نئے دور میں نئی چیزوں کی ایجاد ہوتی ہے۔ کچھ نئی چیزیں انسانوں کے بھلے کے لیے ہوتی ہیں اور کچھ انسانوں کے لیے مضر ہوتی ہیں مگر دنیا اگر اچھائی اور برائی میں الجھتی نہیں تو اس کی ارتقا بھی نہیں ہوتی، وہ تھم جاتی۔ برائی نے کچھ انسانوں کو راغب کیا تو اس پر قابو پانے اور اسے ختم کر ڈالنے لیے بھی کئی انسان متحرک رہے۔ کمپیوٹر کی ایجاد اور انٹرنیٹ نیٹ کے متعارف کرائے جانے کے بعد بھی ان دونوں قسموں کے انسان اپنی اپنی جگہ متحرک ہیں۔ سائبر جرائم کرنے اور لوگوں کے روپے اڑانے والے آئے دن نئے نئے طریقوں کی ایجاد کرتے رہتے ہیں تو انہیں گرفت میں لینے کے لیے سائبر سیکورٹی سے وابستہ لوگ بھی اپنی مستعدی کا ثبوت دیتے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود دنیا بھر میں سائبر جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ سائبرجرائم میں کتنی تیزی سے اضافہ ہوا ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ میک ایفی (McAfee) کی رپورٹ کے مطابق، 2014میں سائبرجرائم کی وجہ سے عالمی اقتصادیات کو 445 ارب ڈالر کا چونا لگا تھا۔ یہ رقم آج بھی اتنی بڑی ہے کہ دنیا کے 35 ملکوں کی جی ڈی پی ہی 445 ارب ڈالر یا اس سے زیادہ ہے جبکہ 8 برس پہلے کے مقابلے اس ختم ہورہے سال تک سائبر جرائم اور بھی سنگین صورت اختیار کرچکے ہیں۔ میک ایفی نے سینٹر فار اسٹرٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ساتھ اس ایشو پر ریسرچ کرنے کے بعد یہ رپورٹ دی تھی کہ 2018 تک سائبر جرائم کی وجہ سے دنیا کو 600 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ یہ کتنی بڑی رقم ہے، اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ دنیا کے 25 ملکوں کی جی ڈی پی ہی 600 ارب ڈالر یا اس سے زیادہ ہے۔ ایک سال بعد 2020 میں میک ایفی نے یہ چونکانے والی رپورٹ دی کہ سائبر جرائم کی وجہ سے عالمی اقتصادیات کو ایک ٹریلین یعنی 10 کھرب یا اس سے زیادہ کا نقصان ہو رہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی رقم کتنے ملکوں کے پاس ہے؟ اس کا جواب جاننا ضروری ہے تاکہ معلوم ہو کہ سائبر جرائم دنیا کے لیے کتنا مہلک بن چکے ہیں اور ان پر جلد از جلد قابو پانا کتنا ضروری ہو گیا ہے۔ میک ایفی کے مطابق، 2020میں سائبر جرائم کی وجہ سے عالمی اقتصادیات کو اتنی بڑی رقم کا نقصان ہو رہا تھا جو دنیا کے 18 ہی ملکوں کے پاس ہے۔ جی ہاں! دنیا کے 18 ہی وہ ممالک ہیں جن کے پاس ایک ٹریلین ڈالر یا اس سے زیادہ کی رقم ہے مگر کیا سائبر جرائم کی وجہ سے دنیا کو ہونے والے نقصان کی حد یہیں تک رہے گی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب پڑھ کر سوچنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے کہ دنیا کیا تھی، کیا ہوتی جا رہی ہے اور کیا ہو جائے گی۔
دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو کوئی بھوکا آدمی ایک روٹی چرا لیتا ہے تو اسے چور سمجھ کر اس کی پٹائی کر ڈالتے ہیں، اسے سخت سے سخت سزا دلانے کی کوشش کرتے ہیں، اس کا جینا دوبھر کر دیتے ہیں جبکہ اسی دنیا میں سائبر جرائم کرنے والوں کا دھندہ پھول پھل رہا ہے اور دنیا بھر کی پولیس بھی اس دھندے کو مندا کرنے میں ناکام ہے۔ یہ سوال جواب طلب ہے کہ اگر نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے سائبر جرائم پیشہ افراد لوگوں کے ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں روپے اڑا لیتے ہیں تواسی ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے انہیں ایسا کرنے سے روکنے میں کامیابی کیوں نہیں مل پا رہی ہے؟ کیا وجہ ہے کہ ان کا دھندہ تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے؟ وہ رقم جو سائبر جرائم ہر سال اڑا لیتے ہیں، اسے اگر دنیا بھر کے لوگوں کو غدا فراہم کرانے میں خرچ کی جاتی تو کیا ان لوگوں کی زندگی نہیں بچائی جاسکتی تھی جو بھوک کی وجہ سے دم توڑ دیتے ہیں؟ بھوک کی وجہ سے روزانہ جان گنوانے والے لوگوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ سائبر جرائم پیشہ افراد جو رقم نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے چوری کر لیتے ہیں، اس رقم کا استعمال اگر دنیا بھر کے لوگوں کو صاف پانی فراہم کرانے پر کیا جاتا تو لوگوں کو گندا پانی پینے پر مجبور تو نہ ہونا پڑتا، انہیں پانی سے ہونے والی بیماریوں سے پریشان تو نہ ہونا پڑتا، ان بیماریوں کی وجہ سے انہیں جان تو نہ گنوانی پڑتی۔ کیا سائبر جرائم پر قابو پانا انسانی فلاح و بہبود کے لیے ضروری نہیں ہے کہ اس ایشو پر عالمی سطح پر وہ سنجیدگی نظر نہیں آتی جو آنی چاہیے تھی؟ سوال یہ بھی ہے کہ اگر اب سائبر جرائم پر توجہ نہیں دی گئی تو پھر کب دی جائے گی؟ سائبرجرائم سنگین اس لیے بھی ہیں کہ عام لوگ اس کے اثرات سے بچنے کی کوشش تو کر سکتے ہیں مگر اس سے بچنا ان کے لیے بے حد مشکل ہے اور اس سے زیادہ مشکل ہے کہ اس کی روک تھام کی کوشش کرنا، کیونکہ سائبر جرائم کمپیوٹر اورانٹرنیٹ ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے کیے جاتے ہیں اور ان کی روک تھام کرنے کے لیے بھی کمپیوٹر اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کا ماہر ہونا ضروری ہے۔ سائبر جرائم پیشہ وہ عام چور نہیں ہیں کہ ذرا ہمت کیجئے، طاقت دکھائیے اور انہیں پکڑ لیجئے، انہیں پکڑنے کے لیے صرف ذہانت سے بھی کام نہیں چلے گا، چنانچہ انہیں پکڑنے کے لیے حکومتوں کو ہی سنجیدہ کوشش کرنی ہوگی، کیونکہ اس اندیشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ 2025 تک سائبر جرائم میں حیرت انگیز اضافہ ہو جائے گا۔ اس وقت تک یہ جرائم عالمی اقتصادیات کو سالانہ 10.5 ٹریلین ڈالر چونا لگانے لگیں گے اور 10.5 ٹریلین ڈالر کتنی بڑی رقم ہوتی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگانا آسان ہے کہ امریکہ اور چین کے علاوہ کسی بھی ملک کی اقتصادیات 10.5 ٹریلین ڈالرسے زیادہ کی نہیں۔ اقتصادیات کے معاملے میں امریکہ اور چین کے بعد جاپان کا نمبر آتا ہے۔ اس کی اقتصادیات بھی 4.3 ٹریلین ڈالر کی ہی ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ عالمی اقتصادیات کے لیے سائبر جرائم ایک بڑی چنوتی بننے جا رہے ہیں۔n
دنیا کیلئے مسئلہ بنتے سائبر جرائم
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS