نوٹ بندی ایک ایسا ایشو ہے ،جس کا ذکر کسی نہ کسی پہلو سے ضرور آجاتا ہے اور وہ موضوع بحث بن جاتاہے ، حالانکہ نوٹ بندی کو ساڑھے 7سال ہوچکے۔اس دوران بہت سے مسائل آئے اوران پر سیاست ہوئی۔ لوگ اس کو بھول بھی گئے، لیکن نوٹ بندی کونہیں بھول سکے۔ سیاسی لیڈران اس پر زبانی جمع خرچ کرتے رہتے ہیں، لیکن سپریم کورٹ کے جج اس پر کورٹ سے باہر بولیں گے ، کوئی سوچ نہیں سکتا ۔سپریم کورٹ کی جج جسٹس بی وی ناگرتھنانے جس طرح نوٹ بندی کے بارے میں اپنی رائے ظاہر کی ، وہ بھی لوک سبھا انتخابات کے وقت ، جب پارٹیاں اورلیڈران ایشو ز کی تلاش میں رہتے ہیں ،یقینا غور طلب ہے ۔دیکھا جائے تو جسٹس ناگرتھنا نے کوئی نئی بات نہیں کہی ، بلکہ اس معاملہ کی سماعت کرنے والی سپریم کورٹ کی5رکنی بنچ میںاپنی الگ رائے ظاہر کرنے کی وجہ بتائی کہ انہوں نے اپنے فیصلہ میں نوٹ بندی کو غیرقانونی کیوں قرار دیا تھا۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال 2جنوری کو سپریم کورٹ کی 5رکنی بنچ نے 4-1سے نوٹ بندی کے فیصلہ کو صحیح ٹھہرایا تھا۔ جسٹس ناگرتھنا نے اپنے فیصلہ میں اس وقت قانونی لحاظ سے جو کچھ کہاتھا ، اس بار اس سے کچھ ہٹ کر کہا ہے ، لیکن مطلب وہی ہے کہ ان کی نظر میں نوٹ بندی کافیصلہ صحیح نہیں تھا۔8نومبر 2016کو جب نوٹ بندی کا اعلان کرتے ہوئے اس وقت چلنے والے 500اورایک ہزار کے نوٹوں کو بند کیا گیا، تو جہاں بہت سے لوگوں نے فیصلہ سے اختلا ف کیا تھا اوراس کے خلاف عرضیاں سپریم کورٹ میں داخل ہوئی تھیں۔ دوسری طرف اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے نوٹ بندی کے فیصلہ کو صحیح ٹھہرایا تھا۔
بہرحال جسٹس ناگرتھنانے جج کی حیثیت سے اپنے فیصلہ میں کہا تھاکہ 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کی پوری سیریز کو بند کرنا ایک سنگین معاملہ ہے اور مرکز صرف گزٹ نوٹیفکیشن کے ذریعہ ایسا نہیں کر سکتا۔ ان کا کہناتھا کہ نوٹ بندی قانون سازی کے ذریعہ کی جانی چاہیے تھی نہ کہ نوٹیفکیشن کے ذریعہ۔ آر بی آئی نے نوٹ بندی کیلئے آزادانہ طور پر کام نہیں کیا اور صرف مرکز کے فیصلے کو تسلیم کیا۔ آر بی آئی سے رائے طلب کی گئی تھی جسے سفارش نہیں کہا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ڈیمونیٹائزیشن قانون پر پارلیمنٹ میں بحث ہونی چاہیے تھی، یہ عمل صرف گزٹ نوٹیفکیشن کے ذریعہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ملک کیلئے اتنا اہم مسئلہ پارلیمنٹ کے سامنے رکھنا چاہیے تھا۔ جسٹس ناگرتھنانے کہاکہ آر بی آئی کی طرف سے پیش کیے گئے ریکارڈ میں یہ ’مرکزی حکومت کی خواہش کے مطابق ‘لکھا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آر بی آئی کی طرف سے کوئی درخواست یا سفارش نہیں کی گئی تھی۔ پوری کسرت 24 گھنٹے میں کی گئی۔ جسٹس ناگرتھنا نے تویہاں تک کہہ دیا کہ آربی آئی بھی کرنسی کی تمام سیریز پر پابندی نہیں لگا سکتا، کیونکہ سیکشن 26(2) کے تحت کسی بھی’ سیریز‘ کا مطلب ’تمام سیریز ‘ نہیں ہے۔ اس لیے مرکزی حکومت کا 8 نومبر کو نوٹ بندی کا فیصلہ غیر قانونی تھا، جبکہ اس بار این اے ایل ایس اے آریونیورسٹی آف لاء میں منعقدہ عدالتوں اور آئین سے متعلق کانفرنس کے 5ویں ایڈیشن کے افتتاحی اجلاس میں جسٹس ناگرتھنا نے کہاکہ انہوں نے نوٹ بندی کے فیصلہ سے اختلاف اس لئے کیا ، کیونکہ 2016 میں جب اس فیصلے کا اعلان کیا گیا ،تو 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کو ختم کر دیا گیا تھا، جو کل کرنسی نوٹوں کا 86 فیصد تھے اور نوٹ بندی کے بعد ان میں سے 98 فیصد واپس آگئے ۔ان کاکہناہے کہ حکومت نے کالے دھن کے خلاف مبینہ کریک ڈاؤن میں 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کو ختم کیا تھا، تومیں نے سوچا کہ یہ نوٹ بندی کالے دھن کو سفید دھن میں تبدیل کرنے کا ایک طریقہ ہے کیونکہ پہلے، 86 فیصد کرنسی ختم کر دی گئی اوران میں سے 98 فیصد کرنسی بینک میں واپس آ کر سفید دھن بن گئی، لہٰذامیں نے سوچا کہ یہ بے حساب نقدی کا حساب کتاب کرنے کا ایک اچھا طریقہ ہے۔عام آدمی کی پریشانیوں کی وجہ سے مجھے اختلاف کرنا پڑا۔بات وہی ہے، جو فیصلے میں کہی تھی ۔
یقینالوک سبھا انتخابات کے وقت اس طرح کی باتوں کے اٹھانے سے اپوزیشن کو حکومت پر حملے کا موقع ملتاہے ۔ جب میڈیانے جسٹس ناگرتھنا کے بیان کو اہمیت دی ہے، تو سیاسی پارٹیاں کیسے اہمیت نہیں دے سکتیں ۔نوٹ بندی ایک ایسی بحث ہے، جو کسی نہ کسی پہلو سے چھڑ جاتی ہے ۔
[email protected]
نوٹ بندی کی بحث
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS