ہرجندر
کبھی اسرائیل کی سرکار جس پیگاسس اسپائی ویئر کو اپنی حصولیابی بتاکر پوری دنیا کے ممالک کو فروخت کرتی تھی، اب اسے ہی پیگاسس بنانے والی کمپنی کے دفاتر پر چھاپے مارنے پڑرہے ہیں۔ فرانس کی حکومت نے جس طرح سے اس مسئلہ پر اپنی مخالفت کا اظہار کیا/اپنی ناراضگی کا اظہار کیا،اس کے بعد اسرائیل حکومت کے پاس کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ پوری دنیا میں اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہونے والی حکومتیں ویسے ہی بہت کم ہیں۔ ایسے میں مغربی یوروپ کے ایک اہم ملک کو اپنا مخالف بنانا اسے مہنگا پڑسکتا تھا۔ یہ مسئلہ کتنا بڑا تھا، اسے اس سے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ بات زیادہ نہ بگڑے، اس کے لیے اسرائیل کو اپنے وزیردفاع کو پیرس بھیجنا پڑا۔ فرانس کی مخالفت بھی پوری طرح جائز تھی۔ تو کیا اسرائیل حکومت کی تازہ سرگرمی سے پیگاسس متاثرہ لوگ یا ملک اور رازداری و انسانی حقوق کی فکر کرنے والے کوئی امید لگاسکتے ہیں؟ شاید نہیں۔
ویسے امید لگانے کی ایک اور وجہ موجود ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک تجویز کو ان دنوں پھر سے جھاڑپونچھ کر نکالا گیا ہے، جو اس طرح کے اسپائی ویئر، یعنی جاسوسی سافٹ ویئر کو خریدنے-فروخت کرنے پر پابندی لگانے کی بات کرتا ہے۔ حالاں کہ اقوام متحدہ کی ایسی تجویز اگر واقعی کسی کام کی ہوتی تو دنیا میں دہشت گردی کب کی ختم ہوگئی ہوتی اور کہیں بھی نہ بین الاقوامی رنجشیں ہوتیں اور نہ اسلحوں کا مقابلہ۔
اس پورے معاملہ کی پیچیدگی کو سمجھنے کے لیے ہمیں پیگاسس کو سمجھنا ہوگا۔ پیگاسس ایک پروفیشنل سافٹ ویئر ہے، جسے این ایس او نام کی اسرائیلی کمپنی بناتی ہے اور پوری دنیا میں فروخت کرتی ہے۔ ایسی کمپنیوں کی بہت سی باتیں عام ہوتی ہیں، جیسے ان کی ملکیت کی معلومات، ان کے فائدہ-نقصان کا کھاتہ وغیرہ۔ پھر ایسی کمپنیوں کو زیادہ فروخت کرنے اور زیادہ فائدہ کمانے کے لیے اپنی مسلسل تشہیر کرنی ہوتی ہے۔ ایسے میں بہت ساری باتیں پوشیدہ نہیں رہ سکتیں، باوجود تمام احتیاط کے۔ لیکن اسپائی ویئر کے سبھی معاملات میں ایسا نہیں ہوتا۔
تین برس قبل جب گوگل آئی فون میں استعمال ہونے والے اپنے ایپ کی جانچ کررہا تھا، تب اس نے پایا کہ آئی فون میں ایک ایسا اسپائی ویئر ہے جو استعمال کنندگان کے پیغام اور کئی دیگر ڈاٹا چوری کررہا ہے۔ آگے تحقیق میں یہ بات واضح ہوگئی کہ سارا ڈاٹا چین کے کسی ایسے سرور میں پہنچایا جارہا ہے جو اس چوری میں چین کی حکومت کے شامل ہونے کی جانب اشارہ کرتا تھا۔ حکومتیں یا سرکاری ادارے جب ایسے کام کرتے ہیں، تب سب کچھ خاموشی سے ہوتا ہے اور بڑی مشکل سے یا اتفاقاً ہی کسی کو اس کی آگاہی ہوپاتی ہے۔ اسی واقعہ کے بعد سے چین میں بنے سبھی ایپ اور سافٹ ویئر کو پوری دنیا میں مشتبہ نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔
آپ کی رازداری ہر لمحہ بڑے پیمانہ پر پوری دنیا کے بڑے بڑے سروروں کے حوالہ ہو رہی ہے۔ اس کا ایک مکمل بازار ڈیولپ ہوچکا ہے، جہاں ہماری آپ کی رازداری کی قیمت بھی لگتی ہے اور اس کی خرید و فروخت بھی ہوتی ہے۔ پیگاسس جیسے اسپائی ویئر کسی کی بھی رازداری کو حاصل کرنے کا یہی کام زیادہ گہرائی سے کرتے ہیں، لیکن وہ اس بازار میں نہیں آتے۔ وہ رازدای کے کاروبار میں نہیں ہیں، بلکہ وہ رازداری کے سیاسی استعمال کیلئے بنائے گئے ہیں، جو کئی طرح سے زیادہ خطرناک بات ہے۔
یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر جاسوسی کی کوئی جدید تکنیک ممکن ہے تو وہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے پاس تو ہوگی ہی۔ سی آئی اے میں کام کرچکے وہسل بلوور ایڈورڈ سنوڈین نے جو انکشافات کیے ہیں، وہ اس کے بارے میں بہت کچھ بتاتے ہیں۔سافٹ ویئر تکنیک کے ماہرین سنوڈین نے ایسے کچھ طریقوں کا مظاہرہ بھی کیا ہے، جن کے ذریعہ اس طرح کی جاسوسی سے بچا جاسکتا ہے۔ لیکن سنوڈین نے جب سی آئی اے چھوڑا تھا، تب سے اب تک تکنیکی جاسوسی والی مہارت کافی آگے بڑھ چکی ہوگی۔
اگر سی آئی اے ایسا کرسکتی ہے تو برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی-5نے ایسی کوشش نہیں کی ہوگی، یہ کیسے تسلیم کرلیا جائے؟ سائبر جاسوسی کارنامے تو گزشتہ کچھ وقت سے پوری دنیا میں موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔ اور یہ تسلیم کرنے کا بھی کوئی سبب نہیں ہے کہ اسرائیل سے مخالفت کا اظہار کرنے والے فرانس کی خفیہ ایجنسی ڈی جی ایس ای نے ایسی کوشش سے پرہیز کیا ہوگا۔ خود ہندوستان نے بھی ایسے کاموں کے لیے نیشنل ٹیکنیکل ریسرچ آرگنائزیشن نامی تنظیم بنائی ہے جو راست قومی سلامتی کے مشیر کے ماتحت کام کرتی ہے۔ اٹل بہاری واجپئی کے دورحکومت میں بنی یہ تنظیم کتنی کامیاب رہی ہے، اسے ہم نہیں جانتے لیکن کچھ گھوٹالوں کے لیے یہ تنازعات میں ضرور رہی ہے۔ ویسے یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ کامیاب انٹلیجنس وہی ہے جس کی کامیابی- ناکامی کے بارے میں کسی کو خبر نہ لگے۔ ایسے کام کیوں کہ سرکاری ایجنسیاں کرتی ہیں اس لیے عموماً ان کے بارے میں بہت زیادہ علم نہیں ہوپاتا ہے۔
پیگاسس سرکاری ایجنسی نہ ہوکر ایک پرائیویٹ کمپنی ہے، اس لیے تنازع اٹھتے ہی اس کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہوگیا۔ یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اس کے اسپائی ویئر کی قیمت کتنی ہے اور یہ بھی کہ جن اسمارٹ فون کی اس سے جاسوسی کی جارہی ہے، یہ ان سب کی کل قیمت سے بھی ہزاروں گنا مہنگا ہے۔ پہلی نظر میں یہ دھندہ کافی منافع والا لگتا ہے اور اس لیے ممکن ہے کہ پوری دنیا کی دیگر کمپنیاں بھی اس کاروبار میں کودنے کی کوشش کریں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کیلیفورنیا کی کوئی کمپنی اسے ڈیولپ کرنے کا کام بنگلورو یا گڑگاؤں میں کسی اسٹارٹ اپ کو سونپ دے۔ پھر جو پاکستان ایٹمی بم بنانے کی کوشش کرسکتا ہے، وہ اسے بنانے کی کوشش کیوں نہیں کرے گا؟
پیگاسس کا معاملہ دراصل ایک ایسی دنیا میں آیا ہے جو رازداری کی خلاف ورزی کے خلاف اپنی جنگ تقریباً ہار چکی ہے۔ آپ کی رازداری ہر لمحہ بڑے پیمانہ پر پوری دنیا کے بڑے بڑے سروروں کے حوالہ ہورہی ہے۔ اس کا ایک مکمل بازار ڈیولپ ہوچکا ہے، جہاں ہماری آپ کی رازداری کی قیمت بھی لگتی ہے اور اس کی خرید و فروخت بھی ہوتی ہے۔ پیگاسس جیسے اسپائی ویئر کسی کی بھی رازداری کو حاصل کرنے کا یہی کام زیادہ گہرائی سے کرتے ہیں، لیکن وہ اس بازار میں نہیں آتے۔ وہ رازدای کے کاروبار میں نہیں ہیں، بلکہ وہ رازداری کے سیاسی استعمال کے لیے بنائے گئے ہیں، جو کئی طرح سے زیادہ خطرناک بات ہے۔
جب تک دنیا میں رازداری کی خلاف ورزی کے طریقے موجود ہیں، ایسے اسپائی ویئر ڈیولپ ہوتے رہیں گے۔ کیا انہیں روکا جاسکتا ہے؟ خاص طور پر تب، جب اس کے لیے لڑنے والی طاقتیں تھک چکی ہیں اور کئی عدالتوں میں ہار چکی ہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)