جانچ سے ٹیکے تک چیلنجز

0

جگل کشور

جب انفیکشن تیزی سے پھیل جائے اور اس کی بھی اندرونی وجوہات ہوں، تب جس بھی شخص کو کھانسی، زکام اور بخار ہو تو بہت امکان ہے کہ اسے کورونا انفیکشن ہوگا۔ ایسی علامات والے سبھی لوگوں کو آرٹی پی سی آر جانچ کرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے ہم جانچ پر پڑرہے غیرضروری بوجھ کو کم کرسکتے ہیں۔ کم سے کم لوگ جانچ کرائیں گے تو ضروری و سنگین لوگوں کی جانچ میں تیزی آئے گی۔ اب یہ تعداد دکھانا ہرگز ضروری نہیں ہے کہ ہمارے کتنے لوگ انفیکٹڈ ہوگئے، ابھی علاج کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔
مثال کے لیے جب سوائن فلو آیا تھا تو اس کے ختم ہونے کا سبب ہی یہی تھا کہ ہم نے جانچ کو بند کردیا تھا، جانچ ہم انہی کی کرتے تھے، جہاں ضروری ہوجاتا تھا، تو اس سے بیماری اپنے آپ کم ہوئی۔ فطری ہے، جیسے جیسے انفیکشن کے معاملات میں اضافہ ہوتا ہے، ویسے ویسے لوگوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اب یہ فرض کرنا چاہیے کہ کافی لوگ متاثر ہوگئے ہیں اور اب جو لوگ ایسی علامات کے ساتھ آئیں گے، وہ کورونا متاثر ہی ہوں گے۔ علامت ظاہر ہوتے ہی گھر میں ہی کورنٹین رہتے ہوئے اپنا علاج شروع کردینا چاہیے۔ جانچ کرانے کی بھاگ دوڑ سے بچنا چاہیے۔ اس اسٹیج پر بھی آئی سی ایم آر کام کررہا ہے کہ کوئی ایسا سسٹم بنایا جائے تاکہ جہاں ضروری ہو، وہیں اسپتال کا سہارا لیا جائے۔ اس کے پیمانے طے کیے جارہے ہیں، ایک Algorithmبنانے کی کوشش ہورہی ہے، جسے سنڈرومک ایپروچ بھی کہتے ہیں۔ یہ اس لیے ضروری ہے تاکہ صرف علامت کی بنیاد پر علاج ہوسکے۔
ساتھ ہی یہ ضروری نہیں کہ ہم مریض کو داخل کرنے کے لیے آر ٹی پی سی آر کا انتظار کریں۔ ریپڈٹسٹ کی رپورٹ آدھے گھنٹہ سے بھی کم وقت میں مل جاتی ہے۔ فوراً مریض کا علاج شروع کریں اور اسی دوران آر ٹی پی سی آر بھی کرلیں۔ ادھر آئی سی ایم آر نے آر ٹی پی سی آر سمیت 6جانچوں کو منظوری دی ہے۔ ابھی رپورٹ آنے میں دیر ہورہی ہے، لیکن آر ٹی پی سی آر جانچ کی جو سائیکل ہے، وہ چلتی ہے تو تین سے چار گھنٹہ لگتے ہیں۔ آپ کتنی بھی جلدی کریں، لیب پاس میں ہو تو بھی چار پانچ گھنٹے تو رپورٹ آنے میں لگ ہی جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بہت سارے ایسے اضلاع ہیں جہاں آر ٹی پی سی آر سہولت دستیاب نہیں ہے۔ سیمپل کو دوسرے اضلاع میں بھیجا جاتا ہے تو اس میں مزید وقت لگتا ہے۔ اس وجہ سے دیر ہوتی ہے۔ ہر جگہ لیب کھولنا بھی آسان نہیں ہوتا۔ لیب کا معیار ضروری ہے اسے قائم کرنے کا ایک پورا عمل ہے۔ لیب سہولت اگر بغیر معیار والی جگہ پر ہوگی تو غلط رپورٹ آئے گی۔ لیب میں متعدد طرح کے کیمیکل ہوتے ہیں، ان کی دیکھ بھال بھی اہم ہوتی ہے۔ کتنے درجۂ حرارت پر رکھنا ہے، کہاں رکھنا ہے، لیب کو پورے پیمانہ پر کھرا اترنا چاہیے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ لیب آپ کہیں بھی کھول دیں اور جانچ شروع ہوجائے۔ اچھی لیب وہی ہے، جو مقررہ پیمانوں پر کھری اترتی ہو۔
گزشتہ سال جانچ کی جو حالت تھی، اس میں کافی بہتری آئی ہے، لیکن ابھی کی ضرورت کے حساب سے دیکھیں تو ناکافی ہے۔ جانچ کی سہولت کو راتوں رات کھڑا نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے ابھی پوری توجہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے علاج پر ہونی چاہیے۔ ڈیزاسٹرمینجمنٹ کا یہی بہترین طریقہ ہے۔ جو جانچ و علاج کے وسائل ہیں، انہیں بہت قاعدے سے استعمال میں لانے کی ضرورت ہے، تاکہ کم سے کم وسائل میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو راحت ملے۔

عـلاج سـب سـے ضـروری ہـے، جـانـچ رپـورٹ پـر زیـادہ زور نـہـیـں دیـنـا چـاہـیــے، سـاتـھ ہـی ٹـیـکـہ کـے لـیـے لـگـنـے والــی بـھـیـڑ سـے بـھـی ہـرحـال مـیـں بـچـنـا چـاہـیــے۔۔۔۔۔ اگـر کـسـی کـو شـک ہـے کـہ اسـے انـفـیـکـشـن ہـوچـکا ہـے تـو وہ فـوراً ٹـیـکـہ نـہ لـے۔ ڈاکـٹـر بـھـی یـہـی صـلاح دے رہـے ہـیـں کـہ کـورونا سـے مـتـاثـر ہـوئـے لـوگـوں کـو کـم سـے کـم تـیـن مـاہ تک ٹـیـکـہ نـہـیـں لـیـنـا چـاہیـے اور پــورے احـتـیـاط سـے رہـنـا چـاہـیـے۔

جانچ اور علاج کے ساتھ ہی، ٹیکہ کاری بھی تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ یکم مئی سے 18سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو بھی ٹیکہ لگنے کی شروعات ہوجائے گی۔ کچھ ریاستوں نے ٹیکہ کی قلت پہلے ہی بتادی ہے۔ مرکزی حکومت نے ویکسین کلیکشن میں جو کامیابی حاصل کی تھی، اس سے تھوڑی مدد مل پائے گی، لیکن مرکزی حکومت نے ریاستی حکومتوں سے کہا کہ وہ اپنی سطح پر ہی منظورشدہ ویکسین جمع کرنے کی کوشش کریں۔ یہ طریقہ ٹھیک ہے، لیکن دقت عمل آوری میں ہے۔ ویکسین کو لگانے میں ہے۔ اول تو جب ہم کسی بھیڑوالی جگہ پر جاتے ہیں تو وہاں انفیکشن کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ یہ بات ہورہی ہے کہ لوگ جب ٹیکہ لینے اسپتال جاتے ہیں اور وہاں بھیڑ رہتی ہے تو وہ خود کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ ایسے میں بہت ضروری ہے کہ ٹیکہ مراکز کا ہم ڈی سینٹرلائزیشن کریں۔ اب ٹیکہ مراکز کو اسپتالوں سے الگ کرنے کا بھی مطالبہ ہورہا ہے۔
ابھی تک ٹیکہ کاری کا کوئی ایسا خطرہ سامنے نہیں آیا ہے کہ ٹیکہ لینے کے بعد اسپتال کی ضرورت پڑے۔ ٹیکہ مرکز کو اسپتال سے کچھ دور رکھا جاسکتا ہے۔ ایک بات یہ بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ اسپتال میں کام کرنے والے جو ہیلتھ ورکرس ہیں، انہیں ٹیکہ کاری مراکز پر بڑے پیمانہ پر نہیں بھیجا جاسکتا۔ ہیلتھ ورکرس کی ویسے ہی کمی ہے، اگر انہیں اسپتالوں سے باہر تعینات کردیا جائے تو اسپتالوں میں مریضوں کا علاج مشکل ہوجائے گا۔ ایسے میڈیکل اسٹاف کو ٹیکہ کاری میں لگانا ہوگا جو چھوٹے یا ایسے مراکز پر پوسٹڈ ہیں، جہاں مریضوں کو داخل نہیں کیا گیا ہے۔ اسپتالوں پر دباؤ بڑھانا ٹھیک نہیں ہے، ان کے دباؤ کو شیئر کرنے کی ضرورت ہے۔ بیشک یکم مئی سے ٹیکہ لینے والوں کی بھیڑ امڑ سکتی ہے تو ٹیکہ مراکز کے ڈی سینٹرلائزیشن سے بھیڑ کو روکا جاسکتا ہے۔
ٹیکہ کی کمی کو دور کرنے کے لیے بھی حکومت نے کوششیں تیز کی ہیں۔ غیرممالک سے ویکسین کی درآمد ہونی ہے، ساتھ ہی ملک میں پیداوار بڑھانے کی کوششیں جاری ہیں۔ کچا مال ملتے ہی سودیشی کمپنیاں زیادہ سے زیادہ ٹیکے بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ایک طرح کی آبادی میں مختلف طرح کے ٹیکے کا استعمال اتنا اچھا نہیں ہوگا۔ ایک طرح کا ٹیکہ ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں کو لگائیں تو بہتر ہے۔ ریاستوں کو ٹیکوں کی تعداد سے متعلق بے چین نہیں ہونا چاہیے۔ ٹیکوں کی دستیابی کے حساب سے ہی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ ریاستوں کو اپنے دستیاب وسائل اور ہیلتھ ورکرس کی محدود تعداد کو دیکھتے ہوئے اپنا منصوبہ بنانا پڑے گا۔
ایک اور بات آج اہمیت رکھتی ہے۔ اگر کسی کو شک ہے کہ اسے انفیکشن ہوچکا ہے تو وہ فوراً ٹیکہ نہ لے۔ ڈاکٹر بھی یہی صلاح دے رہے ہیں کہ کورونا سے متاثر ہوئے لوگوں کو کم سے کم تین ماہ تک ٹیکہ نہیں لینا چاہیے اور پورے احتیاط سے رہنا چاہیے۔
(مضمون نگار سینئر پبلک ہیلتھ اسپیشلسٹ ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS