دم توڑتی مدد کی پکار

0

سنجے ورما

بحران اکثر اَن دیکھے-انجانے ہوتے ہیں۔ آفتیں بتاکر نہیں آتیں۔ صدیوں سے یہی ہوتا آیا ہے۔ لیکن انسانی تہذیب نے ترقی کے ساتھ بحران سے مقابلے کی کئی تدبیریں کی ہیں۔ آفت قدرتی ہو تو کئی جتن کرکے لوگوں کو ان سے باہر نکالا جاتا ہے۔ جہاں تک ممکن ہو، انہیں آنے والی مصیبت کے بارے میں پہلے سے مطلع کیا جاتا ہے۔ پھر بھی اگر کوئی کسی بھی بحران میں پھنس جائے تو اس کی معلومات حاصل کرنے کے انتظامات کیے جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک مینجمنٹ ہے ہیلپ لائن۔ فون سے کی جانے والی مدد کی پکار۔ اسے کبھی پولیس سنتی ہے، کبھی فائر بریگیڈ ڈپارٹمنٹ، کبھی اسپتال تو کبھی ڈیزاسٹر کنٹرول روم۔ مگر کیا ہو، اگر مصیبت میں پھنسے لوگوں کی پکار کو سننے والا سسٹم کام ہی نہ کرے۔ وہ ہیلپ لائنیں بند ملیں، جن پر مدد کی اپیلوں کو سننے اور متعلقہ لوگوں تک انہیں پہنچانے کی ذمہ داری ہے۔ کورونا دورمیں کچھ ایسا ہی ہمارے ملک میں متعدد سطح پر ہوتا نظر آیا ہے۔
جرائم، بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی، استحصال، آگ، بیماری کی آفت وغیرہ تمام حالات سے باہر نکلنے میں مدد مانگنے کے لیے اکثر لوگ ٹیلی فون کی پناہ میں جاتے رہے ہیں۔ دی گئی ہیلپ لائن کے ذریعہ ضرورت کے مطابق کبھی پولیس کی پی سی آر وین کو بلایا جاتا ہے تو کبھی اسپتال کی ایمبولینس کو۔ سیلاب، زلزلہ، سونامی، طوفان، ریل حادثات وغیرہ حالات میں اکثر حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے غیرمستقل قسم کی ہیلپ لائنیں قائم کی جاتی ہیں۔ ان پر مصیبت میں پھنسے لوگوں کی اپیل سننے اور ان تک مدد پہنچانے کے انتظامات کیے جاتے ہیں۔ یہ ہیلپ لائنیں کتنی طرح کی ہوسکتی ہیں، اس کا اندازہ ادھر کورونا سے پھیلی وبا کے دور میں ملک میں ہورہا ہے۔ حال میں جس طرح سے کورونا کی دوسری تباہ کن لہر کے سبب ایمرجنسی حالات پیدا ہوئے ہیں، ان میں تمام قسم کی ہیلپ لائنوں کا سیلاب آگیا ہے۔ ہیلپ لائنوں پر پریشانیاں سنی جائیں اور حل کی کوششیں ہوں تو ایسی ہیلپ لائنوں سے بھلا کسی کو کیا انکار ہوسکتا ہے۔ لیکن جس عوام کو ان ہیلپ لائنوں سے مدد کی امید تھی، وہی عوام ان کی ناکامیوں کی کہانی کہہ رہے ہیں۔ لوگ بتارہے ہیں کہ یہ ہیلپ لائنیں مدد کرنے کے بجائے پریشانی زیادہ پیدا کررہی ہیں۔

ٹیلی کام کے اس جدید دور میں بھی اگر ہمارا سسٹم یہ معمولی طریقے اپنانے میں کامیاب نہیں ہے تو یہ ستم ظریفی ہے۔مختلف خدمات کیلئے متعدد ہیلپ لائن نمبروں کی بھرمار عوام میں سوائے پریشانی میں اضافہ کے مزید کچھ نہیں کرتی۔ اس کے علاوہ لاتعداد ہیلپ لائنوں سے جڑے ملازمین کام کررہے ہیں یا نہیں،اس کی نگرانی بھی نہیں ہوسکتی۔ ایسے میں زیادہ تر ہیلپ لائن ہاتھی کے دانت جیسے دکھاوٹی سسٹم بن کر رہ جاتی ہیں۔

وبا کے حالیہ دور میں کئی ریاستی حکومتوں نے متعدد ہیلپ لائنیں قائم کی ہیں۔ دہلی میں آکسیجن سلنڈر بھرنے کی معلومات دینے کی ہیلپ لائن ہے تو اترپردیش میں دواؤں اور آکسیجن سلنڈر کی کالابازاری روکنے کے لیے شکایت کرنے کی ہیلپ لائن ہے۔ صرف حکومت نہیں، مقامی انتظامیہ کے علاوہ سیاسی پارٹیوں نے عوام میں پکڑ بنانے کے لیے اپنی جانب سے بھی کئی ہیلپ لائنیں کھول دی ہیں۔ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ مریض اور ان کے اہل خانہ ان ہیلپ لائن خدمات سے طبی مشورہ کی سہولت، جانچ کے لیے نشان زد مراکز، سرکاری اور پرائیویٹ سیکٹر میں کورونا علاج کے لیے سہولت، دستیاب بستر، آکسیجن وغیرہ سے متعلق معلومات فون کرکے لے سکتے ہیں۔ دعویٰ یہ بھی ہے کہ یہ ہیلپ لائن نمبر چوبیس گھنٹے کام کرتے ہیں۔ بڑھ چڑھ کر یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ان ہیلپ لائنوں سے پورے ملک میں جاری کورونا وائرس کے قہر کے خلاف جنگ کا آغاز مؤثر طریقہ سے ہوسکے گا۔ یہ اقدامات بظاہر کافی اچھے لگتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک پر اس وقت جو مصیبت آئی ہے، گھر بیٹھے اس کا حل ہوجائے گا۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ ہیلپ لائنوں کا جنجال اپنے آپ میں کسی آفت سے کم نہیں ہے۔
ہیلپ لائنیں کس طرح کے بحران پیدا کررہی ہیں، حال میں اس کی لاتعداد مثالیں ملی ہیں۔ جیسے آکسیجن سلنڈر اور اسپتال میں مریضوں کے لیے خالی بستروں کی معلومات دینے والی ہیلپ لائنوں کا ہی قصہ ان کی بری حالت کی کہانی کہہ دیتا ہے۔ اول تو ایسی زیادہ تر ہیلپ لائنوں پر دوسری طرف کوئی فون اٹھانے والا نہیں ہوتا۔ آکسیجن کی یا اسپتال میں بستر کی ڈیمانڈ کررہا مریض کا رشتہ دار یا تو گھنٹوں ہیلپ لائن پر فون کرتے کرتے تھک جاتا ہے اور اس کا مریض بروقت علاج نہ ملنے کے سبب بے موت مرجاتا ہے یا پھر ہیلپ لائنوں پر ادھوری یا غلط معلومات دی جاتی ہیں۔ کئی تیمارداروں نے حال میں شکایت کی ہے کہ جن اسپتالوں نے اپنی ویب سائٹ پر بستر خالی ہونے کی معلومات شیئر کی، ہیلپ لائن پر فون کرنے سے انہی اسپتال میں کوئی بستر نہیں ہونے کی بات بتائی گئی۔ کہا گیا کہ وہ ویب سائٹ کے اعدادوشمار پر یقین نہ کریں۔ ایسے میں مریض اور ان کے تیماردار کیا کریں، یہ ان کی سمجھ میں ہی نہیں آتا۔ سچ تو یہ ہے کہ کچھ میڈیا آرگنائزیشنز نے جب حال میں کچھ ریاستوں اور شہروں میں جاری کیے گئے ہیلپ لائن نمبروں کی اصلیت جاننے کی کوشش کی تو پایا کہ ان میں سے زیادہ تر کام ہی نہیں کررہے ہیں۔ حالاں کہ ان میں سے کچھ نمبر صحیح ثابت ہوئے ہیں، لیکن بہت سے ہیلپ لائن نمبر ایسے تھے جن پر کوئی جواب نہیں مل رہا تھا۔
ہیلپ لائن نمبروں کا کام نہ کرنا یا ان سے صحیح معلومات نہ ملنے کا کیا اثر ہوتا ہے، اس کی ایک مثال تین سال قبل نیشنل کنزیومر ہیلپ لائن کے تعلق سے مل چکی ہے۔ کنزیومر کمیشن نے اپنی اس ہیلپ لائن کی حقیقت جاننے کے لیے 2018میں ایک انٹرنل سروے کرایا تھا۔ اس کے مطابق مختلف کمپنیوں کی پیداواروں، ان کی خدمت میں کمی سے متعلق معاملات میں صارفین نے شکایت کے ذریعہ جو جنگ چھیڑی تھی، ان میں سے 64فیصد شکایت کنندگان نے اپنی جنگ درمیان میں ہی چھوڑ دی، کیوں کہ ان کی شکایتوں کا کوئی نمٹارہ نہیں ہوا۔ سروے میں یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ 51فیصد لوگ اس ہیلپ لائن خدمت سے بالکل مطمئن نہیں تھے۔ یعنی ہیلپ لائن لوگوں کی امیدوں پر کھری نہیں اتری۔ ایسے میں سوال ہے کہ لاکھوں کروڑوں کے خرچ سے چلنے والی یہ سرکاری ہیلپ لائنیں کیسے حقیقت میں مصیبت کے ماروں کے لیے مددگار ثابت ہوں اور اپنی اہمیت ثابت کریں۔
اس کا پہلاطریقہ تو یہ ہے کہ ان کا ایک سینٹرلائزڈ سسٹم ہو اور خاص ضرورت کا نمبر ایک ہی ہو۔ جیسے حال میں ملک کی راجدھانی میں دہلی حکومت نے آکسیجن سلنڈر بھرنے کے لیے جو ہیلپ لائن شروع کی ہے، اس پر اترپردیش کے میرٹھ اور غازی آبادی کے علاوہ فریدآباد(ہریانہ) کے لوگ بھی مدد مانگنے لگے۔ وجہ یہ بھی ہے کہ دوسری ریاستوں کے لوگوں کے پاس اپنی ریاست میں قائم ایسی ہی کسی ہیلپ لائن کی کوئی معلومات نہیں تھی۔ اگر آکسیجن سلنڈر کی دستیابی کا کوئی ہیلپ لائن نمبر قائم کیا جارہا ہے تو مرکزی سطح پر یا پھر ساری ریاستیں مل کر ایک ہی نمبر نہیں بناسکتیں۔ ٹیلی کام کے اس جدید دور میں بھی اگر ہمارا سسٹم یہ معمولی طریقے اپنانے میں کامیاب نہیں ہے تو یہ ستم ظریفی ہے۔
مختلف خدمات کیلئے متعدد ہیلپ لائن نمبروں کی بھرمار عوام میں سوائے پریشانی میں اضافہ کے مزید کچھ نہیں کرتی۔ اس کے علاوہ لاتعداد ہیلپ لائنوں سے جڑے ملازمین کام کررہے ہیں یا نہیں،اس کی نگرانی بھی نہیں ہوسکتی۔ ایسے میں زیادہ تر ہیلپ لائن ہاتھی کے دانت جیسے دکھاوٹی سسٹم بن کر رہ جاتی ہیں۔ واضح ہے کہ اگر بطور ہیلپ لائن ایمرجنسی نمبر ہمیشہ ایکٹو نہیں رکھے جاسکتے اور ان کے ذریعہ لوگوں کی مدد نہیں ہوسکتی ہے تو انہیں بند کرنا زیادہ بہتر ہوگا۔ اس سے کم سے کم عوام کے پیسے کی بربادی تو رکے گی۔
(بشکریہ: جن ستّا)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS