موت ایک ایسی پہیلی کہ سمجھنا مشکل

0

محمد حنیف خان

فلسفہ حیات و ممات یقینا ایک ایسا فلسفہ ہے جس سے کسی کو مفر نہیں،انسان نے اپنی بساط بھر اس فلسفے کو سمجھنے کی بھی کوشش کی مگر نتیجہ صرف یہ نکلا کہ ہر ذی روح کو آخرفنا ہے۔اس ماحصل کے سوا اس میں کچھ نہیں ہے۔موت کا خوف ہرذی نفس کو ہوتا ہے، موت کا چنگل بڑا سفاک ہے، لیکن اس کا تجربہ اب سے پہلے کم از کم گزشتہ سو برس میں کبھی اجتماعی نہیں ہوا تھا،یہ صرف انفرادی تھا۔آج ہماری نگاہوں کے سامنے موت کا جو رقص ہے،اس نے اس تجربے کو اجتماعی بنا دیا ہے۔ہر طرف خوف کا سایہ ہے۔یہ سایہ اتنا بھیانک ہے کہ چھینک اور کھانسی میں کف آنے پر ہماری نظروں کے سامنے مجسم ہوجاتا ہے۔لحیم شحیم انسان چشم زدن میں خود کے سامنے موت کا بے ہنگم رقص دیکھتا ہے جس میں کسی طرح کی کوئی دل ربائی نہیں ہوتی بلکہ اس لفظ اور اس کے معنیات کا خیال بھی ذہن میں نہیں آتا۔جب تک کوئی چیز انفرادی ہوتی ہے اس وقت تک اس کی اہمیت یا اس کا خوف پورے سماج کو اپنے حصار میں نہیں لیتا لیکن جب یہی تجربہ اجتماعی بن جائے تو پورا معاشرہ اس کی زد اور گرفت میں آجاتا ہے۔لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ موت جیسی خاص شئے کا تجربہ ہمیشہ انفرادی ہی ہوتا ہے،جو زندہ رہتے ہیں وہ بس تصورات میں اسے محسوس کرتے ہیں۔ موت اور زندگی کے سلسلے میںخاص طور پر وبا کے ایام میں پروفیسر خالد جاوید نے بڑی اہم بات اپنے ایک افسانے ’’تاش کے پتوں کا عجائب ‘‘ میں کہی ہے: ’’ہر موت کی اپنی ایک انفرادیت ہوتی ہے۔وبا میں ایک ساتھ ہزاروں لوگ مرتے ہیںمگر ان کی موت الگ الگ ہوتی ہے۔موت بھی زندگی کی ہی مانند ہے،جو انسانوں کے جسم کو اپنے کام میں لا کر اپنی نسل کی افزائش کرتی ہے۔زندگی ماں کی کوکھ کے اندھیرے پر بغیر کسی جائز حق کے اپنی بساط جما کر بیٹھ جاتی ہے۔کچھ اسی طرح موت انسان کے خالی ڈبے جیسے جسم میں آکربوریا بسترا لگا لیتی ہے مگر ایک اچھے کرایہ دار کی طرح وہ تب ہی جسم کا صدر دروازہ کھولتی ہے جب روح اسے پوری طرح خالی کرچکی ہو۔‘‘ یعنی زندگی کی طرح ہماری موت بھی اپنی نسل کی افزائش کرتی ہے۔اب ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موت کی نسل کی افزائش کیا اور کیسے ہوتی ہے؟ چونکہ بحیثیت مسلم ہمارا عقیدہ ’’آواگون‘‘ یا حلول و تناسخ کا نہیں ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ موت یعنی خروج کرنے والی روح کو کبھی موت نہیں آتی۔

ہم کربناک دور کے ایسے موڑ پر کھڑے ہیں جہاں خود کو بے دست وپا محسوس کر رہے ہیں۔آخر انسانی معاشرہ اس مقام تک پہنچا کیسے؟یہ ایک بڑا سوال ہے۔گزشتہ برس جب کووڈ 19کی وبا پھیلی تھی تو اس وقت بھی موت نے اپنا اتنا سفاک چہرہ نہیں دکھایا تھا مگر اس بار اس نے دیکھتے ہی دیکھتے محض چند دنوں میں بستیاں خالی کردیں۔

ہم کربناک دور کے ایسے موڑ پر کھڑے ہیں جہاں خود کو بے دست وپا محسوس کر رہے ہیں۔آخر انسانی معاشرہ اس مقام تک پہنچا کیسے؟یہ ایک بڑا سوال ہے۔گزشتہ برس جب کووڈ 19کی وبا پھیلی تھی تو اس وقت بھی موت نے اپنا اتنا سفاک چہرہ نہیں دکھایا تھا مگر اس بار اس نے دیکھتے ہی دیکھتے محض چند دنوں میں بستیاں خالی کردیں۔خصوصاً اردو کے قبیلے کو سمیٹ کر رکھ دیا۔حالانکہ موت تخصیص سے کام نہیں لیتی ہے،اس کا کام تو تکمیل وقت ہے۔مگر اس کے باوجود محض چند دنوں میںجس کثرت سے موت نے انسانی جانوں کو اپنا نوالہ بنایا ہے، وہ غور و فکر کا مقام ضرور ہے۔ معاشرہ کا ہر فرد اہم ہے خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا،امیر ہو یا غریب، ہر جان بیش قیمت ہے، ایسے میں موت کے منھ میں جاتے ہوئے افراد کو بچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے لیکن سماجی و انفرادی ذمہ داری سے کہیں زیادہ بڑی ذمہ داری حکومت کی ہے کہ وہ لوگوں کو وبا کے ان ایام میں اگر کچھ نہ دے سکے تو کم از کم علاج و معالجہ کی بہتر سہولیات تو فراہم ہی کردے۔کیونکہ ریاست ہی پورے معاشرے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔کیا حکومت نے اپنی ذمہ داری ادا کی ؟اس نے معاشرے کو موت کے منھ میں جانے سے بچانے کے لیے قابل قدر اقدام کیے؟اس کا وہ 20لاکھ کروڑ کا پیکیج کہاں گیا جس کا اعلان کیا تھا،پی ایم کیئر فنڈ کا پیسہ کہاں خرچ ہوا،جس کا کوئی حساب نہیں۔اس سوال کی تہہ میں جب ایک عام شخص جاتا ہے تو اس کے ہاتھ کچھ نہیں لگتا۔وہ خالی ہاتھ ہوتا ہے اور نظروں کے سامنے اپنوں کی موت ہوتی ہے،جس کا دکھ اسے توڑ کر رکھ دیتا ہے۔
گزشتہ ایک برس میں اگر ذمہ دار اداروں نے اپنی ذمہ داریاں ادا کی ہوتیں تو شاید آج معاشرے کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔کاغذات میں ملک ترقی کررہا ہے، فارما کمپنیاں ہیں، علاج ومعالجہ کی سہولیات ہیں،و یکسین کی بھی کمی نہیں ہے اور آکسیجن سلنڈر کی بھی کمی نہیں،مگر اموات اسی کی قلت اور فقدان سے ہو رہی ہیں۔حکومت ان سب پر ایک خطیر رقم خرچ کرنے کا دعویٰ بھی کرتی ہے مگر زمینی سطح پر کچھ بھی نہیں ہے۔ملک کے کسی بھی اسپتال میں عوام کے علاج ومعالجہ کی ایسی سہولیات دستیاب نہیں ہیں جنہیں کافی کہاجا سکے۔اس کے کیا اسباب ہیں؟سوائے اس کے کہ اہل حل و عقد نے اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کیں اور انہوں نے وبا کے ایام کو اپنے لیے مواقع میں تبدیل کرلیا۔
ہم اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ایک طرف موت کا رقص جاری ہے اور دوسری طرف حکومت سازی کی کوششیں جنگی پیمانے پر چل رہی ہیں،یہ وہ وقت تھا جب اس طرح کے سبھی اقدام کو روک کر صرف اور صرف طبی محاذ پر حکومت لگ جاتی۔جہاں حکومتوں کا وقت مکمل ہو رہا تھا، وہاں عبوری حکومتیں کام کرتیں مگر ایسا کرنے کے بجائے موقع کو غنیمت جانا گیا اور وبا کو پھیلانے میں خود اہل حل و عقد نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔اس سے زیادہ متضاد بات کیا ہو سکتی ہے کہ ایک طرف یہ کہا جائے کہ بغیر ضرورت کے کوئی باہر نہ نکلے اور دوسری طرف جلسے جلوس کرکے بھیڑ اکٹھا کی جائے اور کثرت اژدھام پر خوشی سے ہاتھ ہلایا جائے۔دن بھر جلسے جلوس کیے جائیں اور شام کو پروچن دیا جائے کہ کوئی بھی شخص باہر نہ نکلے۔کیا ذمہ دار افراد اور اداروں کے قول و فعل میں اسی طرح کا تضاد ہوتا ہے؟کیا ایسا کرکے اس طرح کی عالمی وبا پر قابو پایا جا سکتا ہے؟حکومت خود سنجیدہ نہیں ہے۔اگر وہ سنجیدہ ہوتی تو گزشتہ ایک برس میں اس نے ایسا انفرااسٹرکچر تیار کرلیا ہوتا کہ مریضوں کو دربدر بھٹکنا نہ پڑتا۔یہ سماج کے اعمال بد کی پاداش ہے ورنہ یہ شیر ہل میں نہ جوتے جاتے۔موت ایک بدیہی حقیقت ہے جس سے کسی کو مفر نہیں لیکن ایڑیاں رگڑ کر،در در بھٹک کر جب موت آتی ہے تو اس نظام پر غصہ آتا ہے جس نے انسانوں کو اتنا بے بس و مجبور بنادیا ہے۔سماج کی بے بسی اور مجبوری اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایک بوڑھی ماں اپنے بیٹے کی لاش ای رکشہ کے پائیدان پر رکھ کر گھر لے جاتی ہے۔اول اس کو علاج و معالجہ کی سہولیات دستیاب نہیں ہوسکیں۔دوم موت کے بعد انسانی جسم کی اتنی بے توقیری کہ اس کو گاڑی تک ریاست مہیا نہیں کرا سکی جس کے ذریعہ وہ اپنے لخت جگر کو گھر تک لے جاسکے۔اس پر بھی حکومت اور معاشرہ دونوں خاموش ہیں؟اس خاموشی کا مطلب سوائے اس کے کچھ نہیں کہ اب ان دونوں کی بھی موت ہو چکی ہے۔
موت و حیات کے مابین یہ کشمکش اس آخری دن تک چلے گی جب تک دنیا ختم نہ ہوجائے،جسے قیامت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔لیکن ہمارے ہاتھ میں اتنا ضرور ہے کہ بیماری و آزاری کی صورت میں علاج و معالجہ کا انتظام کرسکیں۔یہ ہمارا ہاتھ در اصل ریاست کا ہاتھ ہے،وہ ریاست جو جمہوری ہے،جس کو معاشرہ خود منتخب کرتا ہے،اس لیے جو ذمہ دار ہیں ان سے سوال و جواب بہر صورت ہونا چاہیے لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ سوال کرے کون؟جمہوریت میں میڈیا کو چوتھا ستون قرار دیا گیا ہے،جس کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کی ا ٓواز بن کر ریاست سے سوال کرے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ میڈیا خود ریاست کا بھونپو بنا ہوا ہے۔وہ ہمہ وقت چین ہی چین لکھتا ہے۔ایسے میں ریاست کے ذمہ دار افراد کی نیند کیسے کھلے گی؟اور اگر کھل بھی جائے تو وہ ایسے ہیں جن کے پاس مذہب کی ایسی گولی ہے جسے دے کر وہ عوام کو سلا دیتے ہیں اور خود پھر حکومت سازی میں منہمک ہوجاتے ہیں۔عوام (ہندو،مسلم،سکھ، عیسائی/اکثریت و اقلیت)کو مذہب کی گولی کھاکر سونے کے بجائے بنیادی ڈھانچہ اور بنیادی حقوق کے بارے میں بیدار ہونا ہوگا اور ارباب حل و عقد سے اس سے متعلق سختی سے سوال کرنا ہوگا کہ آخر انہوں نے اس ضمن میں کیا کیا ہے،جس سے عوام کو راحت مل سکے اور ان وبائی ایام میں در در بھٹکنے کے بجائے ان کو ان کی جگہ پر علاج و معالجہ کی سہولیات فراہم ہو سکیں۔باقی قدرت کا کھیل ہے وہ جیسے چاہے کرے،وہ ہمارے اپنے ہاتھ میں نہیں ہے۔حیات و ممات کا مسئلہ اس قوی طاقت کے ہاتھ میں ہے جو غیر بدیہی ہے،جس کے سامنے سب بے بس ہوجاتے ہیں،جس نے زندگی کو ایسا بنایا جسے سمجھنا مشکل اور موت کو ایسا بنایا کہ دیکھنا ناممکن۔اس سلسلے میں بدھ کواس دارفانی سے خواب میں چلتے چلتے جہان ازلی کی طرف رخصت ہونے والے جدید نقاد و شاعر پروفیسر مولا بخش کا ایک شعر یاد آرہا ہے جس میں انہوں نے زندگی اور موت کے فلسفے کوبیان کیا ہے۔دیکھئے:
موت ایک ایسی پہیلی کہ سمجھنا مشکل
زندگی خواب میں چلنے کا عمل ہو جیسے
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS