ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
شمالی افریقہ میں واقع مسلم ملک تونس بڑی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ جغرافیائی اعتبار سے یہ دنیا کے ایسے خطہ میں موجود ہے جہاں سے مغربی دنیا کی دوری بہت کم ہے اور اسی لئے اس کے بارے میں بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ مشرقی و اسلامی تہذیب کے نقطۂ اختتام اور مغربی و عیسائی تہذیب کے نقطۂ آغاز پر یہ ملک قائم ہے۔ اس کے مغرب اور جنوب مغرب میں الجیریا، جنوب مشرق میں لیبیا اور اس کے شمال اور مشرق میں بحیرۂ روم واقع ہے۔ مؤرخین کا اس بات پر تقریباً اتفاق ہے کہ مغربی تہذیب کے ارتقاء میں اس ملک نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ آج بھی اس کے اثرات واضح طور پر یہاں اس اعتبار سے نظر آتے ہیں کہ اس کا شمالی حصہ بری طرح مغرب زدہ ہے جبکہ جنوبی حصہ میں اسلامی تشخص کی چھاپ نظر آتی ہے۔ سترھویں صدی کے آغاز میں یہ ملک خلافت عثمانیہ کے زیر انتظام آ گیا تھا لیکن اس کو مکمل خود مختاری حاصل تھی۔ اس کے بعد 1881 میں تونس فرانسیسی استعمار کے قبضہ میں چلا گیا اور 1956 تک فرانس کے زیر تسلط ہی رہا۔ 1956 میں جب تونس نے آزادی حاصل کی تو حسن بورقیبہ اس کے پہلے وزیر اعظم بنے۔ حسن بورقیبہ کے عہد حکمرانی میں تونس پوری طرح مغربی تہذیب کی گرفت میں رہا۔ سیاسی اعتبار سے گرچہ تونس کو 1957 میں ریپبلک قرار دیا گیا تھا لیکن بورقیبہ نے اس ملک کو ایک ڈکٹیٹر کے طور پر ہی چلایا۔ انہوں نے فرانس کے نظام سیاست و اقتصاد کو تونس میں صرف جاری و ساری ہی نہیں رکھا بلکہ مغربی تہذیب کی تمام آلائشوں کو بھی تونس کے سماج میں پوری قوت کے ساتھ نافذ کیا۔ بورقیبہ کے عہد میں اقتصادی مسائل کے علاوہ فحاشی و بے حیائی کا عنصر اس قدر غالب تھا کہ گمان سے باہر ہے۔ اس کا اندازہ پہلی بار مجھے دوحہ میں اس وقت ہوا جب میری ملاقات ایک تونسی ٹیکسی ڈرائیور سے ہوئی۔ تھوڑی دیر کی گفتگو کے بعد اس نے تونسی سماج خاص طور سے بورقیبہ کے عہد حکومت کی خرابیوں کو بیان کرنا شروع کیا۔ بات کرتے وقت اس کی آواز میں غصہ اور بے بسی کے ساتھ ساتھ اسلامی غیرت کا عنصر صاف جھلک رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ بورقیبہ نے اپنے دور حکومت میں فحاشی کو اس قدر عام کر دیا تھا کہ ایک پیشہ ور دوشیزہ کی آبرو کی قیمت چکن کے گوشت سے بھی زیادہ ارزاں ہوگئی تھی۔ گویا تونس کی حالت قتصادی، سماجی اور سیاسی اعتبار سے قابل ترس تھی جو زین العابدین بن علی کے عہد میں مزید بدتر ہوگئی۔ بہر کیف تونس کی طویل تاریخ پر گفتگو اس وقت خارج از امکان ہے۔ بس ایک سرسری جائزہ اس لئے پیش کیا گیا تاکہ قاری کو اندازہ رہے کہ جب 17 دسمبر 2010 کو ایک سبزی فروش تونسی نوجوان محمد بوعزیزی نے پولیس کرپشن کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے خود کو نذر آتش کر دیا تھا تو پورا تونس ہی نہیں بلکہ عرب کے بیشتر ممالک میں عوام کیوں سڑکوں پر اتر آئے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے کئی مطلق العنان حکمرانوں کو اپنے عہدوں سے معزول ہونا پڑا تھا۔ محمد بوعزیزی نے گرچہ 4 جنوری 2011 کو دم توڑ دیا تھا لیکن اس کی موت رائیگاں نہیں گئی۔ بوعزیزی کے مظلوم جسم سے نکلنے والی آگ آتش فشاں بن کر پھیلی اور پھیلتے پھیلتے تقریباً پورے عالم عربی کو اپنی چپیٹ میں لے لیا۔
برسوں سے کرپشن، بے روزگاری، سیاسی تعطل اور سماجی مسائل کے درد سے پریشان عوام کا غصہ تونس سے شروع ہوکر مصر، لیبیا، بحرین، شام اور یمن تک پہنچ گیا۔ عرب عوام کے اس غصہ کا نام’عرب بہاریہ‘یا عرب اسپرنگ دیا گیا۔ خود تونس میں زین العابدین بن علی کی تئیس سالہ حکومت ختم ہوگئی اور اسے بھاگ کر سعودی عرب میں پناہ گزیں ہونا پڑا۔ تیس برسوں سے مصر کے سیاہ و سفید کے مالک بنے حسنی مبارک کو اپنی کرسی گنوانی پڑی اور معمر قذافی کو بے دردی سے ختم کر دیا گیا۔ مصر و تونس ہر جگہ عوام نے اپنا اعتماد اسلام پسند جماعت اخوان المسلمین پر ظاہر کیا اور انہیں دونوں جگہوں پر حکومت میں بٹھایا گیا۔ لیکن ایک طرف حکومت چلانے کا تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے اور دوسری طرف امریکی سازش کے نتیجہ میں مصر میں محمد مرسی کی قیادت والی اخوانی حکومت کو ناکام بنا دیا گیا اور ان کے حامیوں کو پس زنداں ڈال کر ان سے سخت انتقام لیا گیا جس کا سلسلہ آج بھی مصر میں جاری ہے۔ البتہ تونس کے عوام کی قسمت اس ناحیہ سے بہتر تھی کہ وہاں نسبتا جمہوریت کو استحکام نصیب ہوا۔ لگاتار انتخابات منعقد ہوتے رہے اور حکومت سازی میں رکاوٹیں پیش نہیں آئیں۔ عرب بہاریہ کے بعد جو سب سے پہلا انتخاب منعقد ہوا تھا اس میں اخوانی فکر کی سیاسی جماعت النھضہ پارٹی کو بڑی کامیابی ملی تھی۔ 2014 میں نیا دستور بھی تیار ہوگیا تھا جس کے تحت تونس کو ایک جمہوری ملک کے طور پر چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ عرب بہاریہ کے بعد منتخب ہونے والی حکومتوں نے عوام کے مسائل کو حل کر دیا اور جن مشکلات کے پیش نظر عوامی تحریک شروع کی گئی تھی ان کا ازالہ ہوگیا۔ البتہ اس حقیقت سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا کہ تونس نے دیگر عرب ممالک کے مقابلہ میں بہتر کردار کیا تھا اور یہ امید ظاہر کی جا رہی تھی کہ جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا ویسے ویسے دستوری جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوتی جائیں گی۔ لیکن اس امید پر اس وقت پانی پھر گیا جب جولائی 2021 میں تونس کے نو منتخب صدر قیس سعید نے جمہوریت کی ساری راہیں ہی مسدود کر دیں۔ انہوں نے منتخب پارلیمنٹ کو تحلیل کر کے عوام کے ذریعہ منتخب حکومت کی صلاحیتیں ختم کر دیں اور تمام اختیارات اپنے قبضہ میں کر لئے۔ تب سے آج تک تونس میں ایک کشمکش جاری ہے۔ صدر قیس سعید کا دعوی ہے کہ تونس کو جن سیاسی، اقتصادی اور سماجی چیلنجز کا سامنا ہے ان کے پیش نظر منتخب سیاسی لیڈران پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ ملک سے زیادہ اپنے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہیں اور ان کا دامن کرپشن کی آلائشوں سے داغ دار ہے۔ لیکن قیس سعید کے اس اقدام کی سخت مخالفت ملکی اور بین الاقوامی پیمانہ پر کی گئی ہے۔ تونس کی اپوزیشن پارٹیوں کے علاوہ امریکہ اور یورپین یونین نے بھی بار بار یہ مشورہ دیا ہے کہ قیس سعید پہلے پارلیمنٹ کو بحال کریں اور تمام اپوزیشن پارٹیوں اور مزدور یونین کے ذمہ داروں کے ساتھ صحت مند گفتگو کا راستہ کھولیں تاکہ تونس کو درپیش اقتصادی و سیاسی مسائل کو مشترکہ طور پر حل کیا جا سکے۔ اب تک بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ قیس سعید پر کسی بات کا اثر نہیں ہوا ہے۔ پارلیمنٹ کو بحال کرنے اور اپوزیشن پارٹی کے لیڈران سے گفتگو کا سلسلہ شروع کرنا تو دور کی بات ہے انہوں نے اپنے موقف میں مزید سختی پیدا کرتے ہوئے تونس کی مضبوط مزدور یونینوں اور عدالت کے ججوں کو بھی اپنا دشمن بنا لیا ہے۔
صدر کے اس موقف کے خلاف اپوزیشن پارٹیوں، مزدور یونین کی قیادتوں اور ججوں نے ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ ججوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہڑتال کا اعلان اس لئے کیا ہے کیونکہ ان پر 120 ممبران پارلیمنٹ کے خلاف غیر دستوری ڈھنگ سے کارروائی کرنے کا دباؤ تھا۔ قیس سعید نے تونس کو جس سیاسی اور اقتصادی بحران سے نکالنے کا وعدہ کرتے ہوئے منتخب حکومت کی صلاحیت کو ختم کر دیا تھا اس میں وہ ناکام رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ کو تحلیل کرکے جس طرح سے منتخب عوامی نمائندگان کو ہراساں کیا جا رہا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی نیت صاف نہیں ہے۔ وہ زین العابدین بن علی کے عہد کے ڈکٹیٹرشپ کو واپس لانا چاہتے ہیں کیونکہ ان پر الزام ہے کہ وہ 2014 کے دستور میں ترمیم کرکے تونس کو پارلیمانی نظام سے بدل کر صدارتی نظام میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ اس مشکل سیاسی بحران کی وجہ سے ایک بڑا مسئلہ یہ پیدا ہوگیا ہے کہ تونس اپنے اقتصادی مسائل کو حل کرنے کے لئے اب تک آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے بات چیت نہیں کر پایا ہے اور اقتصادی بحران کا مسئلہ روز بروز گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ اس مسئلہ کا حل تبھی ممکن ہو سکتا ہے جب قیس سعید اپنے موقف میں لچک پیدا کریں اور تمام لیڈران اور جمہوری اداروں کے سامنے دستور کے مطابق کام کرنے کی راہ ہموار کریں۔ تونس کے عوام گزشتہ کئی دہائیوں سے جن مسائل سے دوچار ہیں ان کو مزید نظر انداز کرنا حکمت کے خلاف ہوگا۔ ورنہ اس بات کا خطرہ منڈلا رہا ہے کہ کہیں عرب بہاریہ کا دوسرا مرحلہ تونس میں پھر سے شروع نہ ہوجائے۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں