انصاف میں تاخیر انصاف سے محروم کرنا ہے

0

نیلم مہاجن سنگھ

انصاف میں تاخیر انصاف سے محروم کرنا ہے۔ ایک سے زیادہ بار یہ دیکھا گیا ہے کہ عدالتوں کو بنیادی انصاف کی فراہمی میں بھی برسوں لگ جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سابق جج، جسٹس دیپک گپتا نے کہا ہے، ’’عدلیہ دولت مند اور طاقتور لوگوں کی جانب جھکی ہوئی ہے۔‘‘ سپریم کورٹ کے جج جسٹس ڈی۔وائی۔چندرچوڑ نے کہا ہے کہ کورٹ میں آنا پہلا متبادل نہیں ہونا چاہیے۔ معاشرے میں عزم اور ایڈجسٹمنٹ اہم ہے۔ تاہم، یہ دیکھا گیا ہے کہ پولیس جلدبازی میں ایف آئی آر درج کرنے کے لیے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتی ہے۔ مظلوموں کو انصاف دینے کے بجائے، ملزمان کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ غریبوں کے لیے مقدمہ بازی میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہندوستان کے چیف جسٹس، جسٹس این وی رمنا نے کہا ہے کہ جوڈیشلز ٹرائلز میں انصاف سے انکار کرتی ہے۔ عدالتیں ایک برے خواب کی طرح ہیں۔ میں نے کہا ہے کہ عدالتیں ہی راحتی ادارے بن گئی ہیں، کیونکہ ایگزیکٹو اپنا کام ٹھیک سے نہیں کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کو عدالتوں میں انصاف حاصل کرنے کے لیے بہت کم اعتماد ہے۔ یہ افسوسناک ہے کہ تحقیقات کو مکمل ہونے میں اتنا طویل وقت لگتا ہے۔ کئی بار بے قصور لوگوں کو جھوٹا پھنسایا جاتا ہے جس سے ان کے انسانی اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ تب تک ان کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے، خاندان منتشر ہوجاتا ہے اور سماجی طور پر بدنامی ہوتی ہے۔2015میں چنڈی گڑھ کے سیکٹر 27میں عالمی شوٹر ’سپی سدھو‘ کے قتل کا معاملہ؛ جسٹس سبینا سنگھ، ہماچل پردیش ہائی کورٹ کی سٹنگ جج کی مشتبہ بیٹی کے ذریعہ ،سی بی آئی نے قتل کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ کیا قتل کا مقدمہ ’اَن ٹریسڈ‘ ہونا چاہیے؟ کلیانی سنگھ پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے فورینسک اور صورتحال کی بنیاد پر پیدا ہونے والے ثبوت کافی ہیں۔ مشتبہ شخص کو قانون کے دائرہ میں لایا جانا چاہیے۔ جس ملک میں قاتل بے خوف گھوم رہے ہیں اور بے گناہ جیلوں میں بند ہیں، وہاں بھگوان بچائیں! عدالتی نظام کے پاس جواب دینے کے لیے بہت کچھ ہے۔ طاقتور سیاستداں، بیوروکریٹس، تاجروں کے بچے، جو مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں، انہیں تحفظ کیوں فراہم کیا جاتا ہے؟ کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ہے یا کارروائی اتنی ہلکی ہوتی ہے کہ یہ جرم کی شدت کے مطابق نہیں ہوتی ہے۔ یہ مجھے پریہ درشنی مٹو کے قتل کی یاد دلاتا ہے، جو 25سالہ قانون کی طالبہ تھی،وہ 23جنوری1996کو نئی دہلی میں اپنے گھر میں مردہ پائی گئی تھی۔ 17؍اکتوبر2006 کو دہلی ہائی کورٹ نے سنتوش کمار سنگھ کو عصمت دری اور قتل دونوں معاملات میں قصوروار ٹھہرایا اور اسے موت کی سزا سنائی گئی۔ وہ ایک آئی پی ایس افسر کا بیٹا ہے۔ ہم شاید سیاستداں سشیل شرما کے ذریعہ نینا ساہنی کے قتل کے بارے میں بھول گئے ہیں، جسے ’تندور قتل معاملہ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ شکیرے خلیلی کا، اس کے عاشق نے قتل کردیا تھا۔ نتیش کٹارا کا قتل، طاقتور سیاسی ڈان ڈی پی یادو کے بیٹوں کے ذریعہ کیا گیا، کیونکہ ان کی بہن بھارتی یادو کے نتیش کٹارا سے تعلقات تھے۔ اس کی لاش کچرے کے تالاب سے ملی تھی۔ یہ ان کی والدہ نیلم کٹارا ہی ہیں جنہوں نے اپنے مقتول بیٹے کو انصاف دلانے کے لیے تنہا جدوجہد کی۔ جیسیکا لال کا کیس بھی بند کر دیا گیا کیونکہ بینا رمانی نے عدالت میں مثبت بیان نہیں دیا۔ منو شرما؛ سیاستداں ونود شرما کے بیٹے کو عمرقید کی سزا سنائی گئی۔ ایڈووکیٹ اور قومی سطح کے شوٹر سکھ من پریت سنگھ سدھو عرف سپی سدھو کے سنسنی خیز قتل کے سات سال بعد مرکزی تفتیشی بیورو نے اہم ملزم کلیانی سنگھ کو گرفتار کیا ہے۔ کلیانی سنگھ، ہماچل پردیش ہائی کورٹ کی جج، جسٹس سبینا کی بیٹی ہیں۔ اگرچہ یہ گرفتاری کئی سال پر محیط طویل تفتیش کا نتیجہ ہے، وہیں کلیانی سنگھ کئی سالوں سے سی بی آئی کے رڈار پر تھی۔ موت کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ بات سامنے آئی تھی کہ سپی سدھو کے قاتل کے ساتھ ایک عورت بھی تھی۔ سی بی آئی کو گرفتاری میں6سال کیوں لگے؟ اور کون ہیں کلیانی سنگھ؟2015 میں سپی سدھو کا قتل،ایک قومی سطح کے شوٹر اور پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے سابق جج، جسٹس ایس ایس سدھو کے پوتے کو قتل کر دیا گیاتھا۔ اس کی گولیوں سے چھلنی لاش 20 ستمبر 2015 کی رات سیکٹر-27،چنڈی گڑھ کے ایک پارک میں ملی تھی۔ اس قتل سے شوٹنگ برادری صدمہ میں تھی۔ ’’یہ قتل کا معاملہ تھا اور پولیس اس کی تحقیقات کر رہی ہے۔ اس کی لاش اتوار کی رات تقریباً11 بجے سیکٹر-27کے پارک میں ملی تھی۔ غالباًرات تقریباً 10.15 بجے اس کو گولی مار کر قتل کردیا گیا تھا۔ اس کے جسم پر دو یا تین گولیاں لگی تھیں‘‘، چنڈی گڑھ کے ایس ایس پی سکھ چین سنگھ گل نے اشارے دیے تھے۔ جنوری 2016 میں، سی بی آئی نے پنجاب کے گورنر کی مداخلت کے بعد جانچ اپنے ہاتھ میں لے لی، جو چنڈی گڑھ یوٹی ایڈمنسٹریٹر کے طور پر کام کررہے ہیں۔ کلیانی سنگھ، جو اس وقت ایک اہم مشتبہ تھی، سے مبینہ طور پر چنڈی گڑھ پولیس نے دو بار پوچھ تاچھ کی اور اس کی ویڈیو گرافی بھی کی گئی۔ سی بی آئی نے سراغ دینے والوں کو5لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا تھا۔ سی بی آئی نے کیس سنبھالنے کے بعد، 2017میں، اس معاملے پر ایک اشتہار میں اشارہ کیا کہ ایجنسی کے پاس یہ ماننے کی وجوہات تھیں کہ ’’قتل کے وقت ایک عورت سپی کے قاتل کے ساتھ تھی۔ مذکورہ عورت کو بھی آنے کا موقع دیا جارہا ہے۔‘‘اشتہار میں کہا گیا ہے، ’’اگر وہ بے قصور ہے تو ہم سے رابطہ کرے۔ ورنہ یہ سمجھ لیا جائے گا کہ وہ اس جرم میں فریق تھی۔‘‘2020میں سی بی آئی نے ایک ’’اَن ٹریسڈ رپورٹ‘‘ دائر کی، جس میں کہا گیا تھا کہ اس کے پاس کلیانی سنگھ کے خلاف چارج شیٹ دائر کرنے کے لیے کافی ثبوت نہیں ہیں۔ حالانکہ، رپورٹ نے ’’اس پر انتہائی شک‘‘کی وجہ سے تحقیقات جاری رکھنے کی اجازت مانگی۔ اب کلیانی سنگھ کو سی بی آئی نے گرفتار کر لیا ہے اور وہ پولیس ریمانڈ میں ہے۔ سی بی آئی نے اشارہ دیا کہ کلیانی سنگھ سپی سدھو سے شادی کرنا چاہتی تھی، لیکن اس کی تجویز کو سپی سدھو کے والدین نے مسترد کر دیا۔ آنجہانی شوٹر نے کچھ ’شرمناک تصویریں‘ بھی اپنے والدین کو لیک کردیں، جن میں دیگر مردوں کے ساتھ کلیانی سنگھ قابل اعتراض حالت میں تھی۔ سی بی آئی نے عدالت کو بتایا ’’وہ دوسرے مردوں کے ساتھ تعلقات میں بھی ملوث تھی۔‘‘ کلیانی نے سدھو کے قتل سے دو دن پہلے دوسرے لوگوں کے موبائل سے رابطہ کیا اور اسے ایک پارک میں اس سے ملنے کے لیے مجبور کیا، جہاں اس کی لاش ملی تھی۔ سی بی آئی نے کہا،’’تفتیش میں آگے انکشاف ہوا ہے کہ ایک نامعلوم حملہ آور اور کلیانی سنگھ نے سپی سدھو کو آتشیں اسلحے کا استعمال کرکے قتل کردیا۔ اس کے بعد دونوں کو موقع سے بھاگتے ہوئے دیکھا گیاہے۔‘‘ معاملہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ’ڈاکیومینٹری مٹیریل‘ سامنے آنے کے بعد ایجنسی نے کلیانی سنگھ کو پوچھ تاچھ کے دوران، اپنے جوابات میں مبینہ طور پر ٹال مٹول کرتے دیکھا، جس کے بعد سی بی آئی نے اسے گرفتار کرلیا۔ اسے اسپیشل جوڈیشل مجسٹریٹ، چنڈی گڑھ کی عدالت میں پیش کیا گیا اور پولیس حراست میں بھیج دیا گیا ہے۔ سکھ من پریت سنگھ سدھو کے پریشان خاندان کو اب ’سپی سدھو کو انصاف‘ ملنے کی امید کی کرن نظر آرہی ہے۔ انصاف اور شفافیت کے حق میں جسٹس سبینا سنگھ کو استعفیٰ دینے یا چھٹی پر جانے کے لیے کہا جانا چاہیے، کیونکہ یہ پہلا معاملہ ہے جس میں ہائی کورٹ کے جج کی بیٹی قتل کے معاملہ میں ملوث ہے۔ یہ اس مضمون کی تصدیق کرتا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کیسے عدالتی نظام کو امیر اور طاقتور کے حق میں ردوبدل کیا جاتا ہے۔ سچائی کی جیت ہونے دو۔ستیہ میو جیتے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی، مصنفہ، انسانی حقوق کے تحفظ کی سالیسٹراور انسان دوست ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS