کووڈ19- وبا اور ہمارا ماحولیاتی نظام

0

صبیح احمد

زمانے سے ہم لوگ اپنے اس سیارہ جسے کرئہ ارض کہا جاتا ہے، کے ماحولیاتی نظام (ایکو سسٹم) کا بے دردی سے استعمال کرتے آ رہے ہیں اور رفتہ رفتہ اسے تباہی کے دہانے پر پہنچا چکے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ہر 3 سیکنڈ میں یہ دنیا ایک فٹ بال میدان کے برابر جنگلاتی علاقہ سے محروم ہو جاتی ہے۔ گزشتہ صدی کے دوران ہم لوگ اپنی مرطوب زمین کا آدھا حصہ تباہ کر چکے ہیں۔ ہماری 50 فیصد تک ساحلی مرجان (مونگے کی چٹان) غائب ہو چکی ہے اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ 2050 تک 90فیصد تک ساحلی مرجان ختم ہو جائیں گی، گلوبل وارمنگ میں اضافہ جب 1.5 ڈگری سیلسیئس تک محدود رہے گا تب یہ صورتحال رہے گی ورنہ …۔ عالمی گرین ہائوس گیس کے اخراج میں مسلسل 3 سال سے اضافہ ہورہا ہے اور یہ کرئہ ارض تباہ کن ماحولیاتی تبدیلی کے انتہائی قریب پہنچ چکا ہے۔ کووڈ19- کی وبا کے پھیلاؤ نے یہ دکھا دیا ہے کہ ماحولیاتی نظام کی تنزلی کے کتنے بھیانک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ جانداروں کے فطری رہن سہن کے علاقوں کو سکڑ کر ہم لوگوں نے کورونا وائرس سمیت انفیکشن کے ذریعہ بیماری پیدا کرنے والے مائیکرو آرگنزم کے پھیلاؤ کے لیے ساز گار ماحول پیدا کر دیا ہے۔
درحقیقت کووڈ19- کے پھیلاؤ کے ساتھ ماحولیاتی نظام کو مزید خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا کہ دونو ں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم بن گئے ہیں۔ جہاں ایک طرف ماحولیاتی نظام کی تباہی سے کورونا جیسی وبائوں کو پھیلنے میں مدد ملتی ہے، وہیں دوسری جانب کورونا وبا کے دوران استعمال ہونے والے آلات و دیگر ساز و سامان کے کچرے سے ماحولیاتی نظام کے لیے بہت بڑا خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔ پلاسٹک اور بایومیڈیکل کچرے کا بحران کووڈ کے ہر معاملے کے ساتھ گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ جب لاکھوں اور کروڑوں لوگ فیس شیلڈ، سرجیکل ماسک، دستانے اور پی پی ای سوٹ استعمال کر کے انہیں پھینک رہے ہیں جو کبھی خاص طور پر اسپتالوں میں استعمال ہوتا تھا لیکن اب ہر کسی کی زندگی کا جزو لاینفک بن گیا ہے۔ پلاسٹک کے خلاف جاری تحریک کو اس عالمی وبا کے دوران بڑا دھچکا لگا ہے۔ واحد استعمال (سنگل یوز) کے پلاسٹک پر انحصار بڑھ رہا ہے اور گھروں سے ٹنوں بایومیڈیکل کچرے پیدا ہو رہے ہیں۔ اس عالمی وبا کا کوڑا ہر جگہ دکھائی دے رہا ہے۔ پی پی ای سوٹ اسپتالوں اور شمشان گھاٹوں کے پیچھے پھینکے پڑے ہوتے ہیں، وہیں سرجیکل ماسک اور شیلڈوں کو گھروں کے کوڑے کے طور پر پھینکا جا رہا ہے اور سینیٹائزر کی بوتلیں، دستانے اور اس طرح کی اشیا سڑکوں کے کونے میں موجود کوڑے دانوں میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ خاص طور پر ہندوستان میں کچرا نمٹارہ نظاموں کے بہتر نہ ہونے اور بڑے پیمانے پر پلاسٹک کا استعمال روزانہ بڑھنے کے ساتھ پلاسٹک کچرے کے زمین پر ہونے والے نقصان دہ اثرات اور تحفظ کے حوالے سے تشویش روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ ان نقصاندہ اثرات میں عمومی طور پر اضافہ ہواہے اور چونکہ یہ بحران کا دور ہے، ہم پلاسٹک کے بارے میں نہیں بلکہ جان کے تحفظ کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ ماسک اور پی پی ای کٹ جیسا بہت سارا بایو میڈیکل کچرااب عام گھروں میں بھی پیدا ہو رہا ہے۔ یہ چیزیں ماحولیاتی نظام میں داخل ہو رہی ہیں۔

ماحولیاتی نظام کی بحالی کے لیے عالمی پیمانے پر ایک بہت ہی منظم مہم چلائے جانے کی ضرورت ہے لیکن اس حوالے سے ہر شخص روزانہ اپنی سطح پر بہت سارے چھوٹے چھوٹے کام کرکے اپنی ذمہ داری نبھا سکتا ہے۔ ان میں شجرکاری، شہروں کو ہرا بھرا بنانا، باغات کی دوبارہ تعمیر اور دریاؤں اور سمندری سواحل کی صفائی شامل ہیں۔ ماحولیاتی نظام کے تحفظ سے لوگوں کو مالی اعتبار سے بھی کافی فوائد ملتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق صرف ایک ڈالرکی سرمایہ کاری کے بدلے سوسائٹی کے لیے کم از کم 7 سے 30 ڈالر کے فائدے کی توقع کی جاسکتی ہے۔

سینٹرل پولیوشن کنٹرول بورڈ (سی پی سی بی) نے جون 2020 سے 10 مئی 2021 کے درمیان کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں جن کے مطابق اس دوران ہندوستان نے 45,038 ٹن کووڈ19- بایومیڈیکل کوڑا پیدا کیا یعنی ہر روز کووڈ19- سے متعلق 132 ٹن کوڑا پیدا ہوا۔ یہ کووڈ19- سے پہلے ہر روز پیدا ہونے والے 615 ٹن بایو میڈیکل کوڑے کے علاوہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف عالمی وبا کے سبب بایو میڈیکل کوڑا میں 17 فیصد اضافہ ہوا۔ متاثرہ مریضوں والے گھروں اور اسپتالوں سے کووڈ سے متعلق کوڑے کے علاوہ غیر کووڈ گھروں سے ’عالمی وبا کے پھیلاؤ کے سبب‘ نکلنے والا کوڑا بھی ہے جس میں نہ صرف تحفظاتی آلات شامل ہیں بلکہ پلاسٹک کے پیکٹ بھی شامل ہیںجہاں زیادہ سے زیادہ لوگ ضروری اور غیر ضروری خریداری کے لیے ہوم ڈلیوری کا استعمال کر رہے ہیں۔ متعدی سمجھے جانے والے سبھی کووڈ کچرے کو پیلے کوڑے کے زمرے میں رکھا جاتا ہے اور جلا دیا جاتا ہے۔ بظاہر اس بایو میڈیکل کچرے کے اضافی بوجھ سے نمٹنے کے لیے ہندوستان بہتر طریقے سے آلات سے لیس لگتا ہے کیونکہ اس کے پاس قومی سطح پر ایک دن میں 800 ٹن کچرا جلانے کی صلاحیت ہے لیکن ماہرین اس حوالے سے دیگر باتوں اور تکنیکی پہلوئوں کو بھی دھیان میں رکھنے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ دراصل یہ کوڑا جلانے والے پلانٹ زمرہ بندی کے تحت الگ الگ کیے گئے کچرے کے لیے بنے ہیں لیکن چونکہ کووڈ فضلہ کسی زمرہ بندی کے تحت الگ الگ نہیں کیا جاتا، اس لیے یہ عمل ان پلانٹس کی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے۔ ان پلانٹوں سے ہونے والا اخراج آلودگی پیدا کر رہا ہے یا نہیں یہ ابھی واضح نہیں ہے کیونکہ زیادہ تر پلانٹوں میں نگرانی نظام یا تو کام نہیں کر رہے ہیں یا ان میں خامیاں ہیں۔
بہرحال ان نئے قسم کے کچرے اور کوڑوں کو ٹھیک ڈھنگ سے نمٹانے کے لیے سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ فضلہ ماحولیاتی نظام کو مزید نقصان پہنچا سکتے ہیں اور متعدی امراض کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ماحولیات کی بحالی اور تحفظ صرف کسی خاص شعبہ یا سیکٹر کی ہی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ فضا میں سانس لینے والے ہر فرد کا یہ فرض ہے کہ جتنا ممکن ہو سکے اپنے حصہ کی ذمہ داری پوری کرے۔ ہم لوگ اپنی زندگی کے لیے ماحولیاتی نظام پرمنحصر ہیں۔اس زمین پر زندہ رہنے کے لیے بہتر ماحولیاتی نظام تو ضروری ہے ہی، اس کے ساتھ ساتھ ہم بہتر ماحولیاتی نظام میں لوگوں کی معاش میں بھی اضافہ کرسکتے ہیں، ماحولیاتی تبدیلیوں کو روک سکتے ہیں اور ماحولیاتی نظام میں تنوع کو تباہ ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ ماحولیاتی نظام دراصل زندہ حیاتیات (آرگنزم) مثلاً پیڑ پودے، جانور اور لوگوں کے درمیان فطری طور پر بہتر تال میل کا نام ہے۔ اس میں فطرت اور اس کے ساتھ ساتھ انسان کے ذریعہ تیار کردہ نظام مثلاً شہر اور کھیت کھلیان بھی شامل ہیں۔ ماحولیاتی نظام دراصل ایک مخصوص خطہ میں پیڑ پودوں اور جانداروں کی کمیونٹی ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ دیگر غیر جاندار عناصر کے ساتھ بھی تال میل قائم کرتی ہے۔ ان غیر جاندار عناصریا ’گرد و پیش کے ماحول‘ میں موسم، زمین، سورج، مٹی، آب و ہوا اور فضا شامل ہے۔ یعنی ان تمام مختلف حیاتیات کا ایک دوسرے کے ساتھ کس طرح قریبی تال میل قائم رہتا ہے۔ ماحولیاتی نظام کی بحالی کے لیے عالمی پیمانے پر ایک بہت ہی منظم مہم چلائے جانے کی ضرورت ہے لیکن اس حوالے سے ہر شخص روزانہ اپنی سطح پر بہت سارے چھوٹے چھوٹے کام کرکے اپنی ذمہ داری نبھا سکتا ہے۔ ان میں شجرکاری، شہروں کو ہرا بھرا بنانا، باغات کی دوبارہ تعمیر اور دریائوں اور سمندری سواحل کی صفائی شامل ہیں۔ ماحولیاتی نظام کے تحفظ سے لوگوں کو مالی اعتبار سے بھی کافی فوائد ملتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق صرف ایک ڈالرکی سرمایہ کاری کے بدلے سوسائٹی کے لیے کم از کم 7 سے 30 ڈالر کے فائدے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ دیہی علاقوں میں روزگار بھی پیدا ہوتے ہیں جہاں اس کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس سے کورونا جیسے وبائی امراض کے پھیلاؤ کو روکنے میں بہت مدد ملے گی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS