کوپ 27: قابل تعریف اقدام

0

اگر کسی وجہ سے پوری انسانیت پر خطرہ منڈلانے لگے تو اس وجہ کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ موسمیاتی تبدیلی بھی انسانیت کو خطرے میں ڈالنے کی وجہ بنتی جا رہی ہے، اس لیے اس سے بھی مل کر نمٹنا چاہیے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی سنگینی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ شرم الشیخ میں کوپ 27 کا اجلاس شروع ہوا تھا تواقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل، انتونیو گوتیریس نے یہ کہہ کر موسمیاتی تبدیلی کی سنگینی کا احساس دلانے کی کوشش کی تھی کہ انسانیت ماحولیاتی جہنم کی شاہراہ پر ہے لیکن کوپ 27 کے اجلاس کی خاص بات یہ رہی کہ ترقی پذیر ملکوں کے لیے 100 ارب ڈالر کے ایک سالانہ فنڈ کو منظوری دے دی گئی ہے۔ اس فنڈ کی مدد سے ترقی پذیر ممالک کی مدد کی جائے گی، خاص کر ان ملکوں کی مدد کی جائے گی جو غریب ہیں اور جنہیں امیر ملکوں کی طرف سے کاربن کے اخراج کی وجہ سے بڑھتی آلودگی کے باعث موسمیاتی شدت کا سامنا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے اثرات زیادہ یا کم ہر ایک ملک پر پڑیں گے، اس لیے اگر کوئی ملک چاہے کہ اس کے اثرات سے تنہا جدوجہد کرکے بچ جائے گا تو یہ ممکن نہیں۔ اس کے باوجود موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کے سلسلے میں ترقی یافتہ ملکوںکا رول مایوس کن رہا ہے۔ ان ملکوں کے لیڈروں کو یہ بات قبول کرنے میں جھجک محسوس نہیں کرنی چاہیے کہ ان کے اپنے مفاد کو اولیت دینے کی وجہ سے دنیا اس نہج تک پہنچی ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ تو کھل کریہ کہا کرتے تھے کہ انہیں امریکہ کا مفاد زیادہ اہم ہے۔ انہیں یہ سمجھانا مشکل تھا کہ دیربدیر امریکہ پر بھی موسمیاتی تبدیلی کے سنگین اثرات پڑیں گے، پھر امریکہ تنہا اس سے نمٹ نہیں پائے گا، اس لیے بہتر یہی ہے کہ وہ دنیا کے ساتھ چلے، دنیا بھر کے ملکوں کو یہ احساس کراتے ہوئے چلے کہ اسے بھی موسمیاتی تبدیلی کی سنگینی کا احساس ہے۔
جو بائیڈن نے صدارتی انتخاب کی تشہیری مہم کے دوران امریکیوں اور عالمی برادری کو یہ یقین دلایا تھا کہ وہ اگر صدر بن گئے تو موسمیاتی تبدیلی پر امریکہ کا رخ وہی ہوگا جو ڈونالڈ ٹرمپ کے صدر بننے سے پہلے تھا اور امریکہ کا صدر بننے کے بعد بائیڈن نے اپنے قول و عمل سے یہی ثابت کیا ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کی سنگینی کو سمجھتے ہیں اور اسی لیے اس بات کے کوشاں ہیں کہ امریکہ اس سلسلے میں اہم رول ادا کرے۔ اصل میں بائیڈن اورامریکہ کے اتحادی یوروپی ممالک کے لیڈران یہ جانتے ہیں کہ یہ دور پانچ دہائی پہلے والا دور نہیں ہے جب موسمیاتی تبدیلی کو کم لوگ سمجھا کرتے تھے، اس لیے اس پر کوئی ٹھوس پہل کرانے کے لیے بڑے احتجاج و مظاہرے کا اندیشہ کم رہتا تھا لیکن حالات آج بدل گئے ہیں۔ گریٹا تھن برگ جیسی بچیوں نے موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کے لیے مہم چلاکر یہ احساس دلایا ہے کہ نئی نسل موسمیاتی تبدیلی کی سنگینی سے بے خبر نہیں، چنانچہ عالمی لیڈران انہیں بہلانے کی کوشش نہ کریں، وہ موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کریں تاکہ ہر گزرتا ہوا دن ان کے مستقبل کو مزید تاریک نہ بنائے۔ اسی لیے موسمیاتی تبدیلی پر مصر کے شہر شرم الشیخ میں 6 نومبر، 2022 کو اقوام متحدہ کا اجلاس شروع ہوا تھا تو یہ امید کی جا رہی تھی کہ اس بار کچھ بہتر سننے کو ملے گا اور ملا۔ اسے 18 نومبر، 2022 تک اختتام پذیر ہونا تھا مگر نہیں ہوا۔ اس میں توسیع کرنی پڑی۔ یہ بات یہ ثابت کر دینے کے لیے کافی تھی کہ شرکا صرف شرکت کرکے واپس جانا نہیں چاہتے تھے، وہ کچھ امید افزا پہل کرکے واپس جانا چاہتے تھے۔ ترقی پذیر ملکوں کے لیے 100 ارب ڈالر کے ایک سالانہ فنڈ کی منظوری کو کوپ 27 اجلاس کی بڑی کامیابی سمجھا جانا چاہیے لیکن اس ضرورت سے بھی انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے عالمی لیڈروں کے ساتھ مقامی لیڈران بھی اپنا رول ادا کریں، عام لوگوں میں اس کے تئیں بیداری پیدا کریں، موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کے لیے اقدامات کریں۔ توانائی کا استعمال کم سے کم کریں، شجرکاری پر خصوصی توجہ دیں، کیونکہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے مالدیپ، تووالو، جزائر مارشل، ناورو اور کیریباتی کے اس صدی کے آخر تک یا اگلی صدی میں زیرآب آجانے کا اندیشہ ہے۔ ان ملکوں کو بچانے کے لیے بھی موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام پر توجہ دینی چاہیے، کیونکہ اقدامات کے لیے وقت کم بچا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS