فیروزبخت احمد
مولاناابوالکلام آزاد ہندوستان کی اُن ہمہ جہت شخصیات میں سے ہیں جنھوںنے اپنی صلاحیت خداداد کی بدولت نہ صرف ہندوستان کی سیاسی رہنمائی کی بلکہ جدید ہندوستان کے لیے ایک بنیاد بھی فراہم کیا۔ جدیدآزادجمہوری ہندوستان کوایک مثبت بنیادفراہم کرانے کے ضمن میں اُن کی بے لوث اور بے پایاں خدمات ناقابل تلافی ہیں۔ آج ہم جس آزاد ہندوستان کی کھلی فضا میں سانس لے رہے ہیںیہ اُنھیں ایسے بیدارمغزشخصیات کے رہین منت ہے۔ اب یہ بات اور ہے کہ متاخرین نے اُن کے نظریات کو یکسرنظرانداز کرکے حالات کو پراگندہ کردیالیکن اگر اُن کے ذریعہ وضع کیے گئے خطوط پر ہندوستانی شعبۂ تعلیم عمل پذیرہواہوتاتو شاید ہندوستان میں تفریقات کا خاتمہ ہوچکا ہوتا۔یہ ہمارے ملک کی بدنصیبی ہی تصورکی جائے گی کہ مسائل کاحل تلاش کرنے کے بجائے اُس سے روگردانی ہندوستانی سیاست کاوطیرہ رہاہے۔چندحقیرمادّی خوشحالیوں کی خاطرسیاست کا جنازہ نکلنامعمولات میں شامل ہوچکا ہے۔بہرحال،یوںتو مولاناآزاد کی مادری زبان عربی تھی لیکن وہ اُردو زبان کے بھی صاحب اُسلوب اِنشاپرداز تھے۔اُن کا رہوارِ قلم جس بھی میدان میں چلتاتھا،اُسی میدان میں اپنی سرعت کا مظاہرہ کرتاتھا۔رائے کو اِس انداز سے پیش کرتے کہ پڑھنے والا اُن کا گرویدہ ہوئے بغیر نہیںرہ سکتاتھا۔ موادکا اِنتخاب اور اندازِپیش کش میں مطانت کچھ ایسے عناصرتھے جو مولانا کی تحریروں کا خاصہ تصور کیے جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا اپنے دور کے چند اہم ترین اور مقبول اِنشاپردازوں میں شمارکیے جاتے تھے۔اُن کے مواد میں بلاکی کشش ہوتی تھی۔وہ اپنی رائے کی پیش کش میں منطقی ترتیب کو کبھی بھی نظرانداز نہیں کرتے تھے۔نتیجتاً قارئین پر اُس کے مثبت اثرات مرتسم ہوتے تھے۔اُن کی باتوں میں اِس قدر سلاست وروانی ہوتی تھی کہ قارئین اگر اُن کے مضامین یا تحریروں کو پڑھنا شروع کردیں تو اُن سے وہ کبھی بھی اوب نہیں سکتے تھے۔اُن کے اِنھیں خداداصلاحیتوں کے ثمرات ہیں کہ معاصر معاندین کی ریشہ دوانیاں بھی اُن کے خلاف کارگرنہ ہوئیںکیوںکہ پالنہارِ کائنات نے اُنھیں اِس قدریں صلاحیتوں سے نوازاتھا کہ کوئی بھی اُن سے ایک مرتبہ بات چیت کرلے تو حالات مولانا کے حق میں ہوجاتے تھے۔
مولاناابوالکلام آزاد ایک صائب الرائے مصنف تھے۔اُن کی رائیں اِس قدر پختہ اور پایۂ دارہوتی تھیں کہ اُن کا متبادل تلاش کرنے کے لیے بے پناہ ذہانت اور اعلیٰ فکری صلاحتیںدرکارہوتیں۔نتیجتاًوجودِرشک کے عناصر کو خارِج ازاِمکان نہیں گرداناجاسکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مولانااپنی تحریروں میں کبھی بھی ایسے عناصر کی شمولیت کو خارج کردیتے تھے جو معاندین کے لیے حالات کی فراہمی کو یقینی بنادے۔زبان پر مولانا کی گرفت اِس قدر مضبوط اور مستحکم تھی کہ معاصر ماہرزبان تصور کیے جاتے تھے۔لفظوں پر اِس قدر قدرت رکھتے تھے کہ جہاں اِستعمال کیا وہیں اُس کے معنی میں وسعت پیداہوگئی۔ جب ہم اُن کی تحریریں پڑھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا اِس قدر قادرِالکلام تھے کہ بیک وقت ایک ہی معنی ومفہوم کے لیے کئی کئی متبادلات کا اِستعمال کرنے کی قدرت رکھتے تھے۔ مولانانے اپنی تحریروں میں عربی وفارسی کے ذخائرسے بھرپور اور مفید مطلب اِستفادہ کیاہے۔اُن کے اِس عمل کا نتیجہ یہ ہوا کہ زبانِ اُردو کے ذخیرۂ الفاظ میں نہ صرف اِضافہ ہوا بلکہ یہ زبان زندگی کے تمام ہائے مسائل اور حالات نیز ادوار کے موضوعات کو بیان کرنے میں اہل ہوگئی۔عربی وفارسی کے ذخائرسے لفظوں کے اِنتخاب کے دوران اُنھوں نے اِس بات کا پورا پورا خیال رکھاتھا کہ اپنی تحریروں میں لفظوں کو اِس طرح سے مختلف مقامات اور مختلف اغراض کے لیے استعمال کریں کہ قارئین کے لیے اگر وہ الفاظ نامانوس ہوں تو وہ اُن سے بخوبی واقف ہوجائیں۔آج جس اُردو زبان کو ہم بول رہے ہیں،لکھ رہے اور پڑھ رہے ہیں ،اِس کی ترقی میں کہیں نہ کہیں مولاناابوالکلام آزاد کی بے پایاں محنتیں اور بے لوث اُلفتیں بھی شامل حال رہی ہیں۔مولانانے کبھی بھی زبان سے کسی چیز کامطالبہ نہیں کیابلکہ اُن سے جوکچھ بھی بن پڑااُنھوںنے اُس کو بخوبی نبھایا۔وہ کبھی بھی حالات سے سمجھوتہ کرنے کے قائل نہیںتھے۔اُن کے نظریات ہمیں اِس جانب سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کبھی بھی اُنھوںنے وقت کے تیزتندجھونکوں کی ہم نوائی نہیں کی اور سرنگوں نہیں ہوئے بلکہ اُنھوںنے دیوانہ وار حالات کا مقابلہ کیا اور اُنھیں موافق کرنے کی حتی المقدور کوششیں کیاکیں۔اُن کے اِنھیں جذبات کا اورنقطئہ نظر کا ثمرہ ہے کہ آج ہندوستان میںقوم مسلم کم ازکم حالات سے نبردآزمائی کا حوصلہ رکھتی ہے۔مولاناابوالکلام آزاد ایک ہمہ جہت اور کثیرسمتی صلاحیت کے حامل تھے۔ایسا نہیں ہے کہ اُن کی ساری زندگی محض سیاست یا محض ادب یا اِسی طرح سے محض تقریر تک ہی محدود ہوکررہ گئی تھی بلکہ اُن کی زِندگی کے کئی ایک پرت ہیں۔ہم جتنی گہرائی کے ساتھ اُن کا مطالعہ کریں گے اُتنی ہی پرتیں یک بہ یک کھلتی جائیں گی۔ جب ہم اُن کی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی میدان میں ماند نہیں پڑے بلکہ وہ ہرایک میدان میں صف اوّل میں ہی شمارکیے جاتے رہے تھے۔ مثال کے طورپر اگر ہمیں اُن کی زندگی کے ایک پہلو ادب کو ہی دیکھنا ہوتو ہمیں اُن کی فکر میں اِستقامت،صاحب طرزاِنشاپرداز،صاحب اُسلوب مصنف کی صورت میں مولانا کی شخصیت نظرآتی ہے۔مولانانے ادب کی دونوں معروف شکلوں یعنی نظم اور نثردونوں میں ہی خامہ فرسائی کی۔محض 14برس کی عمر میںہی اُنھوں نے غزل گوئی کا آغاز کردیا تھا۔ اُس دور کے معروف معیاری ادبی رسالوں میں اُن کی غزلیں شائع بھی ہوئی تھیں۔ اِسی طریقہ سے اُنھوںنے نثر کی شکلوں میں بھی اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا۔مضمون نویسی ہویا ترجمہ نگاری اور اِسی طرح سے خطوط نویسی یا دیگر اصنافِ نثر قریباً اُس وقت کے تمام ہی مروجہ اصناف میں مولانانے طبع آزمائی کی۔مولاناکی تحریریں پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا کا مطمح نظر بالکل واضح تھا۔وہ جس موضوع کواُٹھاتے تھے نہایت سبک روی کے ساتھ اِس طرح بیان کرتے تھے کہ قارئین کو سمجھنے میں ذرا بھی تاخیر نہیںہوتی تھی۔مولانا کی پوری زندگی جدوجہد سے بھری ہوئی تھی۔جب سے اُنھوں نے اِس دارِفانی میںآنکھ کھولی تبھی سے اُن کی زندگی کے جدوجہد کے دن کا آغازہوچکاتھا۔طرح طرح کے مصائب وآلام سے اُنھیں دوچارہوناپڑاتھا۔مولانا کی زندگی پر نظررکھنے والوں کو بخوبی اندازہ ہوگا کہ کس طرح کے مسائل سے مولانا دوچارتھے۔محض15برس کی عمر میں جب اُنھوںنے شاعری شروع کی تھی تو اُن کے گھر میں اِس بات کی اِجازت نہیں تھی کہ وہ مجلسوں میں جاسکیں۔پھر جب اُنھوںنے ایک رسالہ جاری کرنے کا اِرادہ ظاہر کیا تو وسائل کا خیال آتے ہی تمام اِرادے فق پڑجاتے تھے لیکن یہ مولانا کی ہمت اور لگن ہی کہاجائے کہ اُنھوںنے کبھی بھی حالات سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ نامساعدحالات کے تذکرہ سے صرف نظرکیاجاتا ہے۔یوں تو مولانا ابوالکلام آزاد کی پیدائش مکہ میں ہوئی تھی اور اُن کا زیادہ تر حصہ کلکتہ میں گزراتھالیکن اُن کے آباواجداد دہلی کے رہنے والے تھے اور اُن کی نسل دہلوی تھی۔ وہ کام کے سلسلہ میں کبھی دہلی تو کبھی لکھنو میں قیام کیاکرتے تھے۔ زبان کے اعتبار سے یہ دونوں نام کافی اہم تصور کیے جاتے ہیں اورجدید اُردو زبان کی بنیادیں خصوصاًاِنھیں دونوں مقامات میں پیوست ہیں حالاںکہ دیگر ادبی اِسکول بھی رہے ہیں لیکن مرکزیت اِنھیں دونوں اِسکولوں کو حاصل تھی۔مولاناابوالکلام آزاد دہلوی اور لکھنوی دونوں اسالیب کی باریکیوں کو بخوبی جانتے تھے کیوںکہ اُن کاقیام دہلی اور لکھنو دونوںمقامات پر رہاتھا۔ اُنھوںنے لکھنومیں جریدہ کی اِدارت بھی کی۔قیام لکھنوکے دوران اُنھوںنے لکھنو کی لسانی خصوصیت کو نہایت باریکی کے ساتھ محسوس کیااور اُس کو اپنی تحریروں میں شامل کیا۔اِسی طرح سے اُن کاقیام دہلی میں بھی رہاتھا۔ یہ مولانا ابوالکلام کاادبی ولسانی ذوق ہی تھا کہ وہ آسانی کے ساتھ لسانی باریکیوں کو بخوبی سمجھ جاتے تھے۔ وہ اِس معاملہ میں کبھی بھی غلط فہمی کا شکار نہیں ہوئے اور نہ ہی کسی لفظ کو اُس کے معنی کے برخلاف اِستعمال کیا۔اِسی وجہ سے مولانا کی تحریریں اور اُن کے مباحث اہل علم کے لیے سند کا درجہ رکھتی تھیں۔اِسی ضمن میںملاحظہ کیجیے ایک واقعہ، مولاناعبدالماجد دریابادی نے انگریزی کے لفظ ’’پلیزر‘‘ کا ترجمہ ’’حظ وکرب‘‘ کیاتھا۔ مولاناابوالکلام نے اُسی لفظ کا ترجمہ ’’لذت والم‘‘کیا۔مولانا عبدالماجد دریابادی نے اپنے لفظ پر اصرارکیالیکن مولاناآزادکواِس قدر اِعتمادتھاکہ اُنھوںنے مولانا عبدالماجددریابادی کو لاجواب کردیا۔ عام قارئین کو بھی اندازہ ہوسکتا ہے کہ کون سالفظ اپنی سلاست اور روانی کے اعتبار سے بہتر ہے۔اِسی طرح سے مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے تخلیقی ذہن کااِستعمال کرتے ہوئے نئے نئے الفاظ کو وضع کیا اور اِسی طرح سے نئی نئی ترکیبوں کو اپنے مضامین اور اپنی تحریروں کے ذریعہ اُردو میںاضافہ کیا۔ اِسی طرح سے اُنھوںنے عربی کے اُن سبک لفظوں کو اپنی تحریروں کے ذریعہ رائج کیا جو اُردو زبان میں بخوبی اِستعمال ہوسکتے تھے۔ اُنھوںنے اِس طرح کے اقدامات سے اُردوکوخود کفیل بننے میں بھر پورمدد کی۔نتیجے کے طورپر اُردو زبان کے ذخیرۂ الفاظ میں خاطرخواہ اِضافہ ہوا۔
مولانا نے اپنی خلاقانہ ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُردو کے ٹکسالی الفاظ میں اِضافہ کیا ۔مثال کے طورپر اُنھوںنے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرکے نئے نئے الفاظ کو وضع کیا جیسے ایڈیٹر کی جگہ مدیر مسئول،محررِخصوصی اور رئیس القلم تحریر کیا۔جریدہ کی جگہ مجلہ اوروِلایتی ڈاک کی جگہ بریدفرنگ،حیرت انگیز کی جگہ محیرالعقول جیسے بے پناہ لفظوں کو وضع کرکے اُردو زبان کو مالامال کردیا تھا۔مولانا نے اُردو کو مزید آگے بڑھانے کے لیے لغت کی کمی کو محسوس کیانتیجے کے طورپر اُنھیں اُردو—فارسی لغت بنانے کا شوق پیداہوگیاتھا۔اِس کے لیے اُنھوںنے باقاعدہ کوشش بھی شروع کردی تھی اور اِس ضمن میں الفاظ کا ایک اچھا خاصا ذخیرہ بھی کرلیاتھا۔اِسی طرح سے محاورات کو بھی آپ نے بہت حد تک اِکٹھاکرلیاتھا۔ اب تو یہ وقت کی ستم ظریفی تھی کہ حالات سازگار نہیں رہے تھے اور مولانا کا یہ کام ادھورا ہی رہ گیا اور اِس ضمن میں مولاناکایہ خواب شرمندۂ تعبیرنہیں ہوسکا۔اِس عنصر سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد نہ صرف اُردو زبان و ادب میں خصوصی دِلچسپی رکھتے تھے بلکہ اُس کے سامنے درپیش مسائل سے منہ موڑنے کے بجائے اُس کو حل کرنے میں یقین رکھتے تھے تاکہ آنے والے لوگوں کے لیے اُردو زبان وادب کی رسائی کو یقینی بنایاجاسکے۔