ہندوستانی سیاست میں اخلاقی قدروں کا زوال

0

پروفیسر عتیق احمدفاروقی
ویسے تو ان دنوں اخلاقی قدروں میں گراوٹ کا اثر چوطرفہ دیکھاجارہاہے لیکن گزشتہ کچھ برسوں سے ملک کی سیاست میں جس طرح کے ناقابل قبول الفاظ کا استعمال ہورہاہے وہ ہندوستان کے کسی بھی باوقار شہری کو شرمندہ کرتاہے۔ ایک مہذب معاشرہ میں کچھ لوگوں کی سیاسی امنگ کس حدتک حساسیت ، سنجیدگی اورہم آہنگی کو نقصان پہنچاسکتی ہے، وہ ملک روز بروز دیکھ رہاہے۔ 1075ء کے بعد سے تو اصولوں اوراخلاقیات پر مبنی سیاست پر بحث تک پرقریب مکمل روک لگ گئی ہے ۔ اسے لیکر زیادہ تر حساس شہری اپنے اپنے طریقوں سے تشویش میں ہیں۔ اس وقت انتخابات میں فتح کا پہلا زینہ دولت بن گیاہے، وہ دولت چاہے جائز طریقے سے کمائی گئی ہو یا ناجائز طریقے سے ۔ کارپوریٹر ، رکن اسمبلی،رکن پارلیمان،وزراء جیسے متعدد آئینی عہدوں پر رہ چکے لیڈران کی تعداد لاکھوں میں تو ہوگی ہی ۔ ایک بار اقتدار حاصل ہونے کے بعد ہٹایاجانا ان میں سے زیادہ ترلوگوں کیلئے قابل برداشت نہیں ہوتا کیونکہ انہوں نے اقتدار خود کی خدمت کیلئے حاصل کیاتھا، خدمت خلق کیلئے نہیں۔ ملک کے ہرکونے میں اس وقت کتنے ہی ایسے لوگ دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کیلئے ہرطرح سے کوشاں ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جو لوگ اس وقت اقتدار سے دور ہیں چاہے ان کا تعلق بی جے پی سے ہو یا کسی دیگر پارٹی سے ، اس کیلئے نریندرمودی ہی ذمہ دارہیں۔
ہندوستان کے موجودہ سیاسی تناظر کو دوالفاظ میں سمیٹاجاسکتاہے: اضطراب میں شدت پسندی۔ اس کی سب سے بڑی مثال دہلی کے وزیراعلیٰ اروندکجریوال ہیں ۔ انا ہزارے کے نام پر ملی شہرت کے بعد بقول بی جے پی لیڈران انھیں اپنے تما م وعدے بھول جانے میں بالکل وقت نہیں لگا لیکن یہ بات حقیت پر مبنی نہیں ہے۔ بی جے پی دووجہوں سے کیجریوال سے بری طرح ناراض ہے، اوّل، بی جے پی کی خامیوں پر وہ جرأت مندانہ تنقید کرتے ہیں۔ دوم، گزشتہ اسمبلی انتخاب میں دہلی بی جے پی کا گڑھ ہونے کے باوجود عآپ سے بری طرح ہاری تھی۔ کجریوال نے جو وعدے کئے تھے، اگر100فیصد نہیں تو 75فیصد ضرور پورے کئے۔ ادھرکجریوال نے پڑھے لکھے لوگوں پر اپنی توجہ مرکوز کردی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ ان کا خود تعلیمی ریکارڈ وپیشہ شاندار رہاہے۔ بی جے پی کی ان سے جلنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے ۔ وہ آئی آئی ٹی کے بی ٹیک ہیں ۔ بعد ازاں انڈین ریونیوسروس میں ملازم رہے۔ ان کا ماننا ہے کہ وزیراعظم ودیگر وزراء کا پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے نریندرمودی کی ڈگری کا مذاق اڑایالیکن اس کیلئے قصور وار امت شاہ بھی ہیں۔ انہوں نے جس جلد بازی سے مودی جی کی ایم اے پولیٹکل سائنس کی خوبصورت کمپیوٹرائز ڈگری نکلواکر پریس کے سامنے پیش کردی اس سے لوگوں میں اس کے مشکوک ہونے کا گمان ہونے لگاہے۔ دراصل نریندرمودی جی نے وزیراعظم بننے کے فوراً بعد ہی یہ واضح کردیاتھا کہ وہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ جوابی کارروائی کے تحت بی جے پی والوں نے عآپ کے ایک وزیر پر فرضی ڈگری رکھنے کا الزام لگایاہے جس کی تردید کجریوال نے کی ہے۔ دونوں ہی فریق فرضی ڈگری کا استعمال کرنے کیلئے ملک سے معافی مانگنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
میری نظر میں فرضی ڈگری کا مسئلہ اتنا اہم نہیںہے، اخلاقی اقدار کا زوال زیادہ اہم ہے۔ پہلے کے لیڈران اورآج کے لیڈران میں زمین آسمان کا فرق ہے مثلا ً پہلے کے لیڈران چاہے ان کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو پارٹی کے اصولوں کے تئیں ان کے ارادے پختہ ہوتے تھے۔ انہوں نے کبھی اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ اقتدار کی خاطر انہوں نے کبھی پارٹی تبدیل نہیں کی۔ پارٹی کے چھوٹے موٹے نیتا تو سطحی اور غیر معیاری تبصرہ کردیاکرتے تھے لیکن بڑے لیڈر ، وزراء اوروزیراعظم اپنا وزن قائم رکھتے تھے ، غیرسطحی بات کبھی نہیں کرتے تھے۔ ہرمدعے پر واضح موقف رکھتے تھے اوراگرحکومت ان کی مرضی کے خلاف کوئی کام کرتی تھی یا اگرکوئی ایسا حادثہ پیش آتاتھا جس سے حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگتاہو توحکومت سے وابستہ لوگ یا حزب مخالف کے متعلق اراکین استعفیٰ دینے میں نہیں ہچکچاتے تھے۔ آج کے لیڈران ، وزراء اوریہاں تک کہ وزیراعلیٰ ووزیراعظم سیکولر اصولوں کے خلاف مذہب کے نام پر ووٹ مانگ رہے ہیں ایک مخصوص فرقہ کے لوگوں پر نشانہ سادھ رہے ہیں۔ تقطیب کیلئے کیسے کیسے تبصرے کئے گئے :’’دیش کے غداروں کو گولی مارو….‘‘شاہین باغ تحریک کے حوالے سے کہاگیا ، ’’وہ کپڑوں سے پہچانے جاسکتے ہیں ‘‘،’’ای وی ایم کا بٹن ایسا دباؤ کہ کرنٹ شاہین باغ میں لگے‘‘۔وزیراعلیٰ 80اور20فیصد کی باتیں کرتے ہیں ،شمشان اورقبرستان کا مقابلہ کرتے ہیں ۔ ستیہ پال ملک کے پلوامہ حادثہ سے متعلق بیان دینے کے بعد بھی کوئی شرمندگی کا احساس نہیں۔ رافیل گھوٹالے اورسب سے بڑھ کر حکومت وقت کے قریبی دوست اڈانی کے بیس ہزار کروڑ روپئے کے گھوٹالے کے انکشافات کے بعد حکومت کے کسی رکن کی طرف سے کوئی استعفیٰ نہیں آیا۔ اس کے برخلاف اگرآزاد ہندوستان کی تاریخ کا جائزہ لیاجائے تو پتہ چلے گاکہ کرشنا منن نے وزیراعظم کے کہنے پر 1962میں چین سے شکست کے بعد استعفیٰ دے دیاتھا۔ لال بہادر شاشتری نے ایک ریل حادثہ کے سبب ریلوے وزیر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیاتھا۔ اس وقت کے یوپی کے وزیراعلیٰ وشیو ناتھ پرتاپ سنگھ نے ان کے اپنے بھائی کے قتل کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیاتھا۔ یوپی میں ڈاکٹرجلیل فریدی نے اردو کے مدعوں پر لجسلیٹیو کاؤنسل کی رکنیت چھوڑدی تھی۔ وزیراعظم جواہر لعل نہرو تو اتنے فراخ دل تھے کہ انہوں نے دوسری پارٹی کے اراکین کو مختلف ذمہ داریاں سونپیں۔ مثلاً انہوں نے اپنی کابینہ میں جن سنگ کے لیڈر شیاماپرساد مکھرجی کو شامل کیاتھا۔ انہوں نے اٹل بہاری باجپئی کو ہندوستان کی نمائندگی کرنے کیلئے اقوام متحدہ کی کانفرنس میں بھیجاتھا۔ جواہر لعل نہرو نے جمہوریت اورسیکولرازم کے کٹرحامی ہونے کے ناطے کبھی انتقام کی سیاست نہیں کی۔ انہوں نے مخالفین کو دبانے کیلئے کبھی آئینی ادارے ای ڈی ، سی بی آئی ، انکم ٹیکس محکمہ ، عدلیہ یا الیکشن کمیشن کا استعمال نہیں کیا۔ موجودہ حکمرانوں کو ان سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ آج ملک کا میڈیا گودی میڈیا بن چکاہے۔ حکومت سے سوال کرنے کی اس میں جرأت نہیں ہے، الٹے وہ حزب مخالف سے ہی سوال کرتاہے۔
آج کرناٹک کے الیکشن میں جس طرح تقطیب کا عمل حکمراں جماعت کے ذریعے دیکھنے میں آیاہے اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ حجاب ، تین طلاق، مسلمانوں کا ریزرویشن اورکامن سول کورٹ کو لیکر خوب سیاست ہورہی ہے۔ بجرنگ دل کے جولوگ گائے کے تحفظ کے نام پر لنچنگ کررہے ہیں، ان کے قصیدے پڑھے جارہے ہیں۔ سیاسی ریلیوں میں ’جے شری رام اورجے بجرنگ بلی ‘جیسے نعرے لگائے جارہے ہیں۔ حکومت کے سب سے بڑے عہدیدار کو یہ زیب نہیں دیتاکہ وہ اپنے اہم سرکاری کاموں کو چھوڑ کر ایک ریاست کے الیکشن میں وہاں دس دن قیام کرکے الیکشن کی تشہیر کرے۔ مجھے نہیں یاد ہے کہ آزاد ہندوستان میں کسی وزیراعظم (بشمول اٹل بہاری باجپئی )نے اقتدار بچانے کیلئے اس طرح کے کام کئے ہوں۔ ان سب کے پیچھے جو سبب کارفرماں ہے وہ ہے اخلاقی قدروں کا زوال ۔ہمیں عوام کو بیدار کرنے ہوگا کہ چاہے وہ کسی پارٹی کو ووٹ دیں لیکن اس بات کا ضرور خیال رکھیں کہ پارلیمان میں وہ ایسے ہی لوگوں کو بھیجیں جو پڑھے لکھیں ہوں، ان کے کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہ ہوں، وہ ایماندار اوراصول پسند ہوں اوران کے دل میں آئین کا احترام ہو۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS