پنجاب پرقرض کا بوجھ:کتنی حقیقت ،کتنافسانہ

0

پنجاب کے وزیراعلیٰ بھگونت سنگھ مان نے اقتدار سنبھالنے کے بعدریاست کی معیشت کے بارے میں کچھ حقائق کو سامنے لائے ہیں۔ ہر پارٹی برسراقتدار آنے کے بعدسابقہ مقتدر پارٹی کی پالیسیوں کی نکتہ چینی کرتی ہے اور تمام اقتصادی بدنظمیوں کو بطور خاص منظر عام پر لانے کی کوشش کرتی ہے تاکہ اس کے سامنے جو چیلنجز ہیں اس سے ریاستی عوام کو آگاہ کیاجائے۔وزیراعلی بھگونت سنگھ مان نے کہاہے کہ گزشتہ سرکاروں نے اپنی بدنظمی اور بددیانتی کی وجہ سے ریاست کو قرض کے بوجھ میں جھونک دیاہے۔انہوں نے انکشاف کیاہے کہ ریاست پر 3لاکھ کروڑکا قرضہ ہے۔ عام آدمی پارٹی نے الیکشن کے دوران کئی پرکشش اسکیموں کا اعلان کرکے ووٹوں کی بڑی تعداد کو اپنے ساتھ ملالیاتھا ۔یہی وجہ ہے کہ آج عام آدمی پارٹی بڑی شاندار اکثریت کے ساتھ برسراقتدار ہے اور ایسے اقدام کررہی ہے جو کہ غریب اور متوسط طبقے کو راحت دینے والے ہیں۔جب ریاست کا خزانہ اس حد تک خالی ہوتو عوام سے کئے گئے پرکشش وعدوں کو عمل درآمد کرنا مشکل کام ہے ۔وزیراعلیٰ نے بتایادیاہے کہ معیشت کی اصل حالات یہ ہے کہ ریاست کے کل بجٹ کا 20فیصد حصہ قرض جات کی واپسی پر خرچ ہوگااور ہر سال کی طرح اس سال بھی سرکار کو اپنے واجبات کو ادا کرنے کے لئے قرض لینا ہی پڑے گا۔ظاہر ہے کہ یہ انکشافات تشویش میں ڈالنے والے ہیں۔امریندر سنگھ پانچ سال تک وزیراعلیٰ رہے اس سے پہلے اکالی دل اور بی جے پی کی مخلوط سرکار 10سال تک برسراقتدار رہی ۔ ان سیاسی جماعتوں کے بڑے لیڈروں کے اثاثے کتنے بڑھے ہیں سب کو معلوم ہے۔
2017میں جب کانگریس کی سرکار امریندر سنگھ کی قیادت میں برسراقتدار آئی تو اس وقت شرومنی اکالی دل اور بی جے پی نے 2.08کروڑکا قرض ریاست پر چھوڑا تھا۔بعد میں امریندر سنگھ کی سرکار میں پانچ سال میں اس قرض میں ایک لاکھ کروڑکا اور اضافہ ہوگیا۔اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ 20سالوں میں جس میں اکالی دل کے دس سال اور کانگریس کے پانچ سال بھی شامل ہیں قرض میں10گنا اضافہ ہوا۔امریندر سنگھ نے اقتدار چھوڑا تو اس وقت پنجاب پر36854کروڑروپے کا قرض تھا۔جب کہ 2007میں یہ قرض 21ہزارکروڑ سے بڑھ کر 51155 کروڑ روپے ہوگیا۔بعد ازاں 2017میں قرض کا بوجھ 2.08لاکھ کروڑکا تھا۔پنجاب ایک سرحدی ریاست ہے ایک طویل عرصہ تک اندورنی سورش اور دہشت گردی کی وجہ سے ریاست کی معیشت تباہ ہوگئی۔ 1984سے 1994کے درمیان ریاست پر یہ ذمہ داری تھی کہ وہ دہشت گردی کا مقابلہ کرے۔ ظاہر ہے کہ دہشت گردی کے دور میں ترقیاتی کام متاثر ہوتے ہیں ، سرمایہ دہشت گردی کی کنٹرول کرنے میں صرف ہوتاہے ، تعلیم روزگار سے زیادہ قیام امن اور عام شہری کی زندگی کا تحفظ اہم ہوتاہے۔ایسے حالات میں جب پاکستان جیسا پڑوسی ہو توپنجاب کا مشکلات کا سامنا کرنا واجب تھا۔ریاستی سرکاریں مسلسل اس بات کا شکوہ کرتی رہی ہیں کہ بدترین حالات میں ریاست کو مرکز کی طرف سے وہ مدد نہیں ملی جو ملنی چاہئے تھی۔مگر یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ مرکز دومرتبہ پنجاب کا قرض معاف کرچکاہے۔
مرکزی سرکار کی طرف سے پنجاب کو دومرتبہ قرض کی ادائیگی میں رحت دی گئی ۔2007میں مرکز نے 5,029کروڑروپے کا قرض معاف کیا۔بعد میں مرکز کی اندرکمار گجرال کی قیادت والی سرکار نے پرنسپل امائونٹ کو معاف کردیاتھا۔اس وقت گجرال نے صحیح ہی کہاتھا کہ دہشت گردی سے پنجاب لڑرہاہے اور سب سے زیادہ جانی ومالی کا نقصان پنچاب کا ہی ہورہاہے ۔مگر یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ دہشت گردی صرف پنجاب کا ہی نہیں ،بلکہ ملک کا مسئلہ ہے یا قومی مسئلہ ہے ۔لہٰذا گجرال دہشت گردی کے مسئلہ کو پنجاب کانہیں بلکہ قومی مسئلہ سمجھتے تھے۔پنجاب کے محکمہ مالیات کے اعداد وشمار کے مطابق 1995-96میں 176کروڑروپے معاف کئے گئے تھے، جبکہ 1997-98میں 123کروڑروپے ۔ 1998-99میں221کروڑروپے،1999-2000 میں241کروڑروپے ،2006-07 میں 496 کروڑروپے اصل رقم پر معاف کئے گئے تھے۔
علاوہ ازیں دسویں مالیاتی کمیشن کی سفارش پر مرکز نے پنجاب سے 496کروڑروپے کا قرض معاف کردیا تھا۔اس طرح 2007 تک پنجاب پرواجب مجموعی طور پر 5029کروڑروپے کا قرض معاف کیاجاچکاتھا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS