ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے: وجہ القمر

0

وجہ القمر
7اکتوبر کا دن اسرائیل اور فلسطین کیلئے ایک بہت غلط اورغیرکارآمد ثابت ہوا، جو دونوں ملکوں کے لئے اچھی بات نہیں ہے بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا یہ دن فلسطین اور وہاں کے عوام کے لئے خاص طور پر اچھا نہیں رہا اور حماس کے احمقانہ فیصلہ سے دونوں ملکوں کے درمیان ایک بار پھر تنازعہ شروع ہو گیا ہے،جو تمام پرانے زخموں کو نوچنے کا کام کر رہا ہے ۔اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازع کا آغاز کوئی حالیہ واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ تنازع19ویں صدی کے آخر میں شروع ہوا تھا۔1897 میں فلسطین کے علاقے میںتقریباً24000 یہودی آباد تھے اور وہیں رہ کر اپنی نسلوں کوفروغ دے رہے تھے،مگران کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے فلسطینی باشندے ان پر مظالم ڈھانے لگے ،تاکہ یہاں سے سارے یہودی چلے جائیں۔اللہ کے یہاں ہرظلم کا حساب ہے اور اللہ نے مظلوم یہودیوں کی پکارسن لی اور فلسطین کے مظلوم یہودیوں نے یہاں سے جانے کے بجائے ،اس ظلم کے خلاف ایک تحریک شروع کردی اور خود کودنیا کے سامنے مظلوم کی حیثیت سے پیش کیا،جس کے بعد کئی ممالک ان سے ہمددری ظا ہر کرتے ہوئے ان کی حمایت میںکھڑے ہوگئے اور خاص طور پر برطانوی حکومت نے ان پر خوب نوازشات کی برسات کی اور انہیں فلسطین میںرہنے کیلئے سیکورٹی دستیاب کرائی۔
16 مئی 1916 کوجب پہلی جنگ عظیم جاری تھی حکومت برطانیہ اور فرانس کے درمیان طے پانے والا ایک خفیہ معاہدہ ہوا جوسائیکوس پیکوٹ معاہدہ کہلاتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت طے پائی جانے والی سرحدیں تقریباً وہی ہیں جو آج شام اور اردن کی مشترکہ سرحدیں ہیں۔معاہدے پر مذاکرات نومبر 1915 کو فرانسیسی سفیر فرانکوئس جورجز پیکوٹ اور برطانیہ کے مارک سائیکس کے درمیان شروع ہوئے تھے،جس کے بعد1916 میں جنگ خاتمہ کے بعد اردن، عراق اور حیفہ کے گرد کا مختصر علاقہ برطانیہ کو دیا گیا،جبکہ فرانس کو جنوب مشرقی ترکی، شمالی عراق، شام اور لبنان کے علاقے دیے گئے۔ یہی وجہ رہی کہ اس جنگ کے بعد جب فلسطین پر برطانوی حکومت کا قبضہ ہوا تواس وقت کے خارجہ سکریٹری جیمزبالفورنے اعلان کیا کہ جو علاقے میرے تحت آتے ہیں اس میں یہودی بھی رہ سکتے ہیںاور اس اعلان کے بعدہی فلسطین میں اسرائیل کے قیام کی باضابطہ طورپربنیاد رکھی گئی یعنی یہیں سے اسرائیل کے قیام کی کوشش کی شروعات ہوئی ۔
1930کے قریب جرمن میںجب نازی پارٹی کی حکومت قائم ہو ئی، جس کی قیادت ایڈولاف ہٹلر کررہا تھا، اس نے اپنے یہاں کے یہودیوں کو ان کی دغا بازی کی وجہ سے چن چن کر مارنا شروع کیا توجرمن سے یہودی بھا گنے لگے، جس کے بعد فلسطین کے علاقے میں جو یہودی پہلے سے ہی یہاں موجود تھے، انہوں نے انہیں فلسطین میںبلالیا اوراس طرح فلسطین میں بتدریج یہودی آبادیاں پھیلنی شروع ہوگئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے فلسطین میں یہودیوں کی جو آبادی1922میں 84000 تھی وہ 1931 میں بڑھ کر175000 ہوگئی پھر اس کے بعد فلسطین میں یہودیوں کے بسنے کا سلسلہ چل نکلا۔فلسطین میںیہودیوںکی بڑھتی آبادی کی جب فلسطینیوںنے مخالفت کی تویہیںسے دونوں ملکوں کے درمیان تنازعہ کا آغازہوا۔
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کودیکھتے ہوئے برطانیہ نے 1947 میں اسرائیل اور فلسطین کامسئلہ اقوام متحدہ کو بھیجا تھا۔ اس مسئلہ پر اقوام متحدہ کی طرف سے ایک جبریہ فیصلہ دیاگیا کہ فلسطین کی سرزمین کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے ایک حصہ عربوں کو اور دوسراحصہ یہودیوں کو دے دیا جائے۔ بعد ازاں اسی بیچ 1980 میں اسرائیلی پارلیمنٹ نے ایک قانون پاس کیا، جس کے تحت اس نے پورے یروشلم کو اسرائیل کی دارالحکومت قرار دے دیا۔
فلسطین اور اسرائیل کے درمیان شدید کشمکش کی روشنی میں اہل فلسطین نے ایک تنظیم بنائی تھی، اس تنظیم کا نام فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) رکھا۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد فلسطینی عوام کی بحالی، ان کی حفاظت اور اسرائیل کے خلاف کام کرنا تھاتاکہ فلسطینی عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بنایا جا سکے۔ہندوستان نے اس ’فلسطین لبریشن آرگنائزیشن‘ کو 1974 میں تسلیم بھی کیا تھا۔ اس وقت ہندوستان دنیاکاپہلا غیر عرب ملک تھا، جس نے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا۔ اس کے علاوہ ہندوستان نے بھی 1988 میں فلسطین کو باضابطہ طور پر ایک ملک تسلیم کیا تھا۔
1967 میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ایک اور جنگ ہوئی،چونکہ یہ جنگ 6 دن تک جاری رہی، اس لیے یہ جنگ تاریخ میں ’چھ روزہ جنگ‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس جنگ میں بھی اسرائیل کو عرب ممالک کی مشترکہ تنظیم کے خلاف فتح حاصل ہوئی۔ اس چھ روزہ جنگ کے نتیجے میں اسرائیل نے شام کے ’گولان ہائٹس‘ نامی علاقے پر قبضہ کر کے اسے اسرائیل کا حصہ بنا لیا تھا۔ اس کے علاوہ اس جنگ کے بعد اسرائیل نے اردن کے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم نامی حصوں پر بھی اپنا تسلط قائم کر لیاتھا، جبکہ اس جنگ کے بعد اسرائیل نے مصر کہلانے والے عرب ملک سے ’غزہ کی پٹی‘ اور ’جزیرہ نما سینائی‘ کے علاقے بھی چھین لیے تھے، تاہم بعد میں 1979 میں اسرائیل اور مصر کے درمیان ایک معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کے تحت اسرائیل نے 1982 میں جزیرہ نما سینائی مصر کو واپس کر دی۔ بدلے میں مصر نے اسرائیل کو ایک ملک کے طور پر تسلیم کر لیا۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جب کشمکش زیادہ بڑھ گئی اوراسرائیل طاقت میں اپنے تمام پڑوسیوں سے زیادہ ہوگیا اوراسرائیل نے فلسطین کے دیگرعلاقوں پر ظلم و جبر کے ذریعہ اپنے تسلط جمانے شروع کر دیئے تو فلسطینی عوام نے بھی اپنا مقصد حاصل کرنے کو سوچا اور انہوں نے 1987 میں’حماس‘ نام کی ایک تنظیم تشکیل دی۔ اس تنظیم کا مقصد جہاد کی مدد سے آزاد فلسطین کے قیام کے لیے ایک علاقے پر قبضہ کرنااوراسرائیل کے ظلم وجبر کا جواب دینا تھا۔ حماس نامی یہ تنظیم اقوام متحدہ کے ادارے کی طرف سے تجویز کردہ ’دو ریاستی حل‘ اور’اوسلو امن معاہدے‘ کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے،یہ تنظیم اس علاقے میں اسرائیل کے تمام دعووں کو یکسر مسترد کرتی ہے۔حماس کی طرح الفتح نامی تنظیم بھی فلسطین میں سرگرم ہے۔یہ تنظیم فلسطین کے لیے ایک خود مختار خطہ بنانے کی بھی خواہش مندہے اور اس تنظیم کا نظریہ حماس کے نظریے کے بالکل مختلف ہے۔ حماس کے برعکس یہ تنظیم اقوام متحدہ کے ادارے کی طرف سے تجویز کردہ ’دو ریاستی حل‘ اور ’اوسلو امن معاہدے‘ کو بھی قبول کرنے کو تیار ہے،لیکن وہ بھی اسرائیل کے ظلم وبربریت کے خلاف ہے۔اسرائیل اور فلسطین تنازع کے دوران اب تک کل 2 بغاوت ہو چکی ہیں۔ پہلی بغاوت1987سے 1993تک ،جبکہ دوسری بغاوت 2000سے 2005 تک ہوئی۔ جب پہلی بغاوت ہوئی تو اسرائیل شکست کے دہانے پر تھا،لیکن امریکہ اور روس نے اس کوفوراً بھانپ لیاکہ اگر اسرائیل جنگ میں گیا توشکست کھا جائے گا اوراس سے عرب ممالک میں اسرائیل کا جوطاقتورہونے کاڈرہے ختم ہوجائے گا،اس دونوں ممالک نے معا ہدے کیلئے ثالثی کردار ادا کرتے ہوئے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن معاہدہ کرادیا اور1993 میں طے پانے والے اس ’اوسلو امن معاہدے‘ کے تحت مختلف دفعات رکھی گئیں۔ ان کے تحت یہ طے پایا کہ اس علاقے کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، ان میں سے ایک حصہ فلسطین اور دوسرا حصہ اسرائیل کودیا جائے گا۔ اس معاہدے کے ذریعے یہ بھی طے پایا کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے علاقوں میں جنگ بندی عمل میں لائی جائے گی اور فلسطین کو مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے علاقوں کے بعض مقامات پر محدود خود مختاری کا حق دیا جائے گا۔ اس مقصد کے حصول کیلئے اسرائیل مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی دونوں میں کچھ جگہوں پر اپنے دعوے ترک کر دے گا، لیکن جیسا کہ آنحضورؐ نے یہودیوں کی دغابازی کے بارے میںفرمایا ہے کہ یہ تا قیامت مسلمانوں کے حامی مدد گار نہیں ہوسکتے،اس معا ہدے کے ساتھ بھی وہی ہوا اور اوسلو معاہدے کے تحت جودو علاقے( مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی) اسرائیل کوترک کر نے تھے اس میں سے کسی ایک پر بھی اپنا دعویٰ ترک نہیں کیا۔ جب اوسلو امن معاہدے کے تحت تجویز کردہ حل اسرائیل کے ضدی رویے کی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکا تو 2000 میں فلسطینی عوام کی طرف سے دوسری بغاوت کی گئی۔ اس بغاوت اور پرتشدد حملے کے ذریعہ فلسطینی عوام نے اسرائیلی بستیوں میں رہ رہے لوگوںکو بے دخل کرنا شروع کر دیا۔ ایسی پرتشدد صورتحال سے نمٹنے کے لیے اسرائیل نے فلسطینی بستیوں اور اسرائیلی بستیوں کے درمیان ’’ویسٹ بینک بیریئر‘‘ بنانے کا منصوبہ بنایا، تاکہ اسرائیلی عوام مستقبل میں فلسطین کی طرف سے کسی بھی پرتشدد حملوں سے محفوظ رہ سکیں۔اسرائیل نے فلسطین کے تعلق سے ایک غلط بات پورے ممالک کے سامنے رکھی کہ مسجد اقصی میں واقع’حرم الشریف‘ نامی جگہ سے یہودیوں کے مذہبی عنصر کا ثبوت ہے جو ہمیں چا ہئے اور اسی کے لئے ہم کوشش کر رہے ہیں،مگر2016 میں یونیسکو (جومذہبی مقامات کا تعین کرتی ہے )نے مسجد اقصیٰ کے کسی بھی حصہ کیلئے یہودیوں کے دعوے کو یکسر مسترد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ مسجد اقصیٰ پر یہودیوں کے کسی مذہبی عنصر کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے، اس لیے ان یہودیوں کا مسجد اقصیٰ پر کوئی حق نہیں ہے۔اس کے باوجود اسرائیل اپنے ضد پر اڑا ہوا ہے اورفلسطین میںخون بہا رہا ہے اوراس معا ملے پرتمام ملکوں اور خاص کریوروپی ممالک کی خاموشی اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے یہ سب ایک سازش کا حصہ ہے اور اس کے ذریعہ فلسطینیوں پر مزیدان کی ہی زمین تنگ کر نے کی سازش ہورہی ہے،کیو نکہ اوسلو معا ہدے کے تحت یہ کہا گیاتھا کہ اسرائیل فلسطین کے دو علاقے خالی کر ے گا،جس کو اسرائیل نے کبھی خالی نہیں کیا اور اوپر سے بہانا بنا کرغزہ کو اپنے قبضہ میں لے لیا،اس سے صاف ظاہر ہوتا کہ اسرائیل کی نیت صحیح نہیں بلکہ وہ ظلم وبربریت سے فلسطین کو قابو میں کرنا چاہ رہا ہے۔اسرائیل کے اس رویہ پر مجھے ساحر لدھیانوی ایک شعر یاد آرہا ہے،جوفلسطین کے لوگوں پرمرہم لگانے کا کام کرسکتا ہے۔
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS