ستیش سنگھ
ہندوستان میں سائبرکرائم میں بہت زیادہ تنوع آیا ہے۔ ’تو ڈال ڈال، میں پات پات‘ کی طرز پر مجرم اپنے نئے نئے طریقوں سے سائبر کرائم کو انجام دے رہے ہیں۔ نئی موڈس آپرینڈی ہے ’ڈیجیٹل ہاؤس اریسٹ‘۔ اس تکنیک کی مدد سے آن لائن فراڈ میں کافی تیزی آئی ہے۔ مثال کے طور پر 11مئی کو ایک بزرگ ڈاکٹر کو ڈیجیٹل طور پر ہاؤس اریسٹ کرکے 45لاکھ روپے ٹھگے گئے۔ 15اپریل کو اندور میں ایک زوجین کو53گھنٹوں تک ہاؤس اریسٹ کرکے رکھا گیا اور لاکھوں روپے ٹھگے گئے۔ 6جولائی کو وارانسی میں 3دنوں تک ڈیجیٹل ہاؤس اریسٹ کے ذریعہ سوناپورہ کے نہار پروہت کے 28.75لاکھ روپے ٹھگے گئے۔
آج کل آن لائن گیمنگ کے ذریعہ بھی ٹھگی کی جارہی ہے۔ کوریئر، رشتہ دار، دوست کی گرفتاری وغیرہ کی دھمکی، فحش ویڈیو وغیرہ نئے نئے طریقوں سے ٹھگی کرنے کی واردات میں تیزی آئی ہے۔ اسنیپ چیٹ، فیس بک اور انسٹاگرام بھی اب ٹھگی کے وسائل بن گئے ہیں۔ دوست یا رشتہ دار کی فیک پروفائل بناکر ایسی ٹھگی کو انجام دیا جارہا ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 2023میں ہندوستان میں 30,000کروڑ روپے سے زیادہ کی دھوکہ دہی کی گئی اور گزشتہ دہائی میں ریزرو بینک آف انڈیا میں 65017 دھوکہ دہی کے معاملات درج ہوئے۔ یہ اعداد و شمار یقینی طور پر خوفزدہ کرنے والے ہیں۔
حالیہ برسوں میں کال فارورڈنگ کے ذریعہ سائبر کرائم کرنے کے واقعات میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔ ٹیلی کام کمپنیاں صارفین کو کال فارورڈنگ کی سہولت دیتی ہیں، جس کے تحت کال اور ایس ایم ایس کو فارورڈ کیا جاتا ہے۔ اس سہولت کا استعمال صارف تک کرتے ہیں، جب میٹنگ یا کسی ضروری کام میں مصروف ہوتے ہیں، تاکہ کوئی ضروری کال مس نہ ہو۔ اس کے ذریعہ اسکیمر کال کرکے صارفین کو یہ کہتا ہے کہ ہم آپ کی ٹیلی کام پرووائڈر کمپنی سے بول رہے ہیں۔ ہم نے نوٹس کیا ہے کہ آپ کے نمبر پر نیٹ ورک کا مسئلہ ہے۔ پریشانی کو دور کنے کے لیے آپ کو ’اسٹار401ہیش ٹیگ‘ نمبر ڈائل کرنا ہوگا۔ یہ نمبر ڈائل کرنے کے بعد صارف کو انجان نمبر پر کال کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ جیسے ہی صارف کال کرتا ہے، اس کے سبھی کال اور میسیجزاسکیمر کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ محققین کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے حال ہی میں ’ورلڈ سائبر کرائم انڈیکس‘ تیار کیا ہے، جس کے مطابق سائبر کرائم کے معاملات میں ہندوستان دنیا میں 10ویں مقام پر ہے۔ اس انڈیکس میں 100ممالک کو شامل کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق سائبر کرائم کے معاملات میں روس سرفہرست ہے، جبکہ یوکرین دوسرے، چین تیسرے، امریکہ چوتھے، نائیجیریا پانچویں، رومانیا چھٹے اور شمالی کوریا ساتویں مقام پر ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں سے گوگل سرچ انجن پر لوگ اپنے ہر سوال کا جواب تلاش کررہے ہیں۔ اس طرح کی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹھگ فیمس پیمنٹ ایپ جیسے گوگل پے، فون پے، پے ٹی ایم کے نام سے اپنا نمبر انٹرنیٹ پر محفوظ کررہے ہیں جس کی وجہ سے خود سے لوگ ہیکرس کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔
اب تو براؤزر ایکسٹینشن کی ڈاؤن لوڈنگ کے ذریعہ بھی سائبر کرائم کیے جارہے ہیں۔ یہ کام وائرس کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ پبلک چارجر پورٹ کے ذریعہ سے بھی موبائل اور لیپ ٹاپ وائرس سے متاثرہوجاتے ہیں۔ کروم، موزیلا وغیرہ براؤزر کے ذریعہ کیے گئے آن لائن لین دین براؤزر کے سرور میں محفوظ ہوجاتے ہیں، جنہیں سیٹنگ میں جاکر ڈیلیٹ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن لاعلمی کی وجہ سے لوگ ایسا نہیں کرتے ہیں اور اس کا فائدہ سائبر ٹھگوں کو مل جاتا ہے۔ فشنگ کے تحت کسی بڑی یا معروف کمپنی یا پھر یوزر کی کمپنی کا فیک ویب سائٹ بناکر، جس کی شکل اصلی ویب سائٹ جیسی ہوتی ہے سے دلکش میل کیے جاتے ہیں، جس میں مفت میں مہنگی چیزیں دینے کی بات کہی گئی ہوتی ہے۔ موبائل کے استعمال میں اضافہ کے بعد ہیکرس ایس ایم ایس یا واٹس ایپ کے ذریعہ بھی آفر والے میسیج بھیجتے ہیں، جن میں میل ویئرپر مشتمل ہائپر لنک دیا ہوتا ہے۔ میل ویئر، کمپیوٹر یا موبائل یا ٹیب میں انسٹال سافٹ ویئر کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ یوزر کی مالی معلومات جیسے ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈ کی تفصیل، ان کے پاسورڈ، او ٹی پی، موبائل نمبر، ایڈریس، بینک اکاؤنٹ نمبر، تاریخ پیدائش وغیرہ چوری کرلیتا ہے۔ یہ یوزر کی معلومات کے بغیر اس کے ای-میل اکاؤنٹ سے دوسرے کو فرضی ای-میل بھی بھیج سکتا ہے اور اس کے ذریعہ ٹھگی کرنے کے ساتھ ساتھ حساس معلومات غلط لوگوں کو فروخت بھی کی جاسکتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ، اس کی مدد سے کسی کے سماجی وقار کو بھی داغدار کیا جاسکتا ہے۔
آج کل سائبر کریمنل فون کالس یا ایس ایم ایس کے ذریعہ لوگوں کو بغیر قرض لیے ہی قرض دار بتا کر ان سے پیسوں کی وصولی کررہے ہیں۔ ایسی بلیک میلنگ چھوٹی رقم مثلاً 2000سے 5000روپے کے لیے زیادہ کی جارہی ہے، تاکہ معاشی طور پر کمزور لوگ پولیس سے شکایت نہیں کریں۔ لون ریکوری ایجنٹ یہ دھمکی دیتے ہیں، آپ نے ہم سے قرض لیا ہے اور اگر 2-3دنوں میں پیسے واپس نہیں کریں گے تو آپ کی قابل اعتراض تصاویر وائرل کردی جائیں گی یا آپ کے رشتہ داروں یا ساتھ میں کام کرنے والوں کے ساتھ شیئر کردی جائیں گی اور ثبوت کے طور پر وہ موفرڈ فوٹوز اور ویڈیو بھیجتے ہیں۔ موبائل ایپ سے لون لینا سودخور یا مہاجن یا ساہوکارسے بھی زیادہ خطرناک ہے۔
کئی بار لون ریکوری ایجنٹ لوگوں سے صرف پیسے ہی نہیں ٹھگتے ہیں، بلکہ معاشرہ میں انہیں بدنام بھی کردیتے ہیں۔ اگر لوگ براؤزنگ سیشن کے دوران مشکوک پاپ اپ سے الرٹ رہیں اور یقینی کریں کہ ویب سائٹ یا موبائل یا پبلک لیپ ٹاپ یا ڈیسک ٹاپ پر کارڈ کی معلومات شیئر نہیں کریں گے، انجان نمبر یا ای-میل آئی ڈی سے آئے اٹیچ منٹ کو فوراً ڈیلیٹ کردیں گے اور آن لائن لاٹری، کیسینو، گیمنگ، شاپنگ یا فری ڈاؤن لوڈ والے میسیج کو نظرانداز کریں گے تو فشنگ میل یا ایس ایم ایس یا واٹس ایپ کے ذریعہ فارورڈ ہونے والے مشکوک ہائپر لنک کے جال سے بچا جاسکتا ہے۔ معاملہ میں احتیاط ہی بچاؤ ہے۔ لالچ نہیں کریں۔ یہ سبھی پریشانیوں کی جڑ ہے۔ نفسیاتی دباؤ میں نہیں آئیں۔ دھمکی ملنے پر پولیس کی مدد لینے سے ہچکچائیں نہیں۔ تبھی سائبر کرائم کا شکار بننے سے بچا جاسکتا ہے۔
rvr