چین- امریکہ تنازع بڑھنے کا اشارہ

0

دو طاقتور ملکوں کے لیڈروں کے مابین ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو ان کے باہمی تنازعات کے سلجھنے کا بھی امکان رہتا ہے مگر وہ گفتگو بند کرنے کا اشارہ دینے لگتے ہیں تو یہ تنازعات بڑھنے کا بھی اشارہ ہوتا ہے، اس لیے سنگاپور میں شانگری-لا ڈائیلاگ کے سالانہ ایشیائی سیکورٹی اجلاس میں امریکہ کی طرف سے امریکی اور چینی وزرائے دفاع کی ملاقات کی درخواست کرنے کے باوجود چین کا اس ملاقات کے لیے تیار نہ ہونا یہ اندیشہ پیدا کرتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی اور بڑھے گی، امریکی وزیر دفاع سے چینی وزیر دفاع کا ملاقات کرنے سے انکار کرنا یہ اشارہ بھی لگتا ہے کہ اس خطے کے حالات بدلیں گے۔ دراصل ایسا لگتا ہے کہ چینی حکومت نے یہ فیصلہ بہت سوچ سمجھ کراور وقت لے کر کیا ہے، کیونکہ امریکی وزارت دفاع کے حوالے سے جو رپورٹ آئی ہے، اس کے مطابق، چینی حکومت نے امریکی حکومت کو آخری وقت میں یہ اطلاع دی کہ امریکہ کے وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کی چین کے وزیر دفاع لی شنگفو سے سنگاپور میں ملاقات کی دعوت اسے قبول نہیں ہے، وہ اسے مسترد کرتی ہے۔ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے بجاطور پر اسے ’بڑی بدقسمتی کی بات‘ بتایا ہے۔ یہ بات اس لیے بھی بڑی ہو جاتی ہے، کیونکہ چینی وزیر دفاع سنگاپور میں منعقدہ اجلاس میں شرکت کر رہے تھے۔ گرچہ دونوں ملکوں کے دفاعی عہدیداروں کے مابین ملاقات ہوئی،انہوں نے 2 جون کو اجلاس کے موقع پر مصافحہ بھی کیا لیکن وزارئے دفاع کے درمیان ملاقات نہیں ہوئی۔
چینی حکومت کے تیور سے یہی لگتا ہے کہ وہ امریکہ کو سخت پیغام دینا چاہتی ہے اور اسی کے ساتھ ان ملکوں کو بھی اشارہ دینا چاہتی ہے جو امریکہ سے خوش نہیں اور چین کے قریب ہیں۔ دراصل چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات یہاں تک ایک دن میں نہیں پہنچے ہیں۔ براک اوباما کے امریکہ کا صدر رہتے ہوئے ایسا نہیں لگتاتھا کہ امریکہ چین کے خلاف اسی طرح کھل کر محاذ کھولے گا جیسے دوسری عالمی جنگ کے بعد اس نے سوویت یونین کے خلاف کھل کر محاذ کھولا تھا لیکن ڈونالڈ ٹرمپ کے امریکہ کا صدر بنتے ہی حالات بدل گئے۔ امریکہ نے چین کے خلاف ٹریڈ وار چھیڑ دی۔ اس سے اس کے چین سے تعلقات خراب ہوئے۔ ٹرمپ حکومت نے اس کی زیادہ پروا نہیں کی۔ اس کے بعد کورونا وائرس کو چین سے جوڑکر ’چائنا وائرس‘ یا ’ووہان وائرس‘ قرار دینے کی کوشش کی مگر اس کے لیے امریکہ کے اتحادی یوروپی ملکوں کے لیڈران ہی تیار نہیں ہوئے۔ یہ اشارہ تھا کہ امریکہ کی ہر بات یوروپی ممالک نہیں مانیں گے اور اشارہ یہ بھی تھا کہ چین سے وہ بالکل ہی تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتے، خاص کر امریکہ سے رشتہ نبھانے کے لیے وہ یہ نہیں چاہتے کہ چین سے ان کے تعلقات خراب ہوں۔ اوکس کی تشکیل کرتے وقت امریکہ نے بھی فرانس کا خیال نہیں کیا۔ اس کے بعد فرانس نے امریکہ اور چین کے سلسلے میں زیادہ واضح الفاظ میں اپنے موقف کا اظہار کیا۔ یوروپی یونین سے برطانیہ کے علیحدہ ہوجانے کے بعد چونکہ فرانس کی اہمیت بڑھ گئی ہے، کیونکہ وہ سلامتی کونسل کا مستقل ممبر ہے، اس کے پاس ویٹو ہے، وہ ایک بڑی فوجی طاقت ہے، اس کا اپنا ایک دائرۂ اثر ہے، اس لیے چین کا حوصلہ بڑھنا فطری ہے۔ دوسری طرف روس اس کے ساتھ کھڑا ہے۔ روس چاہتا ہے کہ ڈالر کی جگہ یوآن لے۔ اس سے خود روس کا فائدہ ہے اور چین کا تو خیر بہت فائدہ ہے۔ لاطینی امریکہ میں یوآن کی بڑھتی مقبولیت بھی چین کے لیے حوصلہ افزا ہے۔ ادھر امریکی لڑاکا طیارے نے گزشتہ دنوں جس طرح اپنی حدود میں پرواز کرنے والے چینی غبارے کو یہ کہہ کر مار گرایا کہ وہ جاسوس غبارہ تھا، اس سے چین ناراض ہے۔ جنوبی بحیرۂ چین اور شرقی بحیرۂ چین میں کئی ملکوں کے علاقوں پر چین دعوے کرتا ہے مگر ان پر کنٹرول کے لیے امریکہ ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ برسوں میں امریکہ کی تائیوان پالیسی بدلی ہے جبکہ چین آج بھی تائیوان کو اپنا حصہ مانتا ہے اور اس پر قبضہ جمانا چاہتا ہے۔ ایسی صورت میں چینی حکومت امریکہ سے اگر دوری بناتی ہے تو اس سے یہی سمجھا جانا چاہیے کہ امریکہ کے خلاف اس کی پالیسی اور زیادہ جارحانہ ہوگی۔ ظاہر ہے، اس کا جواب امریکہ بھی دے گا اور دو طاقتور ملکوں کے درمیان جب ایک دوسرے کو جواب دینے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے تو کیا ہوتا ہے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے لیے امریکہ اور سوویت یونین کی سرد جنگ کی تاریخ پڑھ لینا ہی کافی ہے اور یہ بھی جان لینا چاہیے کہ دیوار برلن، جرمنی کی ہی تقسیم کی علامت نہیں تھی، یہ دنیا کی بھی تقسیم کی علامت تھی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS