’کشمیر فائلس‘ پر تنازع

0

کوئی فلم یوں ہی نہیں بن جاتی، اس کے بجٹ، کرداروں کے لیے اداکاروں، فلم بندی کے لیے مقامات کے انتخاب پر غور و خوض سے پہلے کہانی، منظرنامے، مکالمے پر کام کیا جاتا ہے۔ کہانی لکھتے وقت رائٹر کی پروڈیوسروں اور ڈائریکٹروں سے باضابطہ گفتگو ہوتی ہے کہ فلم کا مرکزی خیال کیا ہے۔ ’کشمیر فائلس‘متنازع بن چکی ہے، چنانچہ اس فلم کے ہدایت کار، پروڈیوسروں اور رائٹروں کو وطن عزیز کے لوگوں کو یہ بتانا چاہیے کہ اس کا مرکزی خیال کیا ہے، یہ فلم بنانے کا ان کا مقصد صرف روپے کمانا تھا یا کوئی خاص پیغام دینا چاہتے تھے اور اگر کوئی خاص پیغام دینا چاہتے تھے تووہ پیغام کیا ہے؟ کشمیر میں دیگر لوگوں کے مقابلے کشمیری پنڈتوں پر کتنا ظلم ہوا، مہلوکین کشمیری پنڈتوں کی اصل تعداد کتنی تھی، 19 جنوری 1990 سے 26 مئی 1990 تک جموں و کشمیر کے گورنر کی حیثیت سے جگموہن نے یا ان کے بعد کے گورنروں اور حکومتوں نے کشمیری پنڈتوں کے تحفظ کے لیے کیا کیا، یہ سب بحث کا الگ موضوع ہے، البتہ اس میں دو رائے نہیں ہے کہ کئی کشمیری پنڈتوں کو حالات سے نبرد آزما ہونا پڑا، گھربار چھوڑ کر جائے پناہ کی تلاش میں نکلنا پڑا اور کچھ کشمیری پنڈت جموں و کشمیر سے نہیں ہٹے ۔ گھر چھوڑنے والے کشمیری پنڈتوں میں ایسا ماننے والے لوگ بھی ہیں کہ اس وقت الگ قسم کے حالات تو تھے مگر مذہب کے نام پر ہندو مسلم کی چوڑی دیوار نہیں بنی تھی۔ اب یہ بحث کا الگ ایشو ہے کہ کیا اس وقت حالات ویسے ہی تھے جیسے نیلی، میرٹھ، مرادآباد، بھاگلپور اور ملک کے دیگر حصوں میں ہوئے فساد کے وقت تھے، البتہ جواب طلب سوال یہ ہے کہ ان فسادات میں جس درندگی کا مظاہرہ کیا گیا، کیا وہ سبھی دکھا دینے کو ہی فلم بندی کے فن کا مظاہرہ مانا جائے گا؟ ہرگز نہیں مانا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر فلم ساز فساد کی کہانی اس طرح دکھاتے رہے ہیں کہ لوگ فسادات سے نفرت کریں، انسانیت کی اہمیت سمجھیں، یہ مانیں کہ کوئی انسان دوسرے انسانوں کو مار کے انسان کہلانے کا حقدار نہیں ہو سکتا۔ 1947 کے فسادات کو دیکھ چکے فلم سازوں نے بھی فلمیں بناتے وقت یہ خیال رکھا کہ لوگ امن کی اہمیت سمجھیں، یہ جانیں کہ ہمارا بھائی چارہ ہی ہماری اصل طاقت ہے اور تہذیبی، لسانی تنوع ہی ملک کا فطری حسن ہے، اس کی رواداری میں ہی اس کی عظمت کا راز پوشیدہ ہے۔ تہذیبی وراثت کو سمجھنے اور انسانیت کی اہمیت جاننے کی وجہ سے ہی یش چوپڑا نے ’دھول کا پھول‘ جیسی فلم کی ہدایت دی جس میں ایک گمنام ماں-باپ کے بچے کی پرورش عبدالرشید کرتے ہیں اور وہ بچے سے کہتے ہیں، ’تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا؍انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا‘۔ کیا ایسے گانے،ایسے میسیج والی فلم بنانے کی امید ’کشمیر فائلس‘ کے ہدایت کار وویک اگنی ہوتری سے کی جا سکتی ہے؟
’کشمیر فائلس‘ کی حمایت وزیراعظم نریندر مودی اور وزیرداخلہ امت شاہ نے کی ہے اور ملک کے تیسرے بڑے درجے کی ’وائی سیکورٹی‘ وویک اگنی ہوتری کو دی گئی ہے لیکن اس فلم کے بارے میں ایک خیال یہ بھی ہے کہ اس فلم میں ’آدھا سچ‘دکھایا گیا ہے، یہ فلم اکثریتی فرقے کو پولرائزڈ کرنے کی ایک مذموم کوشش لگتی ہے، اس لیے فلم دیکھتے ہوئے یا ہال کے باہر نکل کر لوگوں کا مسلمانوں کے خلاف مذموم نعرہ کوئی چونکانے والی بات نہیں لگتی، چونکانے والی بات تو یہ بھی نہیں ہے کہ ’پرزانیا‘ کی نمائش پر پابندی کی حمایت کرنے والے لوگ ’کشمیر فائلس‘ کو پروموٹ کر رہے ہیں۔ راہل ڈھولکیا نے 13 سالہ بچے اظہر مودی کے 2002 میں گجرات فسادات کے دوران غائب ہو جانے پر فلم ’پرزانیا‘ بنائی تھی اور سینسر بورڈ سے پاس ہو جانے کے باوجود گجرات میں اسے ریلیز کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ ایسا نہیں ہے کہ دو فرقے کے مابین یا ایک ہی فرقے کے خلاف تشدد پر پہلے فلمیں نہیں بنی ہیں، ’بامبے‘ ، ’فراق‘، ’مسٹر اینڈ مسز ایئر‘، ’ارتھ‘ ، ’بلیک فرائی ڈے‘ ، ’دیو‘ جیسی شاندار فلمیں بنی ہیں مگر ان فلموں میں کسی خاص فرقے کو ٹارگیٹ کرنے کے بجائے یہ دکھانے کی کوشش کی گئی تھی کہ حالات کا فائدہ شر پسند عناصر کیسے اٹھاتے ہیں، بے قصور لوگوں کو کس قدر جان و مال کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے، حالات کی آگ کو بھڑکانے میں سیاسی سوداگروں کا رول کتنا تباہ کن ہوتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ گنگا جمنی تہذیب کی بقا اور ہندو مسلم بھائی چارے کو قائم رکھنے کے لیے بیشتر لوگ کوشاں رہتے ہیں مگر ’کشمیر فائلس‘ جیسی فلمیں انہیں چنوتی دے ڈالتی ہیں۔ تعجب اس بات پر ہے کہ یہ فلم سینسر بورڈ سے پاس کیسے ہوگئی اور تعجب اس بات پر بھی ہے کہ یہ فلم اس وقت ریلیز ہوئی ہے جب دنیا میںاتھل پتھل مچی ہوئی ہے۔ ’وشو گرو‘ بننے کے لیے ملک عزیز کو ہندوستانیوں کے اتحاد کی ضرورت ہے، اتحاد شکنی کی نہیں، تو پھر ہندوستان کے لیے ’کشمیر فائلس‘جیسی فلم کا کیا مطلب ہے، اس پر ہر اس شخص کو غور کرنا چاہیے جو صرف اس لیے ہندوستانی نہیں کہ اس ملک میں پیدا ہوا ہے بلکہ اس لیے بھی ہے کہ وہ اپنے وطن کی محبت کو محسوس کرتا ہے اور اس کے لیے سیاست کی نہیں، وطن کی اہمیت ہے!
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS