اُپیندررائے
پوری دنیا میں تقریباً 17کروڑ لوگوں کو متاثر کرنے اور ان میں سے 35لاکھ لوگوں کو اپنا شکار بنانے والے کورونا وائرس کی پیدائش کے تعلق سے پھیلا کہرا اگلے کچھ ماہ میں چھٹ سکتا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ دنیا کی بادشاہت سے متعلق چین سے مسلسل چیلنج لے رہے امریکہ نے اس سمت میں وہ فیصلہ کن قدم اٹھالیا ہے جو اس راز سے پردہ اٹھاسکتا ہے۔ اس کام کے لیے امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنی خفیہ ایجنسی کو 90دن کی مہلت دی ہے۔ گزشتہ ایک سال سے یہ مسئلہ بحث کا موضوع رہا ہے اور دنیا کے کئی ماہرین کا ماننا ہے کہ اس وائرس کے ووہان کی لیب میں تیار ہونے کے شبہ پر ابھی مزید کام کیے جانے کی ضرورت ہے۔ اب امریکہ کے اس فیصلہ نے اس شبہ کو نئے سرے سے ہوا دے دی ہے۔
امید کے مطابق چین نے اس قدم پر فوراً ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ اس نے امریکہ کو اپنے خلاف سازش رچنے سے باز آنے کو کہا ہے اور امریکہ سے بھی اپنی لیبارٹیز کو جانچ کے لیے کھولنے کا مطالبہ کیا ہے، لیکن اس مرتبہ اس کے تیوروں میں تیکھاپن کم اور بوکھلاہٹ زیادہ نظر آرہی ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ ہوسکتی ہے کہ گزشتہ سال تک اس ایشو پر اس کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے بھی یوٹرن لے لیا ہے۔ تنظیم کے ڈائریکٹر جنرل نے وائرس کی پیدائش پر مزید ریسرچ کے مغربی ممالک کے مطالبہ سے اتفاق رائے کا اظہار کرکے ایک طرح سے چین کے پیروں کے نیچے سے زمین نکالنے والا کام کیا ہے۔
گزشتہ سال مارچ میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور اپنے سائنسدانوں کی مشترکہ طور پر لکھی رپورٹ کو چین اپنے لیے کلین چٹ کے طور پر پیش کرتا آیا ہے۔ اس رپورٹ میں وائرس کے کسی لیب میں بننے کے امکانات کو بے حد کم بتاتے ہوئے اسی خیال کو تقویت دی گئی تھی کہ چمگادڑ جیسے کسی متاثر مویشی کے رابطہ میں آنے سے یہ انسانی میں پھیلا، لیکن اب ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے تبدیل ہوئے رُخ سے چین کا پلڑا ہلکا پڑگیا ہے۔ ممکن ہے کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن چین پر ووہان لیب کی جانچ کے لیے نئے سرے سے دباؤ بنائے اور اس مرتبہ جانچ واقعی غیرجانبدارنہ ہو اور سبھی ڈیٹا جانچ ٹیم کی دسترد میں ہوں۔ حالاں کہ سازش رچنے میں ماہر چین نے ثبوت مٹانے میں کوئی کوتاہی برتی ہوگی، اس کے امکانات نا کے برابر ہیں۔ ایسے میں جانچ ٹیم کے ہاتھ کوئی بڑی حصولیابی لگ پائے گی، ایسا نہیں لگتا۔
ہندوستان کے نظریہ سے دیکھیں تو جو ہورہا ہے، اچھا ہورہا ہے۔ موجودہ دور میں چین پر آفت ہمارے لیے راحت سے کم نہیں ہے۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب ہمارا تقریباً ہر پڑوسی یا تو مجبوری میں یا خواہشات کے سبب چین کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہوئے ہے۔ کورونا کی آفت میں موقع تلاش کرنے کی چین کی سازش پہلی لہر کے دوران ملک کی شمالی سرحد پر وادیٔ گلوان میں حملہ کے طور پر سامنے آئی تھی۔ اب دوسری لہر میں چین نے ہماری جنوبی سرحد پر نظریں ٹیڑھی کی ہیں۔
اس کے باوجود کہا جاسکتا ہے کہ بائیڈن نے نہلے پر دہلا جڑنے کے لیے شاید صحیح وقت کا انتخاب کیا ہے۔ حالاں کہ ان سے پہلے ڈونالڈٹرمپ بہت پہلے سے اس وائرس کے چین کی لیب سے نکلنے کا دعویٰ کررہے تھے، لیکن ڈیموکریٹ خیمہ اسے ٹرمپ کی غیرجواب دہ بیان بازی ہی کہتا رہا تھا۔ جھوٹے بیانات اور غلط معلومات دینے کے سبب ٹرمپ کی شبیہ پہلے ہی متنازع لیڈر کی بن چکی تھی۔ صدارتی الیکشن میں دھاندلی کے الزامات کی ہی طرح چین کو کٹہرے میں کھڑے کرنے کے لیے بھی وہ کوئی ثبوت پیش نہیں کرپائے، لیکن اب جب کہ سب کچھ ویسا ہی ہورہا ہے، جس کی وہ پیروی کررہے تھے تو انہیں یہ کہنے کا حق تو مل ہی گیا ہے کہ ان کی کہی بات پر اب دنیا مہر لگارہی ہے۔ کبھی ان کی باتوں کو خارج کردینے والے وہائٹ ہاؤس کے پرنسپل سائنسی مشیر اینتھنی فاؤچی کی رائے بھی اب بدل گئی ہے اور وہ بھی سمجھ رہے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ وائرس کو قدرتی ماننے کی ان کی سوچ 100فیصد صحیح نہ ہو۔
اس لیے تحقیقات کا ایک سرا اس سوال سے بھی منسلک ہونا چاہیے کہ بائیڈن کا فیصلہ امریکہ سمیت دنیا کے دباؤ کا نتیجہ ہے یا پھر ان کے ہاتھ کوئی ایسا ثبوت لگا ہے، جس سے وہ اچانک اس فیصلہ تک پہنچے ہیں۔ کہیں اس کا اس خفیہ دستاویز سے کوئی کنکشن تو نہیں، جس میں کورونا وائرس کو تیسری عالمی جنگ میں ایک حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی چین کی تیاریوں کا انکشاف کیا گیا ہے۔
چین کی اس توسیع پسندانہ خواہش کا اثر امریکہ کے باہر بھی نظر آرہا ہے۔ آسٹریلیا، کناڈا، اسرائیل، ڈنمارک، ناروے، جاپان اور کوریا جیسے 13اہم ممالک نئے سرے سے جانچ کے معاملہ میں امریکہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ تو ہندوستان نے بھی وائرس کی پیدائش کی دوبارہ جانچ کی حمایت میں خاص طور سے آواز اٹھائی ہے، لیکن چین کی اس گھیرابندی میں برطانیہ انتہائی سرگرم کردار نبھاتا نظر آرہا ہے۔ ناٹو سے لے کر اپنے دوست ممالک کو چین سے تحفظ دینے کے مقصد سے برطانیہ نے اپنی بحریہ کے سب سے طاقت ور بیڑے کو ہندبحرالکاہل کے علاقہ (Indo-Pacific region) کے لیے روانہ کردیا ہے۔ اس بیڑے پر 32ایئرکرافٹ کے ساتھ 3700بحریہ کے فوجی سوار ہیں۔ اگلے سات ماہ تک یہ بیڑا بحیرئہ روم (Mediterranean Sea) اور ہندبحرالکاہل کے علاقہ میں 2,600سمندری میل کا سفر طے کرے گا۔ یہ وہ سمندری علاقہ ہے، جہاں کئی علاقوں پر قبضہ کے لیے چین جارحانہ رُخ اپنائے ہوئے ہے۔ اب برطانیہ یہاں ہندوستان سمیت کئی ممالک کے ساتھ 70سے زیادہ جنگی مشقیں کرکے چین کے خلاف دنیا کے صف آرا ہونے کا پیغام دینا چاہتا ہے۔
ہندوستان کے نظریہ سے دیکھیں تو جو ہورہا ہے، اچھا ہورہا ہے۔ موجودہ دور میں چین پر آفت ہمارے لیے راحت سے کم نہیں ہے۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب ہمارا تقریباً ہر پڑوسی یا تو مجبوری میں یا خواہشات کے سبب چین کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہوئے ہے۔ کورونا کی آفت میں موقع تلاش کرنے کی چین کی سازش پہلی لہر کے دوران ملک کی شمالی سرحد پر وادیٔ گلوان میں حملہ کے طور پر سامنے آئی تھی۔ اب دوسری لہر میں چین نے ہماری جنوبی سرحد پر نظریں ٹیڑھی کی ہیں۔ سری لنکا کے ہمبن ٹوٹا بندرگاہ پر قبضہ جمانے کے بعد چین اب کولمبو کے پاس ایک پورٹ سٹی بنانے جارہا ہے۔ بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر اس کا مطلب یہی ہے کہ کولمبو کی بندرگاہ اب چین کے قبضہ میں آچکی ہے اور آنے والے وقت میں وہ جب چاہے گا اس کی پن ڈبیاں، جنگی جہاز یہاں بغیر روک ٹوک ڈیرا ڈال سکیں گے۔ یہ جگہ کنیاکماری سے صرف290کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ یہاں تک کہ چنئی اور تری وندرم پر بھی ہر وقت خطرہ منڈلاتا رہے گا۔ ایسے وقت میں برطانیہ کے بیڑے کی اس علاقہ میں موجودگی سے بھلے ہی کشیدگی اور جدوجہد کے حالات پیدا ہوں، لیکن وہ چین پر ایک نکیل کا کام بھی کرے گا۔
بہرحال گیند اب ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے پالے میں ہے۔ امریکہ نے تو اپنی جانب سے جانچ کا بگل بجا دیا ہے۔ ممکن ہے کہ 90دنوں میں اس کی خفیہ ایجنسیاں کورونا کی پیدائش سے جڑی اہم معلومات نکال بھی لائیں۔ یہ معلومات چاہے جتنی درست ہوں، اگر یہ چین کے خلاف جاتی ہیں تو وہ ان کی صداقت پر ہمیشہ سوال اٹھاتا رہے گا اور کورونا کا سچ سامنے ہوکر بھی تسلیم نہیں کیا جاسکے گا۔ یہ تبھی ممکن ہوگا جب اس پر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی بھی مہر لگے گی۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)