جب سیاست فقط دولت اور اختیار سمیٹنے کا نام بن جائے اور اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈال کر منافع کی بنیاد پر نظام حکومت چلایاجانے لگے تو وہی کچھ ہوتا ہے جو آج مہاراشٹر کی سیاست میں نظرآرہاہے۔ بدعنوانی کے سنگین الزامات پر عدالت کی جانب سے تفتیش کا حکم صادر ہونے کے بعد مہاراشٹر کے وزیرداخلہ انل دیش مکھ استعفیٰ دے چکے ہیں۔ان کے استعفیٰ کو حکمراں اتحاد ’مہاوکاس اگھاڑی ‘ میں دراڑ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے ا ور اب یہ سوال بھی گردش کرنے لگا ہے کہ کیا ’ مہاوکاس اگھاڑی ‘ اپنی پانچ سال کی مدت کار پوری بھی کرپائے گی؟
مہاراشٹر کی سیاست میں اس بحران کا آغاز ارب پتی تاجر مکیش امبانی کے محل ’ انٹالیا‘ کے سامنے دھماکہ خیز مادہ جلیٹن سے بھری ہوئی اسکارپیو کار ملنے سے ہوا۔25فروری کو پیش آنے والے اس واقعہ کے بعد سے کئی اتار چڑھائو آئے، ممبئی کے پولیس کمشنر پرم بیر سنگھ کو ہٹایاگیا اورا نہوں نے ہٹتے ہی ریاستی حکومت پر بدعنوانی کے درجنوں الزامات لگائے جن میں رشوت ستانی، تاوان کی وصولی اور ٹرانسفر پوسٹنگ کے معاملات سر فہرست ہیں۔ اسی معاملے میں معطل اور گرفتارکیے گئے اسسٹنٹ سب انسپکٹر سچن وازے نے قومی تفتیشی ایجنسی(این آئی اے) کو6صفحات کا ایک خط لکھا ہے جس میں انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ وزیرداخلہ انل دیش مکھ اور انل پرنب نے انہیں1000کروڑ تاوان کی وصولی کا ہدف دیاتھا اور وہ اس کی تکمیل کیلئے کام کررہے تھے۔سچن وازے نے اپنے اس خط میں ٹرانسفر پوسٹنگ کیلئے رقم کی وصولی کے گھنائونے کاروبار کا بھی پردہ چاک کیا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ 2020میں این سی پی کے سربراہ شرد پوار ممبئی پولیس میں انہیں دوبارہ شامل کیے جانے کے خلاف تھے لیکن انل دیش مکھ نے سچن وازے سے کہا کہ وہ2کروڑ روپے دے تو وہ شرد پوار کو قائل کرکے پولیس فورس میں اسے دوبارہ شامل کرسکتے ہیںجب انہوں نے اتنی بھاری رقم کے انتظام سے معذوری ظاہر کی تو انل دیش مکھ نے کہا کہ وہ بعد میں یہ رقم ادا کردے۔جب وہ فورس میں شامل ہوگئے تو انل دیش مکھ نے انہیں طلب کرکے ایک دوسرے بڑے کام کا ہدف دیا جوعروس البلاد کے1650مئے خانو ں اور طعام خانوں سے رقم کی وصولی کاتھا۔
ہوسکتا ہے کہ سچن وازے کے یہ الزامات غلط ہوں اور تفتیش میں کوئی دوسرارخ سامنے آئے لیکن اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ ہندوستان کی سیاست میں بدعنوانی ایک ناسور کی طرح سرایت کرچکی ہے۔اور جب سے ملک میں مخلوط حکومتوں کا آغاز ہوا ہے، اس بدعنوانی کو سیاسی سرپرستی اور بالادستی بھی حاصل ہوگئی ہے۔ مہاراشٹر میں ادھو ٹھاکرے کی قیادت میں ’ مہاوکاس اگھاڑی ‘کے نام سے شیو سینا، این سی پی اور کانگریس کے اتحاد سے بنی حکومت قائم ہے۔ کہاجاتا ہے کہ این سی پی کے سربراہ شرد پوار کے پاس اس حکومت کا ریموٹ کنٹرول ہے وہ بھلے ہی براہ راست حکومت میں شامل نہیں ہیں لیکن عملاً ان کی حکومت قائم ہے۔ ادھو ٹھاکرے کی سیاسی مجبوری کا فائدہ اٹھاکر ہی انل دیش مکھ کو محکمہ داخلہ کی وزارت دلوائی تھی اور جب انل دیشمکھ پر بدعنوانی کے گھنائونے الزامات لگنے لگے اور ادھو ٹھاکرے نے انہیں ہٹانا چاہا تو این سی پی آڑے آگئی۔اس کے بعد وزیراعلیٰ ادھوٹھاکرے نے معاملہ کی تفتیش کیلئے خصوصی ٹاسک فورس قائم کی۔ لیکن سابق پولیس کمشنر پرم بیر سنگھ کے الزامات کے بعد عدالت نے جو موقف استعمال کیا ہے، اس کے بعد انل دیش مکھ کامستعفی ہونا مجبوری ہوگئی۔ عدالت کا کہنا ہے کہ انل دیش مکھ وزیرداخلہ کی حیثیت سے ممبئی پولیس کے مکھیا ہیں اس لیے ممبئی پولیس یا اس کی کوئی بھی ٹاسک فورس ان کے معاملے کی تفتیش نہیں کرسکتی ہے۔اس لیے یہ معاملے بغرض تفتیش این آئی اے اور سی بی آئی کوسونپے گئے جس کے بعد استعفیٰ دینا انل دیش مکھ کی مجبوری ہو گئی تھی۔
انل دیش مکھ کے معاملے میں مہاراشٹر کی ’ مہاوکاس اگھاڑی ‘ اتحاد میں تال میل کی کمی کا معاملہ بھی سامنے آیا ہے۔ اتحاد کی سب سے بڑی پارٹی شیوسینا اپنی سیاسی مجبوری کی وجہ سے اب تک انل دیش مکھ کا بھاری بوجھ اٹھائے ہوئے تھی لیکن عدالت کی مداخلت کے بعد یہ بوجھ تو اتر گیا ہے مگراب اسے این سی پی کی شدید ناراضگی اور کانگریس کے مخالفانہ رویہ کا بھی سامنا ہے۔کانگریس کا کہنا ہے کہ اس پورے معاملے میں اس سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔یہ اختلاف رائے اتحاد کی عمر دن بدن کم کررہاہے اور کچھ عجب نہیں ہے کہ ’مہاوکاس اگھاڑی‘ کے سانجھے کی ہنڈیا بیچ چوراہے پرپھوٹ جائے۔
یہ صورتحال سیاست کے کسی سنہرے اصول کی پابندی کی وجہ سے نہیں بلکہ بدعنوانی اور رشوت ستانی کی کوکھ سے پیدا ہوئی ہے۔ جو آج کی سیاست کا لازمہ بن گئی ہے۔بدعنوان عناصر اپنی غلط کاریوں کیلئے سیاست اور حکومت کو ایک ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اس صورتحال سے بچائو کیلئے پورے ملک کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور اصول، سوچ، فکر، نظریات اور اخلاقی اقدار کو سیاسی نعرہ کے بجائے تعبیر کی شکل دینی ہوگی۔
[email protected]
بدعنوان سیاست
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS