ایٹم بموں سے زیادہ مہلک

0

سمندری طوفانوں پر کئی افلمیں بن چکی ہیں۔ ان فلموں میں امریکی فلم The Perfect Storm نے بڑی شہرت حاصل کی۔ طوفان پر بنی فلموں میں وہ آج بھی ایک اہم فلم سمجھی جاتی ہے۔ ویسے کسی بھی فلم میں طوفان کو دیکھنا اچھا لگتا ہے لیکن نزدیک سے اسے کوئی بھی دیکھنا نہیں چاہتا، خاص کر وہ لوگ تو بالکل دیکھنا نہیں چاہیں گے جو اس کی ہلاکت خیزی سے واقف ہیں، جو جانتے ہیں کہ اس میں کئی ایٹم بموں کے مساوی توانائی پیدا کرنے کی طاقت ہوتی ہے۔ ان کی زد میں اگر انسانی آبادی آ جائے تو ان کی ہلاکت خیزی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں رہ جاتا اور ایسا کئی بار ہو چکا ہے۔ اب موسم سائنس نے کافی ترقی کرلی ہے تو پہلے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ سمندر کے کس حصے میں طوفان بن رہا ہے اور وہ کن ساحلوں سے کس رفتار سے ٹکرائے گا۔ اسی لیے حفاظتی انتظامات کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ طوفان بنتے کیسے ہیں؟ یعنی ان کی پیدائش کیسے ہوتی ہے؟ اس سلسلے میں پنکج چترویدی نے کئی مضامین ’روزنامہ راشٹریہ سہارا‘ کے لیے لکھے ہیں۔ ایک مضمون میں بہت تفصیل سے پنکج نے طوفان کے بننے کا عمل سمجھایا تھا۔ ان کے مطابق، دھوپ کی شدت بڑھنے پر سمندر کے اوپر کی ہوا گرم ہونے لگتی ہے۔ وہ زیادہ گرم ہو جانے پر اوپر کی طرف اٹھتی ہے۔ اس کے اوپر اٹھنے کی رفتار بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس سے نیچے کے حصے میں کم دباؤ کی جگہ پیدا ہو جاتی ہے۔ کم دباؤ کی وجہ سے اس جگہ خلا پیدا ہو جاتا ہے۔ اسے پر کرنے کے لیے اطراف کی ٹھنڈی ہوائیں لپکتی ہیں۔ اب ذہن میں یہ رکھیے کہ زمین اپنے محور پر گھوم رہی ہے، اس لیے ہوا پہلے اندر کی طرف جاتی ہے اور پھر تیزی سے گھومتی ہوئی اوپر کی طرف اٹھنے لگتی ہے۔ وہ ایک دائرے کی شکل میں پھیلتی ہے۔ یہ دائرہ کئی بار سیکڑوں کلومیٹر کا ہوتا ہے۔ خط استوا پر زمین کے گھومنے کی رفتار 1038 میل فی گھنٹہ ہوتی ہے، اس لیے خط استوا کے نزدیک سمندر کے پانی کے درجۂ حرارت میں اگر اضافہ ہوتا ہے اور یہ اضافہ اگر 26 ڈگری سیلسیئس یا اس سے زیادہ ہوتا ہے تو پھر گردابی طوفان کے پیداہونے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔
طوفان کے سلسلے میں کچھ اور بتانے سے قبل یہ بتا دیں کہ زمین کی تقسیم جغرافیائی طور پر دو کروں میں کئی گئی ہے۔ برف والے شمالی کرے میں ہوا کی بھاری مقدار کے گول گول گھومنے سے جو طومان پیدا ہوتا ہے ، اسے ہری کین یاٹائفون کہا جاتا ہے، ان میں ہوا کا گھماؤ دائرہ نما ہوتا ہے لیکن یہ الٹی سمت میں ہوتا ہے۔ اسے اس طرح سمجھئے کہ گھڑی کی سوئی جس سمت میں گھومتی ہے، ہوا کا گھماؤ اس سے الٹی سمت میں ہوتا ہے لیکن جنوبی کرے میں ہری کین یا ٹائفون کو ہی سائیکلون(cyelone) کہاجاتا ہے۔ اس کے لیے اردو میں گردابی طوفان استعمال کیا جاتا ہے۔ اس میں بھی ہوا کا گھماؤدائرہ نما ہوتا ہے، البتہ یہ گھماؤ الٹی سمت میں نہیں ہوتا یعنی گھڑی کی سوئی جس سمت میں گھومتی ہے ، ہوا کا گھماؤ اسی سمت میں ہوتا ہے۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS