بنیادی مسائل اور تنازعات کو ترجیح دینی ہوگی

0

امریکی اعلیٰ حکام کے بار بار کے دورہ ہائے سعودی عربیہ اور مغربی ایشیا دونوں ملکوں کے رشتوں میںکشیدگی اور کشیدگی دور کرنے کی خواہش کی طرف اشارہ کرتے ہیں ، مگر سعودی عرب اور اس کے حلیفوں کی فکریات حقیقی زمینی حالات پر مبنی ہیں ، جن کو دور کرنے اور یہاں تک ان مسائل کو تسلیم کرنے تک کی ضرورت ظاہر کی جارہی ہے۔پچھلے دنوں فلسطین کے محاذ پرشدت اور حدت دیکھنے کو ملی اس سے وہاں جانی مالی نقصان بڑھاہے اور غیر معمولی طور پر بڑھا ہے۔یہ دنیا کی واحد سرزمین ہے جو جنگ عظیم ،سرد جنگ اور اس طرح بڑے بڑے جنگی معرکوں کے خاتمہ کے بعد بھی جاری ہے۔ اسرائیلی جارح فوج کے ہاتھوں ہروزمعصوم بچوں ،بچیوں اور عورتوں کی ہلاکت معمول بن گئی ہے۔اگرچہ امریکی سفارت کاراور سفارتی دفاتر اس مسئلہ کی شدت کو علانیہ سنگینی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ، مگر سعودی عرب سے تعلقات استوار کرنے اور کرانے کی خاطر امریکی افسران کے مملکت سعودی عربیہ کے دورے ، مغربی اور امریکی سفارتی حلقوں میں بے چینی اور جھٹپٹاہٹ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔کچھ مغربی ذرائع ابلاغ کا کہناہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان حالات معمول پر آنے کا امکان ہے اور امریکی حکام کے بار بار کے سعودی عرب کے دورے اس کوشش کا حصہ ہے۔ذرائع کا کہناہے کہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ حالات معمول پر لانے کے لئے امریکہ کے ساتھ سخت شرائط رکھ رہاہے اور دونوں ملکوں میں مذاکرات اگر چہ سست روی مگر صحیح سمت کی طرف گامزن ہیں۔ان قیاس آرائیوں میں کہاجارہاہے کہ سعودی عرب تحفظ کودرپیش مسائل پر زیادہ فوکس کررہاہے اور اسرائیل کے ممکنہ نیوکلیئر حملہ کے اندیشوں کے پیش نظرتحفظ کی گارنٹی چاہتاہے۔امریکہ نے ان قیاس آرائیوں کوغلط قرار دیاہے۔
امریکہ کے قومی صلاح کار جان کر بی کااس بابت کہناہے کہ دونوں ممالک وسیع ترمقاصد اورایجنڈے پر راضی ہوگئے ہیں ، مگر کسی بھی حتمی نتیجہ پر پہنچنے کے لئے ابھی طویل مذاکرات جاری ہیں۔ خاص طور پر ان کے اس بیان سے لگتا ہے کہ مذاکرات کا سفرطویل ہوگا اور کسی سمجھوتے پر پہنچناآسان نہیں ہے۔ خیال رہے کہ مذاکرات کی سمت اور رفتار کاانحصار اسرائیل کے رویہ اور فلسطینی ریاست کے قیام پر مبنی ہے۔اسرائیل کسی بھی طور پراپنے موقف میں تبدیلی کا ارادہ ظاہر نہیں کررہاہے،بلکہ اندرون ملک جوڈیشل اصلاحات کے نام پر جو کھیل کھیلا جارہاہے اس سے یہ لگ رہاہے کہ وہاں جمہوری نظام کمزور ہوگا اور شدت پسند دائیں بازوںکے سیاستدان زیادہ طاقت ورہوجائیں گے۔امریکی صدر جوبائیڈن ان اصلاحات پر موجود وزیراعظم اسرائیل بنجامن نیتن یاہو سے ناراض ہیں اور دونوں لیڈروں میں ابھی ملاقات نہیں ہوپائی ہے اور فی الحال ملاقات کا کوئی امکان بھی مفقود نظر آرہاہے۔مگر اس کے باوجود امریکہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعطل کو ختم کرنے کی درپردہ کوشش کررہا ہے اور امریکہ اور اسرائیل کے درمیان کی اس حالیہ ’دوری‘ کو امریکہ اور اسرائیل ہتھیار اور سودے بازی کے روپ میں استعمال کرسکتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS