولیاء کی کرامت کہہ سکتے ہیں۔
اس ویبینار کے صدر پروفیسر عراق رضا زیدی ، صدر شعبہ فارسی، جامعہ ملیہ اسلامیہ نے اپنے صدارتی خطبہ میں صوفیا حضرات کی حملہ ور فوج کے ساتھ رہنے کے باوجود ریڈ کراس کے تصور کی بات کی کہ یہ صوفیا دونوں جانب کے زخمی فوجیوں کی تیمارداری ، مرہم پٹی کرتے تھے ۔ گویا اس وقت ریڈ کراس کی بنیاد رکھ چکے تھے ۔ یہ بھی بتایا کہ چشتی سلسلے کے جتنے نام  یکی بعد دیگرے مثلا عثمان ہارونی، خواجہ معین الدین چشتی، خواجہ بختیار کاکی، بابا گنج شکر فرید، حضرت نظام الدین اولیاء و بدر الدین اسحٰق، چراغ دہلوی، بندہ نواز گیسودراز وغیرہ سات پشتوں کے نام مشہور و معروف ہیں ۔ اتنے نام کسی سلسلے میں معروف نظر نہیں آتے حالانکہ ہندوستان میں  پیری مریدی کا آغاز قادری سلسلے کے صوفی ابوالفرح واسطی نے کیا تھا۔
آخر میں اس ویبینار کے کنوینر ڈاکٹر سید کلیم اصغر، سینئر اسسٹینٹ پروفیسر، شعبہ فارسی جامعہ ملیہ اسلامیہ نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔اس ویبینار میں شرکاء میں پروفیسر محمد صابر (پنجاب یونیورسٹی،لاہور، پاکستان)،پروفیسر فرحت نسرین(شعبہ تاریخ جامعہ  ملیہ اسلامیہ)،پروفیسر اشتیاق (جے این یو) ڈاکٹر شکیل (کلکتہ)، ڈاکٹر زین العبا( پنجاب)، ڈاکٹر محسن علی، ڈاکٹر زہرا خاتون ڈاکٹر ملک سلیم جاوید، ڈاکٹر شاداب تبسم، ڈاکٹر ساجد مبین،  ڈاکٹرمحمد رضوان(حیدرآباد) ، ڈاکٹر انجم ضیاء الدین تاجی امراوتی، ڈاکٹر راجن بھسین، ڈاکٹر ایم وائی جمیل، ڈاکٹر یحیٰ جمال امراوتی،  ڈاکٹر تمنا، ڈاکٹر حسین الزمان، ڈاکٹر یاسر عباس، ڈاکٹر ابوالکلام، ڈاکٹر ثناء خان، ڈاکٹر رضیہ،  وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS