ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی
چند روز قبل28مارچ کو مرکزی وزیر داخلہ نے پارلیمنٹ ہاؤس میں بجٹ سیشن کے دوران کریمنل پروسیجر شناختی بل 2022 پیش کیا، لوک سبھا میں بحث کے دوران
اس بل کے حق میں کل120ارکان پارلیمنٹ نے ووٹ کیا تو وہیں دوسری جانب58ارکان نے اس بل کی مخالفت میں اپنے ووٹوں کا استعمال کیا۔ اس بل کے پیش ہونے کے
بعد پولیس تفتیش کے وسائل بنام بنیادی حقوق برائے رازداری کی بحث شروع ہوگئی ہے۔ مروجہ قانون قیدیوں کی شناخت قانون (Identification of
Prisoners Act) انگریز حکومت کے دور اقتدار میں سال1920میں بناتھا، جس کے تحت قیدیوں خاص کر سزایافتہ قیدیوں کے ہاتھ اور پاؤں کے
پرنٹ(Fingerprints & Footprint) ریکارڈ کیے جاسکتے ہیں، اس قانون کو بنے آج102سال گزرچکے ہیں، گزشتہ ایک صدی سے زائد
عرصے میں پوری دنیا نے ہر میدان میں ترقی کی ہے، ٹیکنالوجی اور سائنس کی اس ترقی نے نظام حیات کے ہر شعبے میں تبدیلی رونما کی ہیں۔ جرائم کی دنیا نے بھی
سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے پورا پورا استفادہ کیا ہے اور اب کرائم کے ہر ٹرینڈ میں ٹیکنالوجی کا عمل دخل موجود ہوتا ہے۔
حالیہ قانون کریمنل پروسیجر شناختی بل2022کے تحت 1902 کے قانون برائے قیدیوں کی شناخت کو ختم کردیا جائے گا اور نئے قانون کے تحت پولیس کو یہ
قانونی اختیار فراہم ہوگا کہ وہ کسی بھی سزایافتہ شخص کے ساتھ ساتھ کسی بھی ملزم جو گرفتار ہوا ہو، اس کے فنگر پرنٹ، فوٹ پرنٹ، فوٹو گراف، آنکھوں کے
اسکین(IRIS & Retina)، فزیکل و بایولوجیکل سیمپل جن میں خون اور بال کے سیمپل کے ساتھ ہی اس کے دستخط اور ہینڈ رائٹنگ کے سیمپل بھی لے سکیں
گے جو کہ کریمنل پروسیجر کوڈ1973کی دفعات 53 اور 53 اے میں مذکور ہیں۔ یہاں یہ ذکر کرنا بھی اہم ہے کہ یہ اختیارات ہیڈ کانسٹبل تک کو بھی فراہم ہوں گے
جو پولیس یا جیل میں تعینات ہو، کسی کیس کا تفتیشی افسر ہو۔ نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو کو بھی ان تمام سیمپل کوحاصل کرنے اور اپنے ریکارڈ میں75سال تک محفوظ
رکھنے کے اختیارات فراہم کرتا ہے، نیز این سی آر بی کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ اپنے ریکارڈ میں محفوظ کسی بھی شخص سے متعلق ریکارڈ سیمپل کسی بھی دیگر ایجنسی یا
ادارے کو تفتیش یا اس کے متعلق کسی دیگر وجوہات کی بنیاد پر فراہم کردے۔
اس بل پر اعتراضات ہورہے ہیں، ایک اعتراض اختیارات کے استعمال کو لے کر ہے، پہلے صرف ہاتھ اور پیروں کے نشانات کی اجازت تھی اور یہ اجازت یا اختیارات
مجسٹریٹ کو حاصل تھے، یعنی مجسٹریٹ کی اجازت کے بعد ہی کسی سزا یافتہ قیدی کے ہاتھ و پیر کے نشانات لیے جاسکتے تھے، لیکن اب نئے قانون کے بعد یہ
اختیارات کسی بھی پولیس اسٹیشن کے انچارج، سی آر پی سی(کریمنل پروسیجر کوڈ) کے تحت کسی بھی کیس کے تفتیشی افسر ایک ہیڈ کانسٹبل تک کے عہدیدار کو فراہم
کردیا گیا ہے، جیل انتظامیہ کا کوئی بھی افسرجو کسی ہیڈ وارڈن کی پوسٹ سے کم کا نہ ہو،اسے بھی یہ اختیارات حاصل ہیں اور یہ اختیارات کسی سزا یافتہ قیدی کے
ساتھ ساتھ کسی بھی قانون کے تحت گرفتار شخص کے تمام سیمپل لینے کو لے کر ہیں چاہے یہ حراست وقتی ہو یا کسی احتجاج یا شک کی بنیاد پر ہی کیوں نہ کی گئی ہو۔ اگر
کوئی بھی شخص پولیس یا متعلقہ افسر کو اپنے ذاتی سیمپل فراہم کرنے سے انکار کرتا ہے یا روکنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا یہ ردعمل تعزیرات ہند (انڈین پینل کوڈ)
کی دفعہ186کے تحت جرم ہوگا، یعنی کسی بھی پبلک سرونٹ کو ڈیوٹی ادا کرنے میں مانع ہوگا جس کی سزا تین ماہ قید اور یا پانچ سو روپے تک کا جرمانہ ہوسکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اب ہمارا نظام انصاف (کریمنل جسٹس سسٹم) بہت سی اصلاحات چاہتا ہے، ہمارے اس نظام میں سب سے اہم کردار پولیس جانچ کا ہوتا ہے،
پولیس کے پاس نہ صرف کام کا بوجھ اس کی استطاعت سے زیادہ ہے بلکہ بنیادی قوانین جو پروسیجر اور شواہد سے متعلق ہیں جن میں کریمنل پروسیجر کوڈ اور انڈین
اویڈنس ایکٹ 1872 خاص کر قابل ذکر ہیں، یہ قوانین موجودہ حالات سے پوری طرح مناسبت نہیں رکھتے جس کی وجہ سے جرائم کو انجام دینا یا بار بار انجام دیتے
رہنا اور گرفتار ہونے کے بعد بہت آسانی سے قانون کو چکمہ دینا بالکل مشکل نہیں ہوتا ہے۔ ہمارے سماج میں کچھ جرائم اپنی جڑیں سماج میں پوری طرح جمائے ہوئے ہیں
اور یہ جرائم انفرادی طور پر نہیں بلکہ ایک بہت ہی منظم سنڈیکیٹ کی شکل میں ہوتے ہیں جن میں منشیات و نشہ آور چیزوں کی اسمگلنگ، لڑکیوں اور بچوں کی غیر قانونی
ٹریفکنگ ایک اہم مثال ہیں۔ ان جرائم میں گرفتار افراد کا نہ ہی کوئی ڈاٹا ہماری پولیس یا جیلوں کے پاس موجود ہوتا ہے اور نہ ہی کرائم بیورو کے پاس، جس کا فائدہ اٹھا کر
ملزمین بار بار قانون اور نظام قانون کی آنکھ میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
عادتاً مجرم یا فرار ملزمین کو گرفتار کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے، اگر ان کے مخصوص سیمپل اور ریکارڈ پولیس و تفتیشی ایجنسی کے پاس موجود نہ ہوں، ٹیکنالوجی کی
ترقی ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم سماج کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور سائنس کا استعمال کریں۔ اس مجوزہ بل کے خلاف دلیلیں بھی پیش کی جارہی ہیں۔
سب سے اہم دلیل یہ ہے کہ مجوزہ بل شہریوں کو دستیاب بنیادی دستوری حقوق کے خلاف ہے جن میں حق برائے رازداری سب سے اہم ہے، جو کہ پارلیمنٹ کے قانون
پاس کرنے کے دائرہ اختیار سے باہر ہوجاتا ہے۔سماجی کارکنان و سیاسی پارٹیوں کے اختلاف اور شدید مخالفت کی اہم وجہ یہ بھی ہے مجوزہ بل کے تحت سیاسی یا
سماجی احتجاج کرنے والوں کے بھی سیمپل حاصل کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
دستور کے آرٹیکل(3)20کا حوالہ دیتے ہوئے یہ اعتراض کیا جارہا ہے کہ دستور کی اس شق کے مطابق کسی بھی ملزم کو اپنے خلاف گواہ بننے پر مجبور نہیں کیا
جاسکتا ہے۔ جب کہ مجوزہ بل میں اگر کوئی فرد، ملزم یا مجرم اپنے سیمپل دینے سے انکار کرتا ہے تو اس کے خلاف انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 186کے تحت مقدمہ بھی
درج کیا جائے گا اور اس کے سیمپل بھی پولیس زبردستی حاصل کرسکتی ہے۔ دلیل یہ بھی پیش کی جارہی ہے کہ مجوزہ بل حقوق انسانی کی بین الاقوامی تجویز اقوام متحدہ
چارٹر کی بھی خلاف ورزی کرتا ہے۔ زور زبردستی سے لیے گئے شواہدات کو شق6(1) کے تحت قیدیوں کے حقوق کی خلاف ورزی تسلیم کیا گیا ہے جو سپریم کورٹ
نے اے کے گوپالن کے فیصلے میں1950میں تسلیم کیا اور پھر بعد میں1964میں کھڑگ سنگھ کے فیصلے میں پھر 1978 میں چارلس سوبھراج کا فیصلہ
اور1983میں شیلا برسے کا فیصلہ اور پھر2008میں پرمود کمار سکسینہ کا فیصلہ اس ضمن میں رہنمائی کرتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انفرادی آزادی نیز آزادی برائے رازداری ہمارے ملک اور دستور کی اہم خصوصیات ہیں جن کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت کو قانون سازی
کرنی چاہیے لیکن اجتماعی تحفظ اور سماج میں نظام انصاف اور اس کے وسائل و ذرائع کو اثرانداز بنانا بھی حکومت کی اہم ذمہ داری اور دستوری فریضہ ہے۔ اگر مجموعی
طور پر دیکھا جائے تو حکومت کو یقینا ایسی پالیسی بنانی چاہیے جس کے ذریعہ کسی بھی ملزم کا ریکارڈ اور اس کے جرائم میں ملوث ہونے کی مکمل رپورٹ پولیس اور
تفتیشی اداروں کے پاس موجود رہے، یہی وجہ ہے کہ یونائیٹڈ اسٹیٹ آف امریکہ کی تفتیشی ایجنسی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن(ایف بی آئی) نے فنگر پرنٹ اور اس
سے متعلق معلومات کو یکجا کرکے چار کروڑ سے زائد فنگر پرنٹ کا ڈاٹا بیس جمع کررکھا ہے جو کسی بھی جرم کے بعد موقع واردات سے برآمد پرنٹس کو ملانے اور اس
سے مجرم کی تلاش میں اہم مدد ملتی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی اور سائنس کا استعمال کرتے ہوئے ہمارے ملک میں بھی ایسے ڈاٹا بیس سافٹ ویئر اور پروگرام کی اشد ضرورت
محسوس ہوتی ہے جس سے کسی بھی جرم میں ملوث مجرمین کے خلاف قانونی کارروائی نیز جانچ بہتر طریقے سے انجام دی جاسکے لیکن شرط ہے کہ یہ ڈاٹا بیس اور
اس سے منسلک معلومات کا استعمال شہریوں کو خوف زدہ کرنے یا ان کا استحصال کرنے کے لیے نہ ہو بلکہ ان کے اندرتحفظ کا احساس پیدا ہو۔
[email protected]
کریمنل پروسیجر(شناخت) بل، 2022، ایک بحث
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS