بحران بنتی جراثیم کش ادویات

0

اکھلیش آرییندو

مرکزی حکومت نے گزشتہ کچھ برسوں سے نیم کوٹڈ یوریا کو فروغ دینے کے لیے تیاریاں شروع کردی ہیں۔ اس کی خوبیوں سے متعلق حکومت تشہیر بھی کرتی رہی ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھتا رہا ہے کہ کیا اس یوریا کے استعمال سے غذائی اجناس میں بڑھ رہے زہریلے عناصر میں کمی آئی ہے؟ غور طلب ہے کہ ہندوستان میں کوآپریٹیو کیمیائی کھاد کے کارخانوں میں نیم کوٹڈ یوریا بنائی جارہی ہے، لیکن اس سے کیمیائی کھادوں کے استعمال میں کوئی خاص کمی نہیں آئی ہے، بلکہ کیمیائی کھادیں پہلے سے زیادہ مہنگی ہوئی ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے کھیتی کی لاگت میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ایسے میں ترقی پسند کسانوں نے قدرتی کھیتی کا متبادل اپنانا شروع کردیا ہے۔ اب کسانوں نے قدرتی یا نامیاتی(آرگینک) کھیتی کو ایک مضبوط متبادل کے طور پر اپنا لیا ہے۔ غور طلب ہے کہ نامیاتی یا قدرتی کھیتی کی طرف ہندوستانی کسانوں کے رجحان میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ لیکن مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے نامیاتی کھیتی کو فروغ دینے کے لیے وہ سہولتیں مہیا نہیں کرائی ہیں جس سے کسانوں کو نامیاتی کھیتی کرنے میں سہولت ہوتی۔ اس کے باوجود نامیاتی کھیتی عام کسانوں کی پسند بنتی جارہی ہے۔
زرعی سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ نامیاتی یا قدرتی کھیتی کو فروغ دینے سے ماحولیات، غذائیت اشیا، زمین، انسان کی صحت، پانی کی شفافیت کو مزید بہتر بنانے میں مددملتی ہے۔ عام طور پر زراعت اور باغبانی میں بہتر پیداوار اور بیماریوں کے خاتمہ کے لیے فصلوں میں جراثیم کش ادویات کا استعمال ضروری سمجھا جاتا ہے۔ لیکن دیسی طریقہ سے کی جانے والی کھیتی اور باغبانی نے اس تصور پر سوال کھڑے کردیے ہیں۔ یہ جراثیم کش ادویات بہتر پیداوار کے لیے یا بیماریوں کو ختم کرنے کے لیے بھلے ہی ضروری سمجھی جارہی ہوں، لیکن اس سے کئی طرح کے مسائل، پیچیدگیاں اور بیماریوں کی وجوہات پیدا ہوگئی ہیں۔ غور طلب ہے کہ کیمیائی کھادوں اور جراثیم کش ادویات کے استعمال سے ہونے والی بیماریوں اور مسائل کی معلومات کی کمی کے سبب کسان ان کا استعمال اتنا زیادہ کرنے لگے ہیں کہ انہیں اس سے اب نئے نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اس کے باوجود کسانوں کو ان کے استعمال سے چھٹکارہ نہیں مل پارہا ہے۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے محکمہ زراعت جراثیم کش ادویات کے استعمال کو ضروری سمجھتے ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کا جب سے ملک میں دبدبہ بڑھا ہے، تب سے کھیتی اور باغبانی کے لیے جراثیم کش ادویات کی غیرملکی ادویات زیادہ استعمال ہونے لگی ہیں۔ فصلوں اور پھلوں کی پیداوار میں اضافہ اور ان میں پیدا ہونے والی بیماریوں کو ختم کرنے کے لیے جراثیم کش ادویات کا بے تحاشہ استعمال ہوتا ہے، لیکن ان کے استعمال سے کھیت بنجر ہورہے ہیں اور اناج و فصل جراثیم کش ادویات کے کیمیکل سے انفیکٹڈ ہوجاتے ہیں، اس وجہ سے بھی ان کے استعمال سے انسان کئی طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہوتا جارہا ہے۔
زرعی سائنسداں برسوں سے جراثیم کش ادویات کے استعمال سے ہونے والے تمام پیچیدہ مسائل کے تئیں آگاہ کرتے آرہے ہیں، لیکن نہ تو اس طرف مرکزی حکومت غور کررہی ہے، نہ ریاستی حکومتیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ جراثیم کش ادویات کے استعمال سے ہونے والی تمام سنگین بیماریاں لوگوں کے لیے بڑا بحران کھڑا کررہی ہیں۔ جراثیم کش ادویات میں سب سے زیادہ استعمال ایڈوسلفان کا کیا جاتا ہے۔ یہ محض فصلوں پر ہی نہیں، بلکہ سبزیوں اور پھلوں پر بھی کیا جاتا ہے۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق جراثیم کش ادویات کے استعمال سے ماحولیات پر شدید اثر پڑرہا ہے۔ فضائی آلودگی کی ایک وجہ جراثیم کش ادویات کا حد سے زیادہ بھی ہے۔ دیکھا جائے تو بچوں کے کئی مسائل جراثیم کش ادویات کے سبب پیدا ہورہے ہیں۔ کینسر، امراض جلد، آنکھ، دل اور ہاضمہ سے متعلق کئی مسائل کی وجہ یہ جراثیم کش ادویات ہی ہیں۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جن جراثیم کش ادویات پر امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں پابندی عائد کی جاچکی ہے، انہیں ہندوستان میں دھڑلے سے استعمال کیا جاتا ہے۔ جب کہ اس سے متعلق ماحولیات اور زراعت سے وابستہ ادارے حکومتوں اور کسانوں کو اس کے غلط اثر کے بارے میں آگاہ کرتے رہے ہیں۔
جراثیم کش ادویات کے استعمال سے تمام بیماریوں اور مسائل میں مسلسل اضافہ کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ لیکن دوسری جانب، ان کے استعمال کے بغیر بہتر کھیتی کرکے اچھی پیداوار لینے کے تجربے بھی ملک کے کئی حصوں میں ہورہے ہیں۔ سکم، اتراکھنڈ، اترپردیش، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، گجرات اور آندھراپردیش کے کسانوں نے اس سمت میں کامیاب تجربے کیے ہیں۔ اس میں جراثیم کش ادویات کی جگہ تین دن پرانے مٹّھے کا چھڑکاؤ اور سوکھی نیم کی پتیوں کا استعمال کیا گیا۔ آندھراپردیش کے 19اضلاع میں کسانوں نے جراثیم کش ادویات کے بغیر کامیاب کھیتی کرکے اور اچھی پیداوار حاصل کرکے یہ ثابت کردیا کہ جراثیم کش ادویات کے استعمال کے بغیر بھی منافع بخش کھیتی کی جاسکتی ہے۔ اس سے زمین کی زرخیری میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور ماحولیات کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ ایسے محفوظ تجربات سے اناج، سبزی اور پھلوں سے کسی کو کوئی بیماری بھی نہیں ہوتی ہے۔
دوسرا تجربہ راکھ کا کیا گیا ہے۔ راکھ سے جہاں زمین کی زرخیزی میں اضافہ ہوتا ہے، وہیں پر فصل کی پیداوار میں اضافہ کے لیے بھی یہ بہت کارگر ہے۔ زرعی سائنسداں اس بات سے حیرت زدہ ہیں کہ سودیشی طریقہ سے کھیتی اور باغبانی کو جتنا زیادہ مفید بنایا جاسکتا ہے، اتنا جدید طریقہ سے نہیں، بالخصوص فصلوں اور سبزیوں کو محفوظ رکھنے کے معاملہ میں۔ اس لیے ایسے تجربات کو سارے ملک کے کسانوں کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ اب زرعی سائنسداں بھی نامیاتی کھیتی کو کسان اور کاشتکاری کے لیے فائدہ مند اور محفوظ تسلیم کرنے لگے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ نامیاتی کھیتی سے ہی کھیتی خسارہ سے نکل کر فائدے میں آسکتی ہے۔ اس سے جہاں گاؤوں سے شہروں کی جانب ہورہی نقل مکانی/ہجرت کم ہوگی، وہیں کیمیائی کھاد اور جراثیم کش ادویات کے استعمال سے بڑھ رہے تمام طرح کے مسائل بھی کم ہوں گے۔
کھیتی کے ان سودیشی (اپنے ملکی)تجربات کو کسان بھلے ہی اپنا رہے ہیں، لیکن مرکزی حکومت اس سمت میں کوئی خاص دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کررہی ہے۔ ایسے کامیاب تجربے کرنے والے کسانوں کی مرکز اور ریاستوں کی طرف سے کوئی حوصلہ افزائی نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومتوں کو سودیشی طریقہ سے محفوظ کھیتی اور باغبانی کو بڑھاوا دینے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ جب کہ قدرتی طریقہ سے کی جانے والی کھیتی زمین، زندگی اور ماحولیات تینوں کے لیے متوازن اور سب سے بہتر طریقہ ہے۔
اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ جراثیم کش ادویات کو بنانے والی زیادہ تر کمپنیاں غیرملکی یعنی ملٹی نیشنل ہیں۔ ان کمپنیوں کو قائم رکھنے اور ان کے پروڈکٹ کو کھپانے کی ذمہ داری حکومتوں کی رہتی ہے۔ جب کہ سودیشی طریقہ سے کی جارہی کھیتی سے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جراثیم کش ادویات کی فروخت کم ہوتی ہے۔ ایسے میں بھلا مرکزی حکومت کیوں چاہے گی کہ سودیشی طریقہ سے کھیتی کو بڑھاوا ملے۔ شمال اور مشرقی ہندوستان کے کسان بھی جراثیم کش ادویات کے بغیر کاشتکاری اور باغبانی کے بہتر تجربات کو اپنا کر کھیتی اور باغبانی کو زہریلے کیمیکل سے نجات دلا سکتے ہیں۔ اس سودیشی تکنیک کی تشہیر کے لیے کسانوں کے مفاد چاہنے والے اداروں کو آگے آنا ہوگا۔
(بشکریہ: جن ستّا)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS