ڈاکٹر سید ظفر محمود
انسانی جسم میں جب کورونا وائرس داخل ہوتا ہے تو عموماً وہ بخود اپنی اندرونی بناوٹ و اس کی تاثیر کو بدلنے (Mutate) لگتا ہے اور نئی تجدید شدہ شکل میں زیادہ آسانی سے ترسیل پذیر اور مزید تباہ کن ہو جاتا ہے۔ اس طرح کی ایک بدلی ہوئی وبائی شکل جس کو B.1.1.7 کہتے ہیں نے رواںبرس2021کی شروعات میںبرطانیہ میں بہت تباہی مچائی تھی اور وہ یوروپ وامریکہ میں بھی داخل ہوچکا ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اپنی گزشتہ شکل کے مقابلہ میں یہ 60 فیصد زیادہ وبائی اور67فیصد مزید تباہ کن ہے، ساتھ ہی کورونا وائرس اپنی ایک تیسری شکل میں جسے P.I.کہتے ہیں،فی الوقت لاطینی امریکہ میں اپنا غصہ اتار رہا ہے۔30؍اپریل کو ہمارے ہندوستان میں ایک دن میںکورونا بیماری کے چار لاکھ سے زیادہ نئے مریض رپورٹ کیے گئے تھے جوکسی ملک کے لیے اب تک کا عالمی ریکارڈ ہے جبکہ ماہرین کے مطابق اصل تعداد اس سے بھی زیادہ ہے، جنوبی امریکہ کے ممالک برازیل، پیرو وغیرہ میں بھی کورونا کی مہلک موجیںبھنور بنائے ہوے ہیں۔ ہمارے یہاں یہ بیماری یا تو B.1.1.7 کی شکل میں پھیلی ہوئی ہے یا یہاںاس کی ایک مزید نئی شکلB.1.617 ہے۔امریکہ میں 44 فیصد بالغ شہریوں کواس وائرس سے بچائو کے لیے ویکسین کی کم از کم ایک خوراک مل چکی ہے جس کے باوجود وہاں اب تک گروہی قوت مدافعت(Herd Immunity)کی صورت پیدا نہیں ہو سکی ہے جس کی وجہ سے وائرس پھیلنا بند ہو نے لگتا ہے کیونکہ اس کے مسکن کے لیے دستیاب افراد کی تعداد میں کمی آ جاتی ہے، اس دہلیز کو پار کرنے میںوہاںویکسین لگوانے میں تردد و آناکانی ہی اب تک رکاوٹ بنی ہوئی ہے،باقی دنیا خاص کر غریب ممالک میں تو ویکسین کی دستیابی ہی مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ ہندوستان میں اب تک 2 فیصد سے کم لوگوں کو ویکسین لگ سکی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس موذی عالمی وبا سے چھٹکارا پائیں تو ہم اس وائرس کو اجازت نہیں دے سکتے کہ یہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں آوارہ گھومتا پھرے۔ اب تک کی تحقیقی دلیلوں سے معلوم ہوجاتا ہے کہ فی الوقت دنیا میں موجود سبھی ویکسین وائرس سے بچائو کے لیے کم و بیش خوب کارآمد ہیں، گو کہ آئندہ ان کی تاثیر میں کمی آ سکتی ہے، وائرس کے منحرف شکلوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ویکسین میں افزائش (Booster Shot)کی کوشش چل رہی ہے لیکن غریب ممالک میں اس کو مہیا کرپانا بھی مشکل ہوگا۔ اس لیے ضروری ہے کہ جو ویکسین اب موجود ہیں، ان کا استعمال کرکے زیادہ سے زیادہ افراد کو فوراً محفوظ کر دیا جائے کیونکہ جتنی دیر تک یہ وائرس گردش کرتا رہے گا،اتنا ہی زیادہ امکان ہوگا اس کی نئی شکلیں پیدا ہونے کا۔اس سلسلہ پر روک لگانے کا مؤثر طریقہ یہی ہے کہ ہندوستان جیسے بڑے ممالک میں بڑی تعداد میں لوگوں کو جلدویکسین لگ جائے۔
گزشتہ ایک برس میں اللّٰہ پاک نے ہمیں دکـھـا دیـا کـــہ تمہارے ذاتی وسائل اگر استعمال نہیں ہوں گے تو ان میں زنگ لگ جائے گا۔ بچیوں کو گھر میں بیٹھے مت رہنے دیجیے کہ وبا ختم ہو تو دھوم دھام سے ہی شادی کریں گے، اللّٰہ پاک کی تنبیہ کو سمجھئے۔ اب کورونا کی مثال سے تو حدیث نبویؐ کو سمجھ لیجیے کہ اس دنیا کی اہمیت ایک مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہے۔
جو لوگ اس مرض سے متاثر ہوچکے ہیں، ان کے علاج کے لیے اب ہمارا ملک جنگی پیمانہ پر کام کر رہا ہے جس میں حکومتیں، ادارے و افراد شامل ہیں۔ مرکزی حکومت نے آرڈر جاری کر کے آکسیجن مہیا کرنے والے آلہ و مشین پر کسٹم ڈیوٹی میں تین ماہ کے لیے مکمل چھوٹ دے دی ہے۔ سپریم کورٹ و ہائی کورٹ آکسیجن کی فراہمی کو سختی سے مانیٹر کر رہے ہیں۔آکسیجن نیڈس ٹریکر کے مطابق موجودہ وبا کی وجہ سے ہمارے ملک میں آکسیجن کی ضرورت بڑھ کے 90 لاکھ کیوبک میٹر یومیہ ہو گئی ہے۔ لکھنؤ میں65 برس کے صحافی ونئے سریواستو کو اسپتال میں اپنے بستر سے سوشل میڈیا پر آکسیجن کے لیے اپیل کرنی پڑی، ان کی آکسیجن کی سطح گر کے 52 ہو گئی تھی جبکہ اسے 95 کے اوپر رہنا چاہیے، مدد نہ مل سکنے کی وجہ سے ان کی آکسیجن مزید گر کے 31 ہو گئی پھر ان کا انتقال ہو گیا۔صنعتکاری والی آکسیجن کو اسپتالوں کو مہیا کرایا جا رہا ہے، اسپیشل آکسیجن ٹرین چل رہی ہیں لیکن پھر بھی یہ سب ناکافی ہے۔لہٰذا مشرقی دہلی کے نرائنا سپراسپشیلٹی ہاسپٹل نے حکومت فرانس سے آکسیجن جنریٹر کا تحفہ حاصل کیا جو دہلی ائیرپورٹ پہنچنے کے چند گھنٹوں کے اندر ہی اسپتال میں 1200 لیٹر یومیہ آکسیجن پیدا کرنے لگا۔ برطانیہ میں ہندنژاد امام قاسم نے70آکسیجن کنسنٹریٹرس کا انتظام کیا ہے۔ہم کو چاہیے کہ بیرون ملک اپنے اعزا و اقربا کے وسائل سے اس طرح کی مزید سہولتیں حاصل کرکے ضرورتمند اشخاص تک ان کی رسائی کروائیں۔
قرآن کریم میں(85.22) لوح محفوظ کا ذکر ہے جسے قدس الاقداس کہا جاتا ہے یعنی دنیا میں آئے ہوئے تمام آسمانی صحیفوں کا اصل منبع جودنیا کے وجود میں آنے سے پہلے ہی موجود تھا۔اسی لوح محفوظ میںسے اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم کو لیلۃ القدرکے دوران دنیاوی آسمان پر اتارا تھا۔اس رات کے لیے کہا گیا ہے (97.3)کہ یہ ایک ہزار مہینوں سے افضل ہے، ایک ہزار مہینوں کے بنتے ہیں 83 برس4 ماہ جو انسان کی اوسطاً کل زندگی ہوتی ہے، اس رات میں فرشتے اترتے ہیں اﷲپاک کے تحفے اور ہدایتیں لے کر۔ مفسرین نے تحقیق کی بنیاد پر لکھا ہے کہ قرآن کریم کے علاوہ باقی تمام آسمانی کتابیں بھی اسی رات میں اسی طرح نازل ہوئی تھیں۔ گویا اس طور پر اﷲتعالیٰ نے لیلۃ القدر کے دوران پوری انسانیت کو پیغمبروں اور صحیفوں کے ذریعہ ایک تانے بانے میں باندھ دیا ہے اور لوح محفوظ ہے طویل مدتی خدائی پلاننگ کا خاکہ جس کے مطابق اﷲپاک نے ہمیں قبیلوں، قوموں اور ادیان میں پھیلا دیاہے۔اب وہ ہمارا امتحان لے رہا ہے کہ متعدد پیمانوں پربظاہر ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجوداس کے پیغام کی روح کو کس حد تک سمجھ کرہم اس پر عمل کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ صرف عدل نہیں بلکہ احسان کا معاملہ کرتے ہیں۔ وہ ہمارا امتحان لے رہا ہے کہ ہم اس کی اسکیم برائے لازمی انسانی یکسانیت و اتحاد کی کتنی قدر دانی کرتے ہیںگو کہ اس نے اس یکسانیت کو خارجی گروہی عدم مشابہت میں بکھیر رکھا ہے۔قرآن کریم کی شروعات ہوتی ہے رب العالمین سے اور اختتام ہوتا ہے رب الناس پرجس کے ذریعہ اﷲپاک نے پوری انسانیت بلکہ پوری کائنات کو مخاطب کیا ہے۔ یہ ہے اسلام کا طاقتور فرمان جسے لیلۃ القدر کی اہمیت کے ذریعہ سمجھ کے ہمیں کورونا وائرس کے چیلنج کو قبول کر کے اس کا معقول انداز میں ملک گیر و عالم گیرمقابلہ کرنا ہے۔یہی پیغام اپنے انداز میں دستور ہند کے آرٹیکل 51A(e) میں بھی دیا گیا ہے۔ راقم السطور کے قریبی حلقوں میں عموماً سال میں ایک آدھ فرد کے انتقال کی خبر آتی تھی لیکن گزشتہ چندہفتوں کے دوران 36 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ ہواﷲالعظیم، یقینا ہمارا پالنہار ہمیں پیغام دے رہا ہے کہ سدھر جائو۔ جنھیں ہم اپنے ذاتی وسائل سمجھتے ہیں ان پر دیگر انسانیت کا حق ہمیں پہچاننا اور ماننا ہو گا، اس میں ہماراوقت، ہماری جائداد اور ہمارا جذبہ محبت بھی شامل ہیں۔ گزشتہ ایک برس میں اﷲپاک نے ہمیں دکھا دیا کہ تمہارے ذاتی وسائل اگر استعمال نہیں ہوں گے تو ان میں زنگ لگ جائے گا۔ بچیوں کو گھر میں بیٹھے مت رہنے دیجیے کہ وبا ختم ہو تو دھوم دھام سے ہی شادی کریں گے، اﷲپاک کی تنبیہ کو سمجھئے۔اب کورونا کی مثال سے تو حدیث نبوی ؐ کوسمجھ لیجیے کہ اس دنیا کی اہمیت ایک مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہے۔
[email protected]