ہندوستان میں فرقہ واریت ایک زہر کی طرح کی سرایت کرگئی ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران ملک میں جس تیزی سے حالات بدلے ہیں، اسی سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ اس زہرنے زندگی کاکوئی خانہ خالی نہیں چھوڑا ہے۔ جمہوریت اور مساوات کے علمبرداروں کی تمام کوششوں کے باوجود فرقہ واریت کے پھلنے پھولنے میں کوئی کمی نہیں آرہی ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ آج کا میڈیا ہے۔ جمہوریت کا چوتھا ستون کہے جانے والے اس میڈیا نے گزشتہ چند برسوں میں جو کردار ادا کیا ہے، اس نے ہندوستانی معاشرہ کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرڈالا ہے۔ ہر واقعہ، ہر خبر اور ہر ردعمل میں فرقہ وارانہ زاویہ تلاش کرکے اس کی دن رات تشہیرکیے جانے کی وجہ سے آج سماج ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اتحاد و اتفاق کی جگہ مذہبی منافرت نے لے لی ہے۔
یہ صورتحال ہندوستان جیسے ملک کیلئے انتہائی سنگین خطرہ اور ملک کی سالمیت کیلئے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔اس کا ادراک سیاست دانوں اور حکمرانوں کو بھلے ہی نہ ہو لیکن عدلیہ نے آج بروقت اس کا نوٹس لیا ہے اور میڈیا کے کردار پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ملک کی شبیہ خراب اور داغدار ہوئی ہے۔
چیف جسٹس این وی رمن کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کی سہ رکنی بنچ نے جو ریمارکس دیے اس نے میڈیا کی افادیت پر ہی سوال کھڑا کردیا ہے۔ بنچ کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران دہلی کے نظام الدین تبلیغی مرکز کے حوالے سے فرضی اور بدنیتی پر مبنی خبروں کے خلاف جمعیۃ علماء ہند اور پیس پارٹی کی دائر کردہ عرضی پر سماعت کررہا تھا۔ عدالت کا کہنا ہے کہ فرضی، من گھڑت اور بدنیتی پر مبنی خبروں کی اشاعت اور نشریات کی وجہ سے ملک کی ہم آہنگی اور اتحاد خطرہ میں پڑگئے ہیں اور ملک کی شبیہ بھی داغدار ہورہی ہے۔ چیف جسٹس سی این وی رمن نے کہا کہ میڈیااور سوشل میڈیا کا ایک طبقہ کسی احتساب و جواب دہی کے خوف کے بغیر مواد پیش کرتے ہیں۔اس ملک میں ہر چیز کو فرقہ وارانہ زاویہ سے دکھایاجارہاہے۔
چیف جسٹس رمن نے کہا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم خاص طور سے ویب پورٹل ٹوئٹر، فیس بک، یوٹیوب وغیرہ کبھی کسی کی نہیں سنتے ہیں۔ یہ صرف ان ہی کی بات پر توجہ دیتے ہیںجو طاقتور اور بارسوخ ہیں۔ اداروں کے خلاف بہت غلط اور برا لکھتے ہیں، عام آدمی کی بات تو چھوڑ ہی دی جائے وہ ججوں تک کو بھی نہیں بخشتے ہیں۔ عدالت نے مرکزی حکومت سے پوچھا ہے کہ کیا ان حالات سے نمٹنے کیلئے کوئی طریق کار ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ مرکزی حکومت کے پاس پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کیلئے ایک ریگولیٹری(نگراں) ادارہ ہے، لیکن ویب پورٹل کیلئے کچھ نہیں ہے اور حکومت کو اس کا حل تلاش کرنا پڑے گا۔یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ عدالت نے میڈیا کے مواد پر برہمی کا اظہار کیا ہے اس سے قبل اسی مقدمہ کی سماعت کے دوران عدالت اشتعال انگیزٹی وی نشریات پر روک نہ لگانے کے تعلق سے بھی مرکزی حکومت کی سرزنش کرچکی ہے۔
جمعیۃ علماء ہند اور پیس پارٹی کی عرضی پر ہونے والی اس سماعت میں حکومت کی جانب سے سالیسٹر جنرل تشار مہتا پیش ہوئے، جنہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت کے پاس میڈیا کے تقریباً تمام حصوں پر پابندی لگانے کیلئے قانون موجود ہے۔ عدالت کے استفسار کا واضح جواب دینے کے بجائے تشار مہتا نے مبہم انداز میں انفارمیشن ٹیکنالوجی (انٹرمیڈری گائیڈ لائنز اور ڈیجیٹل میڈیا ایتھکس کوڈ) رولز 2021 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس قانون میں سوشل میڈیا اور اوور دی ٹاپ پلیٹ فارم (اوٹی ٹی) کے صارفین کی شکایتوں کے ازالہ کا میکانزم ہے۔ لیکن سالیسٹر جنرل اس کی تفصیلات اورضابطہ اخلاق پر عمل درآمد یقینی بنانے کیلئے حکومت نے کیا اقدامات کیے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ مودی حکومت کے اس قانون کو بھی ملک کے مختلف ہائی کورٹس میں چیلنج کا سامنا ہے۔جب تک اس قانون پر فیصلہ نہیں آجاتا ہے، اس وقت تک اس پر عمل درآمد غیر یقینی ہے۔
ان حالات میں ضرورت ہے کہ حکومت میڈیا کی آزادی کو دارپر چڑھائے بغیر یہ یقینی بنائے کہ اخبارات، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر پیش کیے جانے والے مواد حقائق پر مبنی ہوں اور ان سے معاشرہ میں فرقہ وارانہ منافرت نہ پھیلے۔ لیکن بات وہیں آجاتی ہے کہ کیا حکومت یہ چاہتی ہے کہ فرقہ واریت کا زہر اگلنے والے میڈیا اداروں پر لگام لگائی جائے؟ بظاہر ایسا لگتا نہیں ہے۔ کیوں کہ میڈیا کے ان کاموں کی وجہ سے سماج میں ہورہی پولرائزیشن کا سب سے زیادہ فائدہ حکمراں جماعت کو ہی پہنچ رہا ہے۔ بعض معاملات میں تو یہاں تک دیکھاگیا ہے کہ حکومت خود ہی ایسے اعداد وشمار پیش کرتی ہے جس سے پولرائزیشن کو ہوا ملے۔کورونا کی پہلی لہر کے دوران محکمہ صحت کی جانب سے روزانہ کی بنیادوں پر ہونے والی پریس کانفرنس میں باضابطہ تبلیغی جماعت سے متعلق افراد کا علیحدہ ڈاٹا جاری کیا جاتا رہا ہے۔ ایسے میں امید کم ہی ہے پھر بھی توقع یہی کی جانی چاہیے کہ حکومت اس معاملے کی سنگینی کو محسوس کرے گی او رخبروں میں مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کا زہر شامل کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرے گی۔
[email protected]
میڈیا کے رویہ پر عدالت کو تشویش
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS