ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
فلسطین کے عوام کی لڑائی حق و انصاف کے لئے ہے۔ ان کی قربانیاں گرچہ بہت زیادہ اور نارمل حالات میں زندگی گزارنے والے عام انسانوں کے معیار سے بہت بلند ہیں، لیکن ان کا مقابلہ جس دشمن کے ساتھ ہے اس کے مقابلہ میں یہ قربانیاں کچھ زیادہ نہیں ہیں۔ باقی دنیا کے لوگ خواہ اس حقیقت کو سمجھیں یا نہ سمجھیں لیکن گزشتہ 75 برسوں سے فلسطین میں ہر روز جنگ کی کیفیت میں جینے والے لوگ جانتے ہیں کہ انہیں کمزور پڑنے یا مایوس ہونے کی اجازت خود ان کا ضمیر نہیں دے گا کیونکہ انہیں اس حقیقت کا خوب اندازہ ہے کہ وہ جس صہیونی دشمن کے خلاف نبرد آزما ہیں اس کو کہاں سے حمایت ملتی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ چونکہ پورا مغربی خیمہ صہیونی اور استعماری پالیسیوں کے نفاذ کے لئے اسرائیل کی پشت پناہی کر رہا ہے اس لئے یہ جنگ آسان نہیں ہوگی۔ اس کے علاوہ اہل فلسطین یہ بھی جانتے ہیں کہ اس عہد میں خالقِ کائنات کی طرف سے ان پر ایک عظیم ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ انبیاء و صلحاء کی پاک سر زمین فلسطین اور اس پر موجود قبلہ اول کی حفاظت ہر قیمت پر کریں تاکہ باطل پرستوں کو یہ غلط فہمی نہ پیدا ہوجائے کہ حق کا کوئی حامی میدان میں مقابلہ کے لئے موجود نہیں ہے۔ یہ ذمہ داری کمزور کاندھوں پر نہیں ڈالی جا سکتی تھی۔ اس کے لئے ضروری تھا کہ اس امت میں سے وہی جماعت آگے بڑھ کر اس کا عَلَم اپنے ہاتھ میں اٹھائے جو قرآن کی اس تعبیر کے عین مطابق ہو جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اگر قرآن کو پہاڑوں پر نازل کیا جا تا تو وہ بھی اس پیغام کے بوجھ سے ریزہ ریزہ ہوجاتا، لیکن ایک مومنِ کامل کا دل اپنے رب کے حکم سے اس قدر مضبوط ہوتا ہے کہ وہ کبھی مایوس نہیں ہوتا اور نہ ہی میدان میں سپر انداز ہوکر الٰہی پیغام کی عظمت کو رسوا کرتا ہے۔ عرش عظیم کے مالک نے یہ ذمہ داری تمام عرب اور مسلمانوں کو عطا کی تھی لیکن انہوں نے اس میں کوتاہی کی اور اسی لئے خدا کے انعامات سے بھی محروم ہوگئے۔ اس کا واضح نتیجہ یہ سامنے آیا کہ آج سارے مادی وسائل سے لیس ہونے کے باوجود وہ بے قیمت ہوگئے اور ان کی ہوا اکھڑ گئی کیونکہ انہوں نے اس پیغام کو ہی پس پشت ڈال دیا جس میں ان کی عزت و عظمت کا راز پوشیدہ تھا۔ اس کے برعکس جس عہد میں وہ نانِ شبینہ کے لئے محتاج رہتے تھے اور شکم سیر ہوکر کھانے پینے سے بھی محروم تھے، لیکن ان کا دل و دماغ احکام الٰہی کی پیروی کے جذبہ سے سرشار ہوتا تھا اس عہد میں ان کے سامنے نہ تو روم کی عظمت باقی رہ سکی اور نہ ہی یونان و فارس کا سکہ اپنی قیمت ان کے مقابلہ میں قائم رکھ سکا۔ سب کے سب ان کے ایمان کی بلندی کے سامنے بونے نظر آنے لگے۔ یونان، روم و فارس کے وہ تخت و تاج جو کبھی سونے اور جواہرات سے مرصع ہوتے تھے اور دیکھنے والوں پر گہرا اثر ڈالتے تھے جب اہل ایمان کے سامنے سرنگوں ہوکر پیش ہوئے تو عرب کے صحراؤں کی گرد سے زیادہ ان کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ گئی۔ عربوں نے صرف ان زمینوں کو ہی فتح نہیں کیا بلکہ وہاں بسنے والوں کے سینوں کو بھی اپنے ایمان کی روشنی سے منور کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے خدا کی ساری کی ساری بستی نورِ الٰہی سے جگمگا اٹھی۔ آج بھی فلسطین میں جو جماعت خدا کے پیغام کو سینہ سے لگا کر مسجد اقصی کی حفاظت کر رہی ہے ان کی قیادت میں شہداء کی تعداد تو ہر روز بڑھ رہی ہے، لیکن ان کے پائے ثبات میں کوئی تزلزل پیدا نہیں ہو رہا ہے۔ عام فلسطینی انسانوں نے بھی فرعونِ مصر کے دربار سے آزادی پانے والے یہودیوں کی طرح اپنے ہی قائد و رہبر سے یہ کہنا شروع نہیں کر دیا ہے کہ تم نے ہمیں کہاں پھنسا دیا؟ ہم سب مارے جائیں گے۔ بلکہ اس کے برعکس وہ شہادت کے ہر جام کے بعد یہ کہتے ہیں کہ حسبنا اللہ و نعم الوکیل۔ یہ ایمان افروز دعائیہ جملہ بتاتا ہے کہ یہ جماعت اور اس کے پیروکار آج بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت پر عمل کر رہی ہے۔ جب نمرود کو یہ خطرہ محسوس ہوا تھا کہ اس کی قوم جس بت کی پوجا کرتی ہے اور جس کی حفاظت کے بھروسہ وہ اپنے لوگوں پر حکومت کرتا رہا ہے اور اپنی قوت و اقتدار کے لئے اس سے جواز حاصل کرتا رہا ہے اس بنیاد اور اساس پر ہی تیشہ زنی ہونے لگی ہے تو نمرود نے خوف و دہشت پھیلانے کی پالیسی اختیار کی اور عوام کی نظر میں دھرم کا محافظ بننے کے لئے نبی وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال کر اپنے لوگوں کا زمینی خدا بننے کا اپنا خواب شرمندۂ تعبیر کرنا چاہا۔ اس منظر کو دیکھ کر فرشتوں کی دنیا میں ہلچل پیدا ہوگئی۔ جبرائیل نے اپنے رب سے التجا کی کہ ابراہیمؑ کو آگ سے بچانے کے لئے انتظام کیا جائے اور انہیں آگ کو بجھا دینے کا حکم دیا جائے۔ خالق کائنات جانتے تھے کہ ایک نبی ایمان و یقین کی کس بلندی پر فائز ہوتے ہیں۔ وہ اپنے رب کے سوا کسی سے امید نہیں لگاتے، لیکن جبرائیل کی بے چینی دیکھ کر عرش کے مالک نے کہا کہ جاؤ! اگر ابراہیم تمہاری مدد قبول کرے تو جاکر مدد کرو۔ جبرائیل نے آکر حضرت ابراہیمؑ سے گزارش کی کہ آپ اگر حکم دیں تو ایک لمحہ میں اس آگ کو بجھا دوں۔ حضرت ابراہیمؑ نے بس یہ پوچھا کہ بتاؤ کیا میرا رب یہ سب دیکھ رہا ہے یا نہیں؟ جبرائیل نے پورے ادب سے کہا ہے کہ ہاں وہ دیکھ رہا ہے۔ تو پھر حضرت ابراہیمؑ نے وہ تاریخی جملہ کہا جو اسلام کی تاریخ میں ہزار انقلابوں کے جنم لینے کا ذریعہ بنا ہے اور قیامت تک اس کی یہ اہمیت باقی رہے گی۔ انہوں نے فرمایا کہ اگر میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے تو پھر مجھے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں۔ یہ وہ جواب تھا جو نبوت کے عالی مقام حاملین کو ہی زیب دیتا ہے۔ اگر بڑے سے بڑا ولی بھی ہوتا تو ایک لمحہ کے لئے تاویل کرتا اور جبرائیل کی پیشکش کو قبول کرلیتا، لیکن جس طرح ایک نبی کا مقام فرشتوں سے بلند ہوتا ہے اسی طرح اس کا امتحان بھی سب سے سخت ہوتا ہے۔ انبیاؑء کی یہ بھی تاریخ رہی ہے کہ کسی نبی نے کبھی بھی اپنے رب پر ادنیٰ درجہ میں بھی شک نہیں کیا۔ اپنے رب پر ان کا اعتماد اور بھروسہ اٹل ہوتا ہے۔ اسی لئے ایک لمحہ کے لئے بھی ان میں اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کے تئیں مایوسی و ناکامی کا احساس تک پیدا نہیں ہوتا۔ حالات خواہ کتنے ہی نامساعد رہے ہوں، مسائل و مشکلات کا طوفان خواہ کتنا ہی تند رہا ہو، لیکن ان کے اندر کبھی منفی فکر کا گزر تک نہیں ہوتا۔ اہل فلسطین ابراہیم علیہ السلام کی اس سنت سے واقف ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ ابوالانبیاء کو کبھی اپنے عہد کے جبروتوں سے محاذ آرائی کرنی پڑی تھی تو کبھی ہجرت کی صعوبتیں برداشت کیں۔ بیوی اور اولاد کو خدا کے ایک حکم پر کبھی لق و دق صحرا اور بے آب و گیاہ میدان میں چھوڑ دیا تو کبھی اپنے رب کی راہ میں اولاد جیسی عظیم نعمت کی قربانی کے لئے عملی اقدام کر لیا، لیکن کسی صورت بھی اپنے رب کے پیغام پر آنچ نہیں آنے دیا۔ آج جب اہل فلسطین اپنے عہد کے جبروتوں سے لڑ رہے ہیں تو ان کے سامنے اپنے جد امجد ابراہیمؑ کی یہ ساری سنتیں آتی ہوں گی۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ لڑائی اولاد اسحاق اور اولاد اسماعیل کے درمیان نہیں بلکہ ایک طرف ابراہیمی سنت کے حاملین ہیں جو مسجد اقصیٰ کے لئے سینہ سپر کھڑے ہیں اور دوسری طرف وہ بنی صہیون ہیں جنہوں نے خدا کے پیغام کو چھوڑ دیا اور ابراہیمؑ کی سنت کو رسوا کرکے نمرود کی اتباع کرنے لگے۔ ظاہر ہے ایسی حالت میں فتح و کامرانی انجام کار اسی جماعت کو ملے گی جو سنت ابراہیمی کو نہ صرف سینے سے لگائے ہوئی ہے بلکہ اس کے لئے بھوک و پیاس کی شدت بھی برداشت کر رہی ہے اور جان و مال کا قیمتی نذرانہ بھی پیش کر رہی ہے۔ یہ جنگ جس کی ہولناکی اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے اور رمضان سے قبل جنگ بندی کی کوئی امید بھی نظر نہیں آ رہی ہے یقینا ایک سخت مرحلہ ہے۔ لیکن رمضان کا مہینہ ان مزاحمت کاروں کو جنگ بدر کی تاریخ میں پنہاں سرخ روئی و کامیابی کے ان رموز سے بھی ضرور آگاہ کر رہا ہوگا جو نئی ریاست اسلامی کے قیام کی بنیاد بنا تھا اور جہاں سے فتح و نصرت کی ایسی ابتداء ہوئی تھی جو صدیوں پر محیط رہی تھی۔ اہل فلسطین بھی ضرور پر امید ہوں گے کہ مسجد اقصیٰ کی بازیابی کا وقت قریب ہی ہے انشاء اللہ اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا وہ مقصد بھی حاصل ہوگا جس کے لئے بیشمار جانیں شہید ہوتی آ رہی ہیں۔
اس موقع پر راچیل کوری اور آرون بوشنیل جیسے ان امریکی شہریوں کو بھی خراج عقیدت پیش کیا جانا چاہئے جنہوں نے فلسطینی کاز کے لئے اپنی قربانیاں پیش کی ہیں اور امریکی و صہیونی اتحاد کے پیچھے مخفی چہرہ کو بے نقاب کیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ صرف سیاسی نہیں بلکہ انسانی مسئلہ بھی ہے اور دنیا کا ہر انصاف پسند انسان اس کی حمایت کرتا ہے خواہ وہ مغربی سامراج کے مرکز امریکہ ہی میں کیوں نہ رہتا ہو۔ فلسطین کی آزادی صرف اہل فلسطین کے لئے ہی اہمیت نہیں رکھتی ہے بلکہ تمام عالم میں ظلم و جبر سے جوجھ رہے لوگوں کی بھی یہ لڑائی ہے۔ تمام انسانوں کی آزادی اس وقت تک نامکمل ہے جب تک دنیا کا ہر مظلوم آزادی کی فضاء میں سانس لینے کا حق دار نہ بن جائے۔ اس کا آغاز آج کے دور میں فلسطین کی آزادی سے ہونا چاہئے۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں