یوگیندر یادو
ہمیں اس بات کی تصدیق ہونے لگی ہے جو کرناٹک کے الیکشن میں نظرآئی تھی۔ اب 2024کے الیکشن میں کھلا مقابلہ ہوگا۔ اب یہ کہا جانا کہ حکمراں جماعت دوبارہ اقتدار میں لوٹے گی، آسان نہیں رہ گیا ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے اچھی خبر ہے جو ہندوستان کے جمہوری نظام کو اہمیت دیتے ہیں۔ مگر یہاں یہ بات بھی بتانا ضروری ہے کہ 2024کا الیکشن کوئی آسان الیکشن نہیں ہوگا۔ لہٰذا وہ لوگ جو کہ ہندوستان کے جمہوری نظام کو اہمیت دیتے ہیں ان کو اپنے آپ کو منظم اور متحد کرنا ہوگا۔ 2024کی انتخابی جنگ کس طرح کی ہوگی۔ اس کے بارے میں بتانا کچھ مشکل نہیں رہ گیا ہے۔
بی جے پی کی حکمت عملی نریندرمودی کے گرد گھومے گی۔ ان کی طاقت مودی ہیں اور مودی کا کرشمہ ہے جبکہ ان کی کمزوری مودی سرکار کی کارکردگی ہے اور موقع کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ آخری وقت میں کوئی حربہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ مودی کی امیج حال ہی میں خراب ہوئی ہے۔ ہندوستان کی اپوزیشن کی طاقت یہاں کے جغرافیہ اور یہاں کے سماج میں مضمر ہے۔ جبکہ اس کی کمزوری یہاں کی تاریخ اور نفسیات ہے۔ اگرچہ اقتصادی میدان میں جو صورت حال ہے وہ اپوزیشن کے لیے ایک موقع ہے۔ لیکن سب سے خطرناک صورت حال سیاست سے پیدا ہوتی ہے۔ ایک سروے جو سی ایس ڈی ایس کی لوک نیتی ٹیم نے کیا تھا اور یہ این ڈی ٹی وی پر دو حصوں پر نشر ہوا تھا اور اس کے بعد اس سلسلہ میں دو آرٹیکل پرنٹ میں بھی شائع ہوئے تھے۔ لوک نیتی سروے پبلک رائے عامہ کو پرکھنے کے لیے سب سے مناسب پیمانہ ہے۔ اگرچہ اس میں صرف 700 لوگوںکی رائے لی گئی تھی۔ مگر یہ کسی حد تک ہندوستان کے ووٹرس کی رائے اور ان کی نبض کو بیان کرتا ہے۔ اس سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ قومی سطح پرکانگریس کے 10فیصد ووٹ اضافہ میں ہوا ہے۔ اس سے اس تاثر کی تصدیق کی ہوجاتی ہے کہ 2024کا الیکشن میں کھلا کھیل ہوگا۔ اس سروے میں ایک بات اور سامنے آئی ہے کہ اگر اپریل 2023کے آخری ہفتے میں کرناٹک کا الیکشن ہوتا تو کانگریس کا ووٹ فیصد 29ہوجاتا ہے۔ یعنی اس کو ملنے والے ووٹ کی شرح میں2019کے الیکشن کے مقابلے میں ساڑھے 19فیصد کا اضافہ ہوجاتا ۔ یہ اضافہ غیر معمولی یعنی 7کروڑ ووٹوں کا ہے اور اس سے یہ بات سامنے آجاتی کہ کانگریس کی تقریباً وہی حیثیت ہوجاتی جو 2014کے الیکشن سے قبل ڈرامائی زوال کے بعد پیدا ہوئی تھی۔ اس سروے میں ایک اور اہم بات کی طرف اشارہ کیاگیا ہے ۔ 2019کے الیکن میں بی جے پی کو ملنے والا ووٹ 37.4فیصد تھا اور اب اس کو 39فیصد ووٹ ملا ہے۔
لوک نیتی ٹیم نے اس صورت حال سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ کانگریس نے دوسری پارٹیوں کی قیمت پر یہ فائدہ حاصل کیا ہے۔ یہ پارٹیاں علاقائی پارٹیاں تھیں۔ اگرچہ لوک نیتی ٹیم نے ریاستی سطح پر ووٹ شیئر کوئی تجزیہ پیش نہیں کیا ہے اور صرف یہی نتیجہ اخذا کیا جاسکتاہے کہ کانگریس نے علاقائی پارٹیوں یا حلیفوں(این سی پی،جے ڈی یو اور آر جے ڈی) اور اپنے متوقع حلیفوں (ایس پی، وائی ایس آر سی اور ٹی ایس سی)اور ان پارٹیوں کی قیمت پر ووٹ حاصل کیا ہے جو بالکل غیر جانبدار رہے ہیں، (یعنی بی جے ڈی، ٹی آر ایس، عام آدمی پارٹی) یہ بہت مدد گار ثابت ہوسکتا ہے اور ان حالات میں کانگریس کے ساتھیوں کی تعداد نے بھی اضافہ ممکن ہے۔ سماجی سطح پر دیکھاجائے تو یہ اضافہ مسلمانوں اور حاشیہ پر زندگی گزرانے والے گروپوں اور غریبوں پر مشتمل ہے۔
آج کی صورت حال سے یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ تمام پارٹیوں کے اپنے کمزور نکات ہیں ۔ اپنی اپنی کمزوریاں ہیں۔ کچھ ایشوز پر وہ نروس ہیں ، کچھ پر ان کے لیے اچھی خبر ہے۔ مثلاً بی جے پی کو اس بات کی فکر ہونی چاہیے کہ کانگریس کے ووٹ شیئر میں اضافہ ہوا ہے اور کانگریس کو اس بات کی فکر ہونی چاہیے کہ بی جے پی کی ووٹ شیئر میں کمی نہیں آرہی ہے اور علاقائی پارٹیوں کو اس بات کی فکر کرنی چاہیے کہ دونوں قومی سطح کی سیاسی پارٹیاں ان کی قیمت پر آگے بڑھ رہی ہے۔ یہ جو شش وپنج ہے وہ تعمیری بھی ہے اور تخریبی بھی اور یہی صور تحال اگلے لوک سبھا الیکشن تک برقرار رہے گی۔ لوک نیتی کا سروے ہمیں یہ بتا تا ہے کہ کون سے ایشوز کارآمد اور کونسے کارآمد ثابت نہیں ہوں گے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پیسے کی طاقت میڈیا پر کنٹرول ، تنظیمی مشینری، بھارتیہ جنتا پارٹی کی طاقت ہے۔ اس کے علاوہ وزیراعظم نریندر مودی کی امیج احتیاط کے ساتھ تراشی گئی ہے اور اس کا خوب پروپیگنڈہ کیاگیا ہے۔ سروے میں اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ وہ ابھی تک مقبول ہیں اور اپنے دوسرے حریفوںسے آگے ہیں۔ حالانکہ راہل گاندھی کی مقبولیت اور قبولیت میں بھارت جوڑو یاترا کے بعد اضافہ ہوا ہے مگر وزیراعظم اور راہل کے درمیان ابھی بھی فاصلہ ہے۔ وزیراعظم کی بین الاقوامی سطح پر مقبولیت حاصل کرنے کے ہتھکنڈہ جس کو ہندوستانی میڈیا بڑی فرماں برداری کے ساتھ آگے بڑھاتا ہے۔ اس پروپیگنڈے کو بڑھانے میں مدد ملی ہے کہ وہ ایک بین الاقوامی سطح کے لیڈر ہیں اور ایک عام ہندوستانی کو یہ سب کچھ اچھا لگتا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی سب سے بڑی کمزوری بھی نریندر مودی ہیں جو ان کے کام کرنے کا انداز ہے اس کو ماہر اقصادیات پربھاکر پرکالا نے بہت مناسب طریقے سے بتایا ہے ۔انہوںنے اس کو تعجب خیز نااہلی قرار دیا ہے۔ وزیر اعظم کی اقتصادی امور میں ناکامی کو عام آدمی کو سمجھانا بہت مشکل ہے۔ اس کے علاوہ مودی اور شاہ نے جس طریقے سے اپنے حلیفوں کو درکنار کیا ہے اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کے پاس حلیف پارٹیوں کی کمی ہے۔ جنتا دل (یو) او راکالی دل نے این ڈی اے چھوڑ دیا ہے۔ شنڈے والی شیو سینا کی ادھوٹھاکرے کی شیو سینا کے مقابلے میں مقبولیت آدھی بھی نہیں ہے۔ (ملاحظہ کریں مراٹھی پیپر سکل کا تجزیہ)لہٰذا اب بی جے پی پر یہ پورا بوجھ ہے کہ وہ کس طرح 273سیٹیں حاصل کرپائے گی۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔
بی جے پی نے نریندرمودی پر حد سے زیادہ انحصار کیا ہے اس میں ایک خطرہ یہ ہے کہ اگر اچانک اس میں کوئی خرابی پیدا ہوتی ہے تو احتیاط سے وضع کی گئی یہ امیج بالکل منتشر ہوجائے گی۔ اس بارے میں سروے بالکل خاموش ہے۔ خاص طور پر وزیراعظم نریندر مودی کی امیج کا مودی اڈانی گٹھ جوڑ پر کیا اثر پڑا۔ لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ پر برقرار ہے کہ یہ اس گٹھ جوڑ کو لے کر کھڑے کیے گئے اعتراضات رافیل معاملہ کے مقابلے میں زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اگر اپوزیشن موڈانی(مودی – اڈانی)کے معاملے کو لگاتار اچھالتے ہیں تو اس کا فیصلہ کن فائدہ 2024 کے الیکشن میں ہوسکتا ہے۔
میرے خیال میں اپوزیشن کے لیے سب سے بڑی طاقت ہندوستان کی جغرافیائی رنگا رنگ بھی ہے۔ مختلف سیاسی پارٹیاں مختلف ریاستوں میں الگ الگ ڈھنگ سے بی جے پی کے خلاف مہم چلاتی ہیں۔ زیادہ تر ان پارٹیوں کی حمایت اقتصادی اور سماجی سیڑھی سے آتی ہے۔ اپوزیشن کی کمی یہ ہے کہ وہ بی جے پی کے خلاف واضح پیغام نہیں دی پاتی اور نہ ہی ان کے پاس کوئی ایسا معتبر پیغام رساں وسیلہ ہے جس کے ذریعہ اپوزیشن کے پاس سیدھے عوام تک پہنچا جاسکے۔ عام انتخابات سے پہلے اپوزیشن پارٹیوں کو اتحاد سے زیادہ ضروری ہے کہ وہ ایک متحدہ اور تال میل کے ساتھ بنایا گیا سیاسی بیانیہ وضع کرے۔ یہی وہ کمزوری ہے کہ جس کی بنیاد پر بی جے پی اپنے خلاف پروپیگنڈے کا مقابلہ کرلیتی ہے۔ جہاں تک میسینجر پیغام رساں وسیلہ کا تعلق ہے ۔ اس سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ راہل گاندھی نریندر مودی کے سب سے بڑے چیلنجر ہیں۔ وہ دوسرے اپوزیشن لیڈرو ںکے مقابلے میں آگے ہیں۔ انکلی مقبولیت کی شرح 2024کے مقابلے میں دوگنی ہوگئی ہے۔ مگر یہ مقبولیت اس سطح پر نہیں پہنچتی ہے جس سطح پر وہ فائنل مقابلہ میں داخل ہو کر جیت جائیں۔
جہاں تک حکمت عملی ہے کا تعلق ہے کہ اس سروے سے یہ بات نکل کر آئی ہے کہ اپوزیشن کو عام آدمی کی اقتصادی مشکلات کی طرف توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ یہ دکھتی رگیں کیا ہیں جو پہلے سے کہیں زیادہ واضح ہوگئی ہیں ۔ یہ مشکلات وہ بے روزگاری ، غربت اور قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہیں۔ اقتصادی سروے میں لوگوں نے کہاہے کہ گزشتہ چار سال میں ان کی مالی حالت بدترین سطح پر پہنچ گئی ہے اور وہ اقتصادی محاذ پر مودی کی کارکردگی سے ناخوش ہیں۔ لہٰذا اب اپوزیشن کے لیے ہے سب سے بڑا چیلنج خاص طور پر کانگریس کے لیے یہ ضروری ہوگیا ہے یہ کانگریس اقتصادی محاذ پر سماج کے نچلی سطح پر رہنے والے طبقات کے بارے میں کوئی معتبر اقتصادی تجاویز پیش کریں۔ اس طریقے سے آج ہم 2018کے دور میں پہنچ گئے ہیں یعنی 2019کے الیکشن سے ایک سال پہلے کا وہ دور ہے جب ہم اقتصادی بدحالی کو مودی سرکار کے خلاف استعمال کرسکتے ہیں۔ اسی وجہ سے مودی سرکار کی مقبولیت کی کمی واقع ہوگئی تھی۔ اس کے اس وقت بعد بی جے پی کی مدھیہ پردیش ، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں شکست ہوئی۔ اس وقت یہ امید ظاہر کی جار ہی تھی کہ بی جے پی کو کم از کم 100لوک سبھا سیٹوں کا نقصان ہوگا۔ مگر بعد میں پلوامہ بالا کوٹ معاملہ پیش آیا اور تمام اعداوشمار اور تجزیہ منہدم ہوگئے۔ حال فی الحال میں جو سروے سامنے آئی ہیں وہ 2018کے سی ایس ڈی ایس کے سروے کے قریب ہیں۔ اب اس میں اضافی عنصر بھارت جوڑو یاترا کا ہے اور اس سے اپوزیشن میں مثبت توانائی سراعت کرچکی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکمراں جماعت کے خلاف جو عدم اطمینان پایا جاتاہے کیا اس کو ہم کسی بڑی لہر میں تبدیل کرسکتے ہیں یا ہم 2019کی طرح آخری موقع کی کسی موڑ کا انتظار کریں گے۔ یہ سوال ہر ایک کے زبان پر ہے کہ کیا کوئی ایسا واقعہ پیش آسکتا ہے جو کہ ہندوستان کی سطح پر عین الیکشن کے موقع پر کوئی جذباتی لہر پیدا کردے۔ ہمیں ایک بات آخر میں فراموش نہیں کرنی چاہیے جس پر پرتاپ مہتا نے حال ہی میں اٹھائی ہے۔ انڈین ایکسپریس کے ایک آرٹیکل میں پوچھا ہے کہ کیا بی جے پی الیکشن میں شکست جھیل پائے گی اور کیا اس شکست کے بعد اقتدار سے بے دخل ہوجائے گی۔
rvr
موجودہ سیاسی حالات اور 2024 کا معرکہ : یوگیندر یادو
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS