محمد حنیف خان
اترپردیش ملک کی ایک بڑی ریاست ہے،جو ہر صورت میں پورے ملک کو متاثر کرتا ہے۔ اس وقت یہاں کووڈ 19کی دوسری لہر زوروں پر ہے جس کی وجہ سے ہفتہ وار لاک ڈاؤن میں ایک دن کا مزید اضافہ کردیا گیا ہے تاکہ خراب ہوتی صورت حال پر قابو پا یا جا سکے۔ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا لاک ڈاؤن اور دستاویزی سطح پر گائیڈ لائن میں سختی سے حالات قابو میں آسکتے ہیں؟اس کا ہر ذی شعور نفی میں ہی جواب دے گا۔یہی نفی کا جواب ہی اترپردیش میں بڑھتی ہوئی لہر کا سب سے بڑا سبب ہے کیونکہ ایک طرف جاری گائیڈ لائن پر پوری طرح سے عمل نہیں ہو رہا تو دوسری طرف علاج و معالجہ کا بنیادی ڈھانچہ اس لہر کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔جب لکھنؤ جیسے شہر جو اتر پردیش کی راجدھانی ہے، وہاں کے اسپتالوں کی حالت اتنی خراب ہے کہ آکسیجن اور دیگر بنیادی ضروریات کی قلت کی وجہ سے مریض دم توڑ رہے ہیں تو اضلاع کے ہیڈ کوارٹرس جن کا شمار دیہی علاقوں میں ہونا چاہیے، وہاں کے اسپتالوں کی کیا حالت ہوگی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
بڑے شہروں سے پنچایت الیکشن میں ووٹنگ کے لیے واپس آنے والے دیہی باشندوں کے ساتھ کورونا کی دوسری لہر بھی آئی ہے جس نے ان لوگوں کو بھی اپنی زد میں لینا شروع کردیا ہے جو کبھی اپنے گاؤں سے باہر بھی نہیں گئے۔ایسے میں انتظامیہ کے لیے ضروری ہے کہ ایسے افراد کو تلاش کرے اور ان کو کورنٹین کرنے کے ساتھ ہی جنگی پیمانے پر دیہی علاقوں کو اپنا میدان عمل بنائے،اس نے اگر ایسا نہیں کیا تو حالات بہت بھیانک صورت اختیار کر سکتے ہیں۔
ہندوستان صرف شہروں میں نہیں بستا ہے، 60فیصد شہری آج بھی دیہی علاقوں میں بستے ہیں،یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کو زراعت پر مبنی ملک قرار دیا جاتا ہے۔ کووڈ-19کی دوسری لہر کے سلسلے میں ابھی تک صرف شہروں کے تعلق سے ہی گفتگو ہوئی ہے اور اسی کے اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں،کسی نے بھی دیہی علاقوں اور اضلاع کے ہیڈکوارٹرس سے متعلق نہ تو گفتگو کی اور نہ ہی اس کے اعداد و شمار پیش کیے ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ دوسری لہر نے صرف شہروں کو ہی نشانہ بنایا ہے۔شہروں کے ساتھ ہی دیہی علاقوں کو بھی اس نے اپنی زد میں لیاہے مگر انتظامیہ اس کی جانب سے صرف نظر کیے ہوئے ہے۔اس کی کیا وجہ ہے اس پر اگر غور کیا جائے تو اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ چونکہ میڈیا کا تعلق شہروں سے ہی ہوتا ہے اور سوشل میڈیا پر بھی دیہی علاقوں سے زیادہ شہر کے ہی افراد ہوتے ہیں، ایسے میں شہر کے حالات کے سلسلے میں تو خبریں سامنے آجاتی ہیں مگر دیہی علاقے لائم لائٹ سے دور رہتے ہیں، اس لیے اس جانب توجہ ہی نہیں دی جارہی ہے۔دیہی علاقوں کے تعلق سے ابھی تک صرف جونپور کی ایک رپورٹ سامنے آئی ہے جس کے مطابق وہاں 5ہزار سے زائد کیس سامنے آچکے ہیں۔یہ اعداد و شمار ڈسٹرکٹ ہیلتھ بلیٹن کے ہیں،جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ صرف ایک ضلع کا یہ حال ہے، ریاست کے دوسرے اضلاع کی بھی یہی حالت ہے۔ دیہی علاقوں میں ایسے افراد بھی کورونا وائرس کی زد میں پائے گئے ہیں جو کبھی گھر سے باہر نکلے ہی نہیں۔چونکہ دیہی علاقوں کے کثیر تعداد میں افراد روزی روٹی کے لیے شہروں میں رہتے ہیں جو ہولی اور پھر چار مرحلوں میں ہوئے چار سطحی (ممبر ضلع پنچایت،پردھان، بی ڈی سی اور پنچ)پنچایت الیکشن میں واپس آئے جن کی ٹیسٹنگ کا کوئی انتظام نہیں تھا، ایسے میں وہ افراد جو گھروں سے باہرنہیں نکلے وہ بھی اس کی زد میں آگئے۔یوں تو کہنے کو آنگن باڑی کارکن اور ضلع میں کام کرنے والی کووڈ یونٹیں ہیں لیکن یہ کتنی ذمہ داری سے کام کر رہی ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے میرے علم کے مطابق صرف میرے یہاںکم از کم پچاس افراد ممبئی اور دہلی سے پنچایت الیکشن کے چوتھے مرحلے میں ووٹنگ کے لیے اپنے گاؤں آئے جن میں سے ایک کی بھی نہ تو ٹیسٹنگ ہوئی اور نہ ہی ان سے کسی ذمہ دار سرکاری عہدیدار نے ملاقات کی کہ وہ دوسرے لوگوں سے الگ تھلگ رہیں۔ضلع انتظامیہ کو ان کی آمد سے متعلق نہ تو خبر ہے اور نہ ہی اس محاذ پر وہ کسی طرح کا کام کر رہے ہیں تاکہ باہر سے آنے والوں کی وجہ سے لہر میں اضافہ کو روکا جاسکے۔رہی سہی کسر آخری مرحلے کی 29اپریل کو ہوئی ووٹنگ نے پوری کردی۔سر کاری دستاویز کے مطابق الیکشن میں سوشل ڈسٹینسنگ کا پورا خیال رکھا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کورونا سے بچنے کے لیے جاری گائیڈ لائن کی ایک شق ماسک کے علاوہ کسی پر بھی عمل نہیں کیا گیا،چھ فٹ کی دوری پر ووٹروں کو کھڑا کیا جاسکتا تھا مگر اس پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔ اس طرح مدراس ہائی کورٹ کا تبصرہ کہ الیکشن کمیشن اس مہاماری کے لیے ذمہ دار ہے جس کے لیے اس کے خلاف ایف آئی آر ہونی چاہیے،اس پر صادق آتا نظر آیا۔اس سخت تبصرے کے بعد بھی کمیشن نے ذرہ برابر اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا۔دیہی علاقوں میں کووڈ کی دوسری لہر کی شدت میں یہ الیکشن ایک بڑا سبب بن کر ابھرے گا۔ انتظامیہ کے اس غیر ذمہ دارانہ فعل کے بعد ڈر اس بات کا ہے کہ شہروں کے بعد اب دیہی علاقوں میں کورونا اپنی نئی شکل میں سامنے نہ آجائے۔شہروں میں اسپتالوں اور آکسیجن کا جب اتنا برا حال ہے کہ ہر طرف لوگ ایک سانس کے لیے در در بھٹک رہے ہیں تو جب دیہی علاقوں میںکورونا کا جن بوتل سے باہر آئے گا تو اس کی کیا شکل ہوگی، اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
شہروں میںشمشان گھاٹوں میںجلتی ہوئی لاشیں اور قبرستانوں میں تازہ قبریں جہاں ایک طرف کورونا وائرس کی سفاکیت بیان کررہی ہیں،وہیں دوسری طرف حکمرانوں کی ذہنیت اور ان کی ترجیحات کو بھی بیان کر رہی ہیں۔ 29 اپریل کو محض ایک دن میں مرنے والوں کی تعداد 3645 تھی، یہ سرکاری دستاویز کے اعداد و شمار ہیں،جس کے مطابق اترپردیش میں دوسری لہرمیں صرف 265اموات ہوئی ہیں۔جب کہ اس کی سب سے بھیانک صورت حال اترپردیش میں ہی دکھائی دی ہے۔جہاں کے اسپتالوں کی جو حالت سامنے آئی ہے،اس نے سب کے ہوش خراب کردیے ہیں لیکن سرکاری اعداد و شمار جو بتارہے ہیں اس کی کہانی بالکل الگ ہے۔حالانکہ جب وزیراعلیٰ نے پریس کانفرنس کی اور بتایا کہ یہاں کے اسپتالوں میں نہ تو دواؤں کی قلت ہے اور نہ کسی دوسری ضروری شئے کی،اور قلت کی جوباتیں سامنے آ رہی ہیں ان کی کوئی زمینی حقیقت نہیں ہے،یہ سب حالات کو سخت بنا کرپیش کیے جانے کی کوششیں ہیں تو سوشل میڈیا پر آزاد صحافیوں نے ان کو چیلنج بھی دیا اور کہا کہ آپ جو کہہ رہے ہیں وہ ان دستاویز کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں جو آپ کی ٹیبل پرافسران رکھتے ہیں، اگر آپ حقیقت دیکھنا چاہتے ہیں تو صرف لکھنؤ میں میرے ساتھ چلیں اگر آنکھوں میں آنسو نہ آجائیں تو صحافت سے دستبردار ہوجائیں گے۔
گومتی ندی کے کنارے واقع شمشان گھاٹ سے ملحق سڑک سے ہمیشہ آنا جانا ہوا ہے لیکن اس بار جلتی ہوئی لاشوں کی جو تعداد دیکھی وہ اس سے قبل کبھی نہیں دیکھی۔یہ اموات کیسے ہوئیں اعداد و شمار میں ان کو کئی خانوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اموات ہو رہی ہیں۔یہ صرف لکھنؤ کی حالت ہے۔علی گڑھ اتر پردیش کا ایک اہم شہر ہے،مسلم یونیورسٹی اس کی شہرت کا ایک بڑا سبب ہے، صرف کیمپس سے وابستہ افراد یعنی اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کی جس تعداد میں اس دوسری لہر میں اموات ہوئی ہیں، وہ اس سے قبل میری زندگی کے گزشتہ تیرہ برسوں میں کبھی نہیں ہوئیں۔یہ وہ باتیں ہیں جن سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔اس کے باوجود انتظامیہ اگر دعوے کر رہی ہے کہ یہ صرف حالات کو سخت بنا کر پیش کرنے کی کوشش ہے تو اس کا کوئی جواب نہیں دیا جا سکتا کیونکہ جو نظام حکومت کے پاس ہے وہ کسی دوسرے کے پاس نہیں ہے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سرکار کے دعوے اور حقائق میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے،جس کی سب سے بڑی وجہ حکومتوں کی نظر میں حال کے بجائے مستقبل ہوتا ہے کیونکہ مستقبل میں جب بھی کبھی اعداد و شمار پیش کیے جائیں گے تو وہ سرکاری اعداد و شمار ہی ہوں گے۔
شہر کے بعد دیہی علاقوں میں کورونا نے دہشت کے ساتھ اپنی دستک دے دی ہے۔لیکن ابھی دیہی علاقوں کے حالات شہروں کی طرح بے قابو نہیں ہوئے ہیں،مگر وہ دن دور نہیں جب اضلاع کے ہیڈ کوارٹرس اور ضلع اسپتالوں میں برے حالات پیدا ہوجائیں گے کیونکہ بڑے شہروں سے پنچایت الیکشن میں ووٹنگ کے لیے واپس آنے والے دیہی باشندوں کے ساتھ کورونا کی دوسری لہر بھی آئی ہے جس نے ان لوگوں کو بھی اپنی زد میں لینا شروع کردیا ہے جو کبھی اپنے گاؤں سے باہر بھی نہیں گئے۔ایسے میں انتظامیہ کے لیے ضروری ہے کہ ایسے افراد کو تلاش کرے اور ان کو کورنٹین کرنے کے ساتھ ہی جنگی پیمانے پر دیہی علاقوں کو اپنا میدان عمل بنائے،اس نے اگر ایسا نہیں کیا تو حالات بہت بھیانک صورت اختیار کر سکتے ہیں۔پھر ضلع انتظامیہ کی وہ بھول جو ا س نے اس الیکشن میں کی ہے اور کووڈ-19گائیڈ لائن پر عمل نہیں کیا ہے،اس کا خمیازہ نہ صرف اتر پردیش بھگتے گا بلکہ پورا ملک اس کی زد میں آجائے گا جس کے بعد موت کے سوا کسی کے پاس کچھ نہیں ہوگا۔حکومت اور اس کے ذمہ داروں کو یہ بات ذہن میں رکھنا چاہیے کہ صرف اعداد و شمار سے کچھ نہیں ہوتا ہے،انسانوں کی زندگیاں بہت اہم ہیں اگر وہ نہ بچ سکیں تو پھر جمہوری حکومت کا کیا مطلب رہ جائے گا؟جمہوری حکومتیں تو عوام کی محافظ اور ان کی نگہبان ہوتی ہیں، ان کے لیے اعداد وشمار کا کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے۔
[email protected]